مرحوم غازی سعید شاہ بخاری المتخلص غازی ”اسباق ِدل“ کے تناظر میں

ریاست جموں و کشمیرقومی شاہراہ کے عین وسط میں آباد....دریائے تُند مزاج”چناب“ کی قدرتی تقسیم کی حد کا شکار رام بن ....”سوہنی مہوال“....کی داستانِ عشق کے آخیری پڑاﺅ کے عقب میں ایک کوہستانی علاقہ فلک بوس ٹیڑے میڑے پہاڑوں کی آغوش میں ....گُول....کے نام سے موسوم ہے جو کہ قدرتی دلفریب رعنائیوں کا جلوہ بکھیرے آباد ہے۔ یہ خطہ ضلع رام بن کے نقشے پر ایک نیم عُریاں تحصیل کا رتبہ پایا ہوا علاقہ ہے جہاں پر ناظم تحصیل بصورت تحصیلدار تو بیٹھتا ہے مگر مکمل تحصیل کے درجہ کے بغیر اس مردم خیز خطہ ارض پہ مقیم ہندو مسلم فرقہ سے وابستہ شیخ و براہمن کے اجمال باہمی رابطہ کے قدر ِ مثالی بھی ہیں اور قابل ِ وضاحت بھی۔ مختلف گاﺅں جات میں آباد محنت کش دہقان مختلف انواع کی فصلیں اُگاتے ہیں ۔ یہاں پر مختلف میوا جات کی فروانی بھی ہے ،کو ہستانی خطہ ہو نے کے موجب مال مویشی پالنے کا رواج اُتم پا یا جا تا ہے ۔ نسلِ نو کو ذہنی نشو و نما کی بالیدگی اور بلوغت کے لئے ڈگری کالج ،آئی ٹی آئی ، ہا یئر سکینڈری سکول، ہائی سکول، مڈل سکول کے ساتھ ساتھ پرائمری درجہ تک کے مدارس روبہ عمل ہیں۔ علاوہ اس کے کچھ پرائیویٹ اکیڈمیز بھی تعلیمی پھیلاﺅ میں منہمک ہیں ۔ مو جب جنکے نسلِ نو اب خواندگی کی شرح کے اضافہ کی منزل کی جانب گامزن ہے اور معیار ِ فہم کی نمائندگی کی فضا پو رے علاقہ میں پھیل رہی ہے اور آنے والی نسل تعلیمی سانچوں میں ڈھل کر اپنے وجود کی توثیق کر رہی ہے ۔ ادبی اعتبار سے باوجود اپنے گذشتہ پچھڑے پن کے بھی یہ علاقہ اپنی ساکھ بر قرار رکھے ہو ئے ہے ۔ مرحوم نِدا کوہستانی، مرحوم ابرار احمد مہر ، اور مرحوم غازی سعید شاہ بخاری کے علاوہ با حیات محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ ، محمد شفیع جرال ، خواجہ عبدالغنی وانی مصروف گلاب گڑھی ،چوہدری نسیم گلاب گڑھی ،مجروح نور محمد،غلام رسول وانی المتخلص نظر ،گُل محمد حالنی ،غلام محمد بھورا،ناظر حفیظ، اعجاز احمد اعجاز،زاہد رحمت اللہ ،فیروز دین زوہد،مستفیض راحت ،معصوم الحق معصوم ،ساقی مشتاق، قاضی محمد شریف ،بشیراحمد بشیر ،غلام قادر مغل،(سابقہ ڈی سی ) کے علاوہ اور بھی کچھ شائقین ِ فکر و ادب بزبان،اُردو ، کشمیری اور گوجری کچھ نہ کچھ خامہ صرائی کی جانب متوجہ ہو کر ادب کی خدمت کر رہے ہیں متذکرہ بالا صف ِ شعراءو ادباءمیں شامل محترمہ ہاجرہ بیگم کا شعری مجموعہ ....دِل کے چراغ.... محمد شفیع جرال کے افسانوی مجموعے ....”روتے دِل افسانے “....”مایوس صحرا “....”ارمانوں کے مزار“اور گھوڑا گلی “منظر ِ عام پر آکر اپنی ادبی کار ہا ئے نمایاں کی توثیق کروا چکے ہیں ۔ غلام رسول وانی کا نثری شاہکار بعنوان ”یہ خطہ بھی حصہ ہے وادری کشمیر کا “خواجہ عبدالغنی کا کشمیری شعری مجموعہ ”نالہ نظر“ نورمحمد مجروح کا گوجری مجموعہ ”نین سلکھنا“غلام قادر مغل کا نثری مجموعہ ”میں اور میرا گاﺅں“کے ساتھ ساتھ مرحوم غازی سعید شاہ بخاری المتخلص غازی کا شعری مجموعہ بعنوان”اسباقِ دِل“ صاحبان شعر و ادب بطورِ اثاثہ علاقہ کی ادبی نمائندگی کر تا ہے۔

سرِ دست احقر کے زیر مطالعہ مرحوم غازی کا شعری مجموعہ بعنوان”اسباق ِدِل “ جو کہ راقم لسطور کو معرفت” محمد شفیع میر“ کاتب روز نامہ اُڑان جموں دستیاب ہوا ہے اسی پہ بطورِ تبصرہ چند سطور رقم کرنے کی سعادت پا کر رہا ہوں ۔

مرحوم موصوف بدقسمتی سے عالم ِ شباب میں ہی دارِ فانی کو کوچ کر گئے ۔ مگر اپنی فطری صلاحتوں کے جوہر پاروں کو صورتِ اشعار.... تادیر تلک پیکر ِ حیات بخش کر جاوداں ہو ا ہے ۔ مجموعہ بشمول اپنی رودار بعنوان ِ ”اپنی بات“ بہ نمونہ نثر کل77صفات پہ محیط ہے ۔حسبِ دستور آغاز میں ”حمد “ کا شعری رقم ہے علاوہ اس کے دیدہ زیب”انتساب“ بھی منقش ہے ۔ مجموعی طور پر مجموعہ کی ترتیب تالیف قابلِ ستائش ہے ۔

غازی اپنے ”انتساب“ میں رقم طراز ہیں کہ ”اہلیا ن ِ گُول کے ذی شعور انسانوں کے نام اس اُمید کے ساتھ کہ وہ نئی نسل کی آبیاری فرما کر ادب شناسی کا ثبوت فراہم کرینگے ۔غازی سعید شاہ بخاری گوُل مورخہ 4جولائی2003ء۔لگتا ہے کہ رب ِ کریم نے مرحوم موصوف کو وقت از قبل پیشگی طور پر اپنی بار گاہ میں حاضری کی بشارت دی تھی ۔ مرحوم موصوف اپنی بات کے عنوان میں رقم طراز ہیں کہ ” میرا نام سعید شاہ بخاری ہے تخلص غازی کرتا ہوں اور پیشہ سے مدرس ہوں، میں یکم اپریل 1977ءکو ریاست جموں و کشمیر ضلع ادھمپور تحصیل گُول گلاب گڑھ موہڑہ جمن داخلی گُول کے سعید خاندان محترم حسین شاہ کے گھر پیدا ہوا ۔میرے والدین چونکہ انپڑھ تھے اس لئے انھوں نے اسکول میں میرے داخلہ کے وقت میری تاریخ پیدائش یکم اپریل 1973ءاندراج کروائی تھی جبکہ یکم اپریل 1977ءدرست ہے ۔ ابتدائی تعلیم دستورِ زمانہ کے مطابق اُردو ، انگریزی دونوں زبانوں میں پہلے مڈل سکول گُول اور پھر ہائی سکول گُول میں حاصل کی اسکے علاوہ عربی تعلیم پہلے درس گاہ اور بعد میں گھر پر ہی معلم سے حاصل کی میٹرک کا امتحان امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کرنے کے بعد گیارویں جماعت میں ہائیر سکینڈری سکول گُول میں داخلہ لیا لیکن کچھ تو پڑھائی میں دِل نہ لگنے کے باعث اور کچھ مالی مشکلات کے باعث تعلیم چھوڑ کر فکرِمعاش میں گھر سے نکل پڑا ، تقدیر کے تھپیڑوں نے پنجاب، دہلی، یوپی، ایم پی، مہاراشٹراور گوا کی گلیوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا ۔ لیکن آلامِ روز گار کو آساں نہ بنا سکا“ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرحوم موصوف کو وقت کے لیل و نہار سے کس قدر اور کس حد تک دوچار ہو نا پڑا ہے ۔ شعری زبان میں بقول ِ اُن کے ہی ........
ہم راتوں کو کب سوئے تھے
اب نیند تو بے معنی ہے
وہ جو مجنوں صفت بنا غازی
دشت صحرا کی خاک چھانے ہے

مگر بقول ِ شاعر ....پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا....کے مصداق مرحوم کو بلآخر اپنے آبائی وطن گُول کے ایک نجی مدرسہ نے پناہ دی اور قلیل رقم کے عوض بطورِ مدرس تاحیات ذریعہ معاش عطا کیا۔ اسی دوران گہہ قید و بند کی صعوبتوں سے بھی دو چار ہو نا پڑا ۔........جہاں تک مرحوم موصوف کے شعری معیار کا سوال ہے تو قدرتی طور پر جب انسان مانوس اور نا مانوس تجربات کے مسائیل سے دست و گریباں نظر آتا ہے تو اس کے خیالات شعری یا پھر افسانوی پیکرمیں ڈھل کر اپنے وجود کی توثیق کرتا ہے ۔ اور وہ اپنے تمام تر فطری و فکری رجحانات کو ادب کی زنبیل میں محفوظ کر دیتا ہے۔ وقت کے تُند خو تھپیڑوں کی ضرب کاری زندگی کے اساسی محرکات بن کر فنکار کے تخلیق کیمیا گری کے عمل سے گذرتے ہیں تو اس کی سوچ اور فکر میںہمہ گیری پیدا ہوتی ہے غازی مرحوم خود رقم طراز ہیں ....
زیست کے ہر اک موڑ کو دیکھ کر
زندگی کے روح فرسا خم لکھدئے
فلک سے اُتر آئے اشعارغازی
عنایت ہو ئے جو قلم لکھدئے

اشعار بالا میں حکیمانہ شعور کے ساتھ ساتھ شاعر کے استزائیہ لہجہ کی اشاریت بھی قابلِ داد ہے باوجود صحرا نور دگی کے مٹی کی مہک اور اسکی ہوا جو دھوپ کے لمس سے نمو اور روئیدگی کی ضمانت بنتی ہے اس کے تخیل میںمسلسل اذان دیتی نظر آتی ہے لکھتے ہیں........
موسم ِ گُل میں آﺅ کبھی گُول تم
اپنے غازی پہ اک مہربانی کرو
اس پہ اکتفا نہیں فرماتے ہیںکہ........
سیب و زعفران ہے اپنی شناخت
علم و عرفان کے دریا بہتے ہیں
سادگی میں بڑے ہی دلکش تو
گُول کے بس گلاب ہو تے ہیں
بے کیف زندگی میں آجائے حضور
شائد بنے اپنا بھی کردار جان ِ من

مجموعہ طور شاعر موصوف کے مجموعہ کلام بعنوان”اسباق ِ دِل “ کے مطالعہ سے اخذ ہو تا ہے کہ اس جواں سال مرحوم شاعر و فنکار میں شعری حس و دیعت میں نقیب تھا مگر فنی اعتبار سے گہہ گہہ معنو ی تقابل اور بندش ِ الفاظ کے غلط وطیرہ نے شعریت کے فن کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے ، کاش....!!کلامِ شاعر کتابی صورت میں آنے سے قبل کسی صاحب فن کی نظر سے گذرا ہوتا تو قدرتی طور مجموعہ ایک تراشیدہ شہکار بن جا تا۔ مگر پھر بھی یہ مختصر سی تصنیف مرحوم کا دیوان گردانہ جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا ۔ اُمید ہے کہ مرحوم موصوف کے انتساب کے حوالہ سے رقم زدہ خواہش کو پیش رو رکھتے ہو ئے نسلِ نو ،مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے اسکی خواہش پہ کھرا اُتر کر اپنی ادبی صلاحتوں کا لوہا منوائیں گے۔ بقول مرحوم غازی........
اب میں کیا کہوں تم کیا رکھنا
ہاں لب پہ حرفِ دعا رکھنا
تم منزل کو چھو ہی لو گے
اک عزم سے اپنا رشتہ رکھنا

ربِ الکریم سے دعا ہے کہ وادی گوُل کی آغوش میں پلنے والے غازی ادب نو نہالان مرحوم غازی کی آرزﺅں کا ثمر شریں ثابت ہو ں آمین ثمہ آمین
اے نظام ِ زیست تیرا بھی عجب انداز ہے
تو سردوکیف گاہے گاہے تو رنج و ملال
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 33532 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More