خواتین کو کنٹرول کرنے والا لفظ

معروف افسانہ نگار علی عباس حسینی نے لکھا تھا کہ لفظ ”ماموں“ میں ایسی مٹھاس ہے کہ سانپ کو بھی ماموں کہیں تو نہیں ڈستا! افسانہ نگار واقعی جادوگر ہوتے ہیں، الفاظ کی مدد سے سماں باندھ دیتے ہیں۔ علی عباس حسینی نے جو لکھا ہے وہ ہم نے، آپ نے تو پڑھ لیا مگر سانپوں نے نہیں پڑھا۔ سانپ کے آگے لفظ ”ماموِں“ کی مٹھاس آزمانے کی کوشش کبھی مت کیجیے گا!

کون نہیں چاہے گا کہ دوسروں کی نفسیات پر اثر انداز ہونے والے الفاظ تلاش کرے اور پائے؟ اِس معاملے میں اخبار نویس یعنی رپورٹرز غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ پریس کانفرنس میں وہ ایسے الفاظ ضرور زبان پر لاتے ہیں جو مائکروفونز کے سامنے بلا تکان بولنے والے سیاست دانوں کو ایڑ لگاتے ہیں! مثلاً رحمٰن ملک کے سامنے طاہرالقادری اور نواز شریف کے سامنے پرویز مشرف کا نام لیجیے اور پھر بولنے کی بہار دیکھیے! طاہرالقادری کے سامنے ”تختِ لاہور“ کی شان میں کچھ کہیے اور پھر تحریک منہاج القرآن کے سربراہ کی خطیبانہ شان ملاحظہ فرمائیے!

ہم کہاں اور علی عباس حسینی کہاں! مگر پھر بھی سانپ اور ماموں کی طرز پر ہم نے بھی تھوڑی بہت کوشش کی اور ایک ایسا لفظ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے جو خواتین کے لیے غیر معمولی مٹھاس ہی نہیں رکھتا بلکہ اُنہیں کنٹرول کرنے کے بٹن کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے!

خواتین کو رام کرنا ہو یا اشتعال دلانا ہو، صرف ایک لفظ استعمال کیجیے اور پھر تماشا دیکھیے۔ ”فیشن“ وہ لفظ ہے جسے سُن کر بیزار سی بیٹھی ہوئی خواتین آن کی آن میں متحرک ہو جاتی ہیں اور اگر غُصّے سے بپھری ہوئی ہوں تو ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں! یہ ایک لفظ اُن کے دِل و دِماغ کی دُنیا کو ایسا پلٹ کر رکھ دیتا ہے کہ پھر تادیر سیدھا نہیں ہونے دیتا!

بیشتر خواتین مردوں کے مظالم کا راگ الاپتی ہوئی ملتی ہیں مگر حقیقت کچھ یوں ہے کہ جتنے مظالم فیشن نے خواتین پر ڈھائے ہیں اُتنے مظالم ڈھانے کا تو مَرد سوچ بھی نہیں سکتے! اور ویسے بھی گرہستی چلانے کی فکر میں غلطاں رہتے رہتے وہ بے چارے کچھ سوچنے کے قابل رہے کب ہیں؟ کہانی کا سب سے دلچسپ موڑ یہ ہے کہ فیشن کے نام پر خواتین اپنے لیے طرح طرح کے سِتم ایجاد ہی نہیں کرتیں، اُنہیں بخوشی گلے بھی لگاتی ہیں! ممکن ہے خواتین کی یہ روش دیکھ کر ہی ججوں نے ”از خود نوٹس“ کو پریکٹس کا حصہ بنایا ہو!

خواتین نہ ہوں تو فیشن کے بازار میں تالا بندی ہو جائے، بلکہ لفظ ”فیشن“ کے استعمال کا فیشن ہی دم توڑ دے! اِس ایک نامُراد لفظ نے ایسا اندھیر مچا رکھا ہے کہ خواتین بے چاری پریشان ہی رہتی ہیں کہ فیشن کے معاملے میں کس کی مانیں، کس کی نہ مانیں۔ میر تقی میر کہہ گئے ہیں۔
مُستند ہے میرا فرمایا ہوا

مگر خواتین کسی میر ویر کو نہیں جانتیں۔ اُن کے لیے تو صرف وہی مُستند ہے جو فیشن نے فرمایا ہو!

آج تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ خواتین فیشن کی زیادہ دلدادہ ہیں یا فیشن خواتین کا زیادہ غلام واقع ہوا ہے! یوں کبھی کبھی تو یہ طے کرنا بھی انتہائی دُشوار ہو جاتا ہے کہ خواتین فیشن کے مطابق چلتی ہیں یا فیشن خود خواتین کے نقش قدم پر گامزن رہتا ہے! اِس اعتبار سے دیکھیے تو ہر جورو کے دو غلام ہوتے ہیں۔ ایک تو ہوتا ہے وہ غلام جو واقعی جورو کا غلام ہوتا ہے، اور دوسرا غلام ہوتا ہے فیشن!

بات جب ضد کی آ جائے تو پھر کوئی اگر دُنیا کی بہترین مٹھائی بھی لائے تو شاید نہ کھائیں مگر فیشن کے نام پر خواتین تسلیم شدہ زہر بھی بہ خوشی حلق سے اُتار لیتی ہیں! فیشن کی لاج رکھنی ہو تو خواتین اپنے لیے سُولی بھی خود منتخب کریں اور بخوشی لٹک جائیں!

جس طرح رحمٰن ملک کے پاس الزام دَھرنے کے لیے دہشت گردوں کے نام ختم نہیں ہوتے بالکل اُسی طرح خواتین کے مزاج کی زنبیل میں فیشن کا خزانہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا!

نزلے سے بال زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ فیشن کے نزلے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ فیشن کا نزلہ سب سے زیادہ ہیئر اسٹائل پر گرتا ہے۔ خواتین کے سَروں پر کبھی تو بال چڑیوں کے گھونسلے کی سی شکل اختیار کرتے ہیں اور کبھی ایسے سیدھے ہوتے ہیں جیسے سڑک پر تازہ کارپیٹنگ کی گئی ہو! کبھی بال آپس میں ایسے اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں جیسے ”مَلاکھڑا“ ہو رہا ہو! کبھی ایسے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں جیسے ہیلمٹ کے بغیر تیس چالیس کلومیٹر موٹر سائیکل چلائی ہو! کبھی بال ایسے ملائم دِکھائی دیتے ہیں جیسے گڑیا کے بال اور کبھی ایسے سخت کہ کنگھی اور برش کے لیے جی کا جنجال!

فیشن کے رونق میلے میں سب سے عجیب و غریب اسٹال لیڈیز ٹیلرز نے لگائے یا لگوائے ہیں! خواتین کے ملبوسات تیار کرنے والے بیشتر درزی خاصے سِتم ظریف واقع ہوئے ہیں۔ فیشن کے نام اُول جَلُول قسم کے ملبوسات تیار کرکے اچھی خاصی خواتین کو ”جوکر“ بناکر دم لیتے ہیں! یہی سبب ہے کہ شادی کی تقاریب میں خواتین کا پورشن دُور سے سرکس کا سماں پیش کر رہا ہوتا ہے! خواتین کے بہت سے ملبوسات کی ”ڈیزائننگ“ دیکھ کر ہمیں درزیوں کے ”ایول ڈیزائنز“ کا اندازہ ہوتا ہے! کبھی کبھی ہمیں خواتین پر ترس بھی آتا ہے کہ مَردوں کی طرف سے انتقام لینے کی کوشش میں درزی بہت آگے نکل جاتے ہیں! شلوار کے پاننچے اگر غلطی سے چوڑے یا لمبے ہو جائیں تو درزی صاحبان یہ کہتے ہوئے خواتین کو بے وقوف بناتے ہیں کہ ”باجی! آج کل یہی فیشن چل رہا ہے۔ آپ کے پڑوس والی سلمیٰ نے بھی تو اِسی طرح کے پائنچے بنوائے ہیں!“ فیشن کے ساتھ ساتھ خواتین کو پڑوسن کے نام پر بھی پتہ نہیں کیا کیا جھیلنا پڑتا ہے!

”کونٹراسٹ“ کے نام پر عجیب و غریب رنگوں کو آپس میں اُسی طرح مِلایا جاتا ہے جس طرح گن پوائنٹ پر نکاح کرایا جاتا ہے! لیڈیز کپڑے کے پرنٹ ویسے ہی اچھے خاصے سِتم ظریف ہوتے ہیں اور اُن کا انٹ شنٹ کومبی نیشن تو واقعی سِتم بالائے سِتم کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے!

کبھی کبھی کوئی ایسا فیشن بھی چلتا ہے کہ لڑکیاں اُونچے پائنچوں کی شلواریں پہنی پھرتی ہیں۔ کوئی دور سے دیکھے تو یہ سمجھے کہ شاید بارش ہو رہی ہے! اور اگر فیشن لٹکتے ہوئے پائنچوں کا چل رہا ہو تو سڑک پر بارش کا پانی بھی کھڑا ہو تو لڑکیاں پائنچے اُٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتیں! ایسے میں پائنچوں کو گندا ہونے سے بچانے کے لیے وہ خاصی اونچی ایڑی کی سینڈل پہنتی ہیں، اب چاہے ایسی سینڈل پہن کر چلنے سے پورے جسم کی چُولیں ہی کیوں نہ ہل جائیں!

بعض انتہائی فیشن زدہ خواتین کا لباس اِس قدر رنگا رنگ ہوتا ہے کہ لوگ رُکنے کا اشارہ کردیتے ہیں اور جب خاتون قریب آکر آگ بگولا ہوتی ہیں تو معافی مانگتے ہوئے کہنا پڑتا ہے۔ ”بہن! معاف کرنا، میں سمجھا تھا ڈبلیو گیارہ آگئی ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483446 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More