پاکستان کا مرکزی بینک اور حکومت
ایک ایسے وقت میں جب معاشی حالات خراب ہیں اور حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا
ہے افراط زر میں کمی کو مشکل حالات میں اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر
رہے ہیں جبکہ حقائق شاید اتنے اطمینان بخش نہیں ہیں مالی سال دو ہزار تیرہ
کے پہلے پانچ ماہ یعنی جولائی تا نومبر کے دوران افراط زر کی شرح میں مسلسل
کمی ہوئی حتیٰ کہ نومبر میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کی شرح چھ
اعشاریہ نو فیصد پر آگئی جو گذشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح ہے اس دوران ایک
وقت میں ملک میں افراط زر پچیس فیصد کی بْلند ترین سطح پر بھی پہنچاسرکاری
اعدادوشمار کے مطابق اس وقت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی شرح
پانچ اعشاریہ تین فیصد ہے افراط زر میں کمی کو بنیاد بنا کر مرکزی بینک نے
چودہ دسمبر کو مالیاتی پالیسی میں شرحِ سود میں بھی آدھے فیصد کی کمی کردی
جس کے بعد ملک میں شرح سود نو اعشاریہ پانچ فیصد ہو گئی ملک میں شرح سود
اٹّھارہ ماہ قبل چودہ فیصد تھی جو بتدریج کم ہو کر اب نو اعشاریہ پانچ فیصد
پر آگئی ہے شرح سود میں کمی کے لیے اسٹیٹ بینک پر نجی شعبے کا بہت دباؤ
تھاافراط زر کی شرح میں کمی کے باوجود عوام پر مہنگائی کا بوجھ مسلسل بڑھ
رہا ہے اس کی کیا وجہ ہے عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے
آبادی کا ایک بڑا حِصّہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے
اس کے بڑے اسباب میں تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ، مقامی گندم کی امدادی
قیمت میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی وغیرہ وہ بڑے عوامل ہیں جن کی وجہ سے
قیمتوں یعنی افراطِ زر میں اضافہ ناگزیر نظر آتا ہے جس سے آنے والے مہینوں
میں کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتیں بڑھیں گی جبکہ حکومت کی طرف سے بلا روک
ٹوک بھاری قرضے لینے کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی افراط زر کو بڑھاوا دینے کا
اہم سبب ہے سابق صدرمشرف دور کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خطِ
غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد پچّیس فیصد رہ گئی ہے اگرچہ بعد
میں ایسی کوئی رپورٹ تو جاری نہیں کی گئی مگر مختلف تنظیموں کی تحقیق کے
مطابق برسوں سے جاری معاشی بدحالی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تعداد دگنی یا
شاید اس سے بھی زیادہ ہو چکی ہے جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر
مجبورہیں جن معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کے مالی سال دو ہزار تیرہ کی
دوسری ششماہی میں افراط زر میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اسٹیٹ
بینک کا بھی کہنا ہے کے آنے والے مہینوں میں افراط زر میں اضافہ ہو گا اور
مالی سال کے اختتام تک افراط زر بجٹ میں دیے گئے ہدف کے مطابق نو اعشاریہ
پانچ فیصد تک پہنچ سکتا ہے یعنی افراط زر موجودہ چھ اعشاریہ نو فیصد سے بڑھ
جائے گاجس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے کا خدشہ ہے جس کے لئے عوام کو
تیار رہنا ہو گا جبکہ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان میں گندم کی قیمت
عالمی قیمت کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہے گذشتہ پانچ برس میں ایک عام
آدمی کے مصارفِ زندگی میں تقریبا ستّر فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے
میں فرد اور کنبے کی آمدنی میں اضافہ بہت معمولی ہے اس مدّت میں تنخواہوں
میں اوسط اضافہ محض ایک فیصد رہاافراط زر میں کمی کا مطلب مہنگائی میں کمی
نہیں بلکہ مہنگائی میں اضافے کی شرح میں کمی ہے ان حقائق کی روشنی میں یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کے در حقیقت افراد اور کنبوں کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی
ہے کیونکہ شرح نمو گرنے کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور معاوضے
بھی کم ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں عام آدمی میں مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی
قوت بری طرح متا ثر ہوئی ہے رپورٹس کے مطابق افراط زر کا بڑا حصہ درآمدی
ہوگاپاکستان اپنی ضروریات کا اسّی فیصد تیل درآمد کرتا ہے اور تیل کی
قیمتوں میں اضافہ ملک میں اشیا کی قیمتوں میں اسی تناسب سے اضافے کی وجہ
بھی ہے روپے کی قدر میں کمی بھی درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی مقامی
طور پر اشیا کی رسد وترسیل کے نظام میں کمزوریاں بھی قیمتوں کو متاثر کرتی
ہیں دوسری طرف اگر ملک کی اقتصادی کارکردگی کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کے
پاکستان اس وقت خطے میں سب سے خراب اقتصادی کارکردگی کا حامل ملک ہے عالمی
مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) بھی پاکستانی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے
مطمئن نہیں اور معاشی اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے اور اگر پاکستان وہ
اصلاحات کر دیتا ہے تو عوام اور زیادہ مہنگائی کے دباؤ کا شکار ہو جائیں
گئے کیونکہ ان کی اصلاحات میں سب سے پہلے عوام کو دی جانے والی سبسڈی کو
ختم کرنا شامل ہے جبکہ ہمارے صدر صاحب اور ان کی جماعت کے ارکان بے نظیر
انکم سپورٹ پروگرام کی بات کرتے ہیں کہ اس سے غربت میں کمی ہوئی ہے مگر
حقیقت وہ ہے جو سب کو نظر آ رہی ہے صدر صاحب کا یہ کہنا کہ ملک میں کتنے
موٹر سائکل اور کتنی کاریں بنائی گئی کتنی ٹیکسٹائل کی ترقی ہوئی ایسے ہی
ہے جیسے صابق صدر پرویز مشرف سے کہا گیا تھا کہ ملک میں غربت کی شرح میں
اضافہ ہو رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موبائل صارفین تو کروڑوں میں جا رہے
ہیں تو غربت کہاں سے آ گئی یہی حال موجودہ صدر کا ہے وہ عوام کے حقیقی
مسائل کو دیکھنے کی بجائے اپنے مشیروں کی ان کاغذی رپورٹس پر زیادہ یقین
رکھتے ہیں جو الفاظ کا ہیر پھیر ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ملک میں ایک طرف
الیکشن کا سال ہے اور حکومت اصلاحِ احوال کے لئے سخت اقدامات سے گریزاں
لگتی ہے جبکہ دوسری جانب ایسے فیصلوں کی توقع کی جارہی ہے جن سے حکومت کو
وقتی سیاسی فائدے حاصل ہوسکیں گئے قطع نظر اس کے کہ ان کی معاشی قیمت کچھ
بھی ادا کرنی پڑے ایسے حالات میں مستقبل قریب میں مہنگائی کے جِن کو قابو
میں رکھنا محال لگتا ہے۔ |