امریکہ نے سینئر طالبان رہنما
ملا نعیم باریکھ کو منشیات کا اہم اسمگلر قرار دےتے ہوئے کہا کہ وہ
افغانستان کے صوبے ہلمند میں ہیروئن اور افیون کی پیداوار اور برآمدات میں
ملوث ہیں۔امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ہلمند کے اہم رہنما ملا باریکھ مقامی
سطح پر منشیات کی پیداوار کی سر پرستی کرنے کے ساتھ ساتھ ایران اور پاکستان
اسمگل کرنے میں ملوث ہیں۔کچھ اسی قسم کا بیان پاکستان کے وزیرداخلہ
عبدالرحمن ملک نے اسلام ٓاباد میں انسداد منشیات کی علاقائی کانفرنس میںدیا
تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان ستر فیصد آمدنی منشیات سے کمارہے ہیں۔
اسمگلنگ کا پیسہ سوات ، ملاکنڈ میں دہشت گردی کےلئے استعمال ہورہا ہے تمام
علاقائی ممالک منشیات سے متاثر ہورہے ہیں ، طالبان اور منشیات فروش میں
مضبوط تعلقات ہیں۔وزیر داخلہ کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت ایک سو سڑسٹھ
میٹرک ٹن منشیات استعمال ہو رہی ہے اور اس کا حجم اٹھاون ارب ڈالر ہے جس
میں چھ ارب ڈالر کی تجارت پاکستانی سرحدوں سے ہو رہی ہے۔اقوام متحدہ کی
سروے رپورٹ کے مطابق اسوقت افغانستان میں سترہ صوبوں میں پوست کاشت کی
جارہی ہے ۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں تقریبا اڑھائی
ایکٹر یا ایک ہیکٹر زمین کاشت کرنے سے کسان کو 4900ڈالر وصول ہوئے تھے جبکہ
اب قیمتوں میں اضافے کے باعث ایک ہیکٹر فصل سے انھوں نے 10,700ڈالر کمائے ۔اقوام
متحدہ کی رپورٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا
ایک نمایاں حصہ افغانستان میں طالبان اوردیگر شدت پسند تنظیموں کی تخریبی
کاروائیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور عسکری تنظیموں کو منشیات سے ہونے
والی آمدنی اس سے بڑھ کر ستر کروڑ ڈالر سے بھی بڑھ جانے کی توقع ہے۔پشاور
کے خیبر میڈیکل کالج کے شعبہ کیمیائی تجزیہ اور فورنزک میڈیشن کے کیمیائی
تجزیہ کارپرویز خان کا کہنا ہے کہ بیشتر خودکش بمبار حملہ کرتے وقت منشیات
کے زیراثر ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خودکش مشن پر روانہ ہونے سے قبل
وہ ہیروئین ، افیون،اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔حیات آباد
میڈیکل کمپلیکس کے نفسیاتی معالج عبداللہ شاہ کے مطابق خودکش بمبار کو
منشیات استعمال کرائی جاتی ہیں تاکہ ان میں ہمت اورتوانائی پیدا ہوجائے اور
وہ اپنے جسم پر باندھے دہماکہ خیز مواد کے بوجھ کی وجہ سے بے چینی محسوس نہ
کریں۔اسٹبرانڈر کے استعمال سے قوت اور توانائی کے علاوہ بے خوابی بھی لاحق
ہوجاتی ہے۔پولیس فورزنزک سائنس کے پولیس افسر ناصر خان کا کہنا تھا کہ اب
تک خودکش بمبارروں کی جو فوٹیج دیکھی ہیں اس سے ان میں چکرآنے ،بے خوابی
اور منشیات کے استعمال کی علامات ظاہر ہوتی ہیں ، منشیات کے استعمال کے
بغیر کسی عام انسان کےلئے اتنا بڑا کام سر انجام دینا مشکل ہے۔ایک تخمینے
کے مطابق اس وقت ملک میں ہیروئین کے عادی افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے دس
لاکھ کے درمیان ہے۔اس کے ساتھ ہی منشیات کو جرائم پیشہ گروپوں کےلئے نہاےت
منافع بخش کاروبار تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں خودکش حملہ آور اور
دہشتگردی کی واردتوں سمےت ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں منشیات کے عادی بنائے
جانے والے افراد کا بڑا عمل دخل ہے ۔میڈیا میں متعدد بار ان امور کی جانب
نشاندہی کرائی جاچکی ہے کہ منشیات کے سدباب کے بغیر دہشتگردی کے واردتوں
میں استعمال ہونے والے افراد کی سرکوبی ممکن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے جہاں
افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کی ناک کے نیچے یہ مہلک کاروبار جاری
و ساری ہے تو دوسری جانب پاکستان بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا
ہے۔تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن علاقوں میں منشیات فروشی کا رجحان
زیادہ ہے وہاں جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث
افراد بھی پائے جاتے ہیں۔خیبر پختونخوا افغانستان کی سرحد سے منسلک ہونے کی
وجہ سے منشیات کی روک تھام میں ناکام ہوا ہے اسی وجہ سے اسمگلنگ میں ہر سال
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسی صورتحال سے دہشت گرد بھی فائدہ اٹھا رہے
ہیں۔کیونکہ حکومتی رٹ جتنی غیر مستحکم ہوگی اُن پر نگرانی کرنے والے ادارے
اپنی سرگرمیاں محدود کردیں گے۔کراچی اس وقت بین الاقوامی سازش کا بڑا اہم
محور بنا ہوا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں میں منشیات کے اڈوں پر دستی بموں پر حملے
کے حوالے سے یہ بڑی خبر سامنے آئی تھی کہ ان سے مبینہ طور پر طالبان کے نام
پر بھتہ وصول کرنے کے لئے دہمکیاں دیں گئیں تھیں جو عدم ادائیگی پر بموں کے
حملے کی صورت میں نکلا۔منگھو پیر ،سہراب گوٹھ، میانوالی کالونی، کواری
کالونی ، ناظم آباد،پٹھان کالونی لیاری میں منشیات کے اڈوں پر بم سے حملے
کئے گئے کیونکہ انھوں نے بھتہ نہیں دیا گیا تھا ۔ اس وقت کراچی میں سب سے
بڑے منشیات کے اڈے کرپٹ سرکاری سرپرستی میں کٹی پہاڑی ، منگھو پیر ،سبزی
منڈی ، عیسی نگری ،نئی کراچی ،شیرپاﺅ کالونی ، اسٹیل ٹاﺅن ، مچھر کالونی ،
کیماڑی اورلیاری و دیگر علاقوں میں چل رہے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں
میں نچلی سطح پر کچھ افسران و اہلکاران منشیات اور جوئے کی اڈوں کی سرپرستی
کر رہے ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر اپنے قدم مضبوط کر رہے ہیں۔کراچی
میں چلنے والے بڑے منشیات کے مراکزاور منشیات فروشوں سے کروڑوں روپے بھتہ
وصول کرنے کے واقعات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ حکومت کیجانب سے
دانستہ ان جرائم کے مراکز پرکاروائی نہیں کی جا رہی اور دانستہ مجرمانہ چشم
پوشی کی جارہی ہے۔ اگر حکومت موبائل فون بند کرنے کے بجائے منشیات کے اڈے
بند کرنے پر توجہ دے تو ستر فیصد دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی اور
اسی سلسلے میں منشیات کے استعمال و فروخت کرنے پر موت کی سزا رکھنے سے دیگر
جرائم میں بھی کمی واقع ہوگی۔دہشت گردی اور جرائم میں منشیات فروش ملوث ہیں
چاہیے ان کو دہشت گرد کہا جائے یا جرائم پیشہ ۔منشیات فروشی دہشت گردوں کی
مالیاتی کمک ہے جیسے توڑنا اولین ترجیح ہو۔ |