شرم بھی ہم سے رخصت چاہتی ہے

سوات میں عورت پر کوڑے بازی کرنے کا واقعہ (حقیقت یا فسانہ!)۔

کل اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں اگر حکومت نا چاہے تو کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا (دھرنوں اور ریلیوں کے سلسلے میں محاورتاً)۔

مگر جس طرح دہشت گرد اور خود کش حملہ آوروں نے اپنے آپ کو نا صرت اڑا دیا بلکہ سیکورٹی اہلکاروں کو بھی شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

کل کوئٹہ کے علاقے میں ایک ایسے کنٹینر کی موجودگی کی اطلاع ملی جس میں موجود پچاس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے تھے اور بے ہوش انسان بے ہوش تھے۔ (مسلمان)۔

پہلے تو اسلام آباد والے واقعہ کو لیتے ہیں

اس قسم کی کاروائیاں کوئی عام دہشت گرد نہیں کرسکتے اور یقین کرنے کو دل چاہے گا کہ ان تمام حرکات و معاملات کے پیچھے کوئی ایک ملک نہیں بلکہ ممالک کا گٹھ جوڑ ہے۔ ہمیں کسی پر الزام نہیں لگانا چاہیے کیونکہ ہم ایک زمہ دار ملک ہیں مگر ہمارے حکمرانوں اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں کا اس بات کا ضرور پتہ لگانا چاہیے کہ ان تمام سازشوں کے تانے بانے نا صرف کہاں سے بنے جا رہے ہیں بلکہ ان تمام کے آگے کے مراحل کیا ہو سکتے ہیں۔ بحرحال ایک عام شہری ہونے کے ناطے میں ناصرف ان تمام معاملات و واقعات کو گہری نظر سے دیکھ کر پریشان ہو رہا ہوں بلکہ میرے لاشعور میں یہ بات راسخ ہوتی جارہی ہے کہ ہو نا ہو ان تمام واقعات کے پیچھے کوئی نہایت گھناؤنی اور ملک دشمن سازشیں اپنا تانہ بانہ بننے میں مصروف ہیں۔

دوسرے سوات میں عورت پر طالبان (یا طالبان نما ) کی کوڑے دار شریعت نافذ کرنے کی تصدیق بعد ازاں اس کے خطرناک نتائج کے بعد اس سے لاتعلقی۔ (اب اگر طالبان ہی لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں تو ان حضرات کے کیا کہنے جو اس کو شرعی ثابت کرنے پر تل گئے تھے) بھائی ہم بھی شریعت کے ماننے والے ہیں مگر کیا ثبوت و حقائق کی غیر موجودگی میں کوئی شریعت نافذ کی جا سکتی ہے اور کیا کی جانی چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو سوات میں سینکڑوں لوگوں کے قتل، ان کی جائیدادوں کے لٹنے، چوری، ڈاکے اور راہزنی کے واقعات کے سلسلے میں کتنے لوگوں پر شریعت نافذ کی گئی۔

سوات میں معاملہ جو بھی ہوا ہو یہ بھی مملکت پاکستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہو سکتی ہے۔

کوئٹہ میں ایک کنٹینر ایسا پہنچتا ہے کہ جس میں انسانوں کی اسمگلنگ کی جارہی تھی اور جو افغانستان کے راستے ہوتا ہوا کوئٹہ کے ایک علاقے تک پہنچ جاتا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک بند کنٹینر بغیر کسی روک ٹوک اور تلاشی کے ایک ملک کے شہر سے دوسرے ملک کے شہر تک سینکڑوں میل کا سفر طے کر لیتا ہے اور وہ دو ممالک بھی دنیا کے وہ بدنصیب ممالک جو دہشت گردی اور انتہا پسندی میں نمبر ایک اور نمبر دو ہونے کی دوڑ میں انتہائی جانفشانی سے مصروف ہیں۔
اب فرض کیجیے اس میں بے وقعت (انتقال کر جانے والوں سے معذرت کے ساتھ کہ اللہ ان کی مغفرت و بخشش فرمائے آمین) انسانی بے جان جسموں کے کوئی انتہائی خطرناک اسلحہ بارود ، میزائل یا ایٹم بم ٹائپ کی کوئی چیز ہوتی تو کیا اتنا آسان ہے ایسی چیزوں کا اس طرح بغیر روک ٹوک کے سفر کر جانا۔

میرا تو یہ سوچ کر ہی دماغ ماؤف ہو رہا ہے کہ یہ کیسا سسٹم ہے ہمارے ملک میں کہ ایک سوزوکی یا ٹرک یا ٹرالی نہیں بلکہ ایک ٹرالر جسمیں ہزاروں من وزنی چیزیں بآسانی سما جاتی ہیں وہ کس طرح ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں، پولیس والوں، سرحد پر گشت کرنے والوں، سونگھ کر چیزوں کی جانچ کر لینے والوں اور انتہائی حب الوطنوں کی ناک تلے بلکہ آنکھوں کے سامنے سے اس طرح نکل گیا اور اس سارے عمل میں کن کن لوگوں نے کتنا کتنا حصہ وصول کیا ہو گا۔ کیا اس طرح کی حرکتیں کر کے ہم ایک زمہ دار ملک کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور شرم کی بات یہ ہے کہ ڈرائیور خود ہی بھاگ گیا حقیقت جان کر نا کے یہ کہ اسے روکا اور چیک کیا گیا ہو جو وہ بھاگ کھڑا ہوا ہو۔

کس کس بات پر شرم سے سر جھکائیں اور کیا کہیں یہ جمہوریت اور عدل کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم ہو رہیں ہیں۔ اب تو اتنی شرم آچکی ہے کہ آنے والے دنوں میں جو بے شرمی کے کچھ اگر مزید واقعات ہوئے تو شرم کا اظہار کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی کہ اتنی شرم کے بعد تو انسان بے شرم ہو جاتا ہے آپ نا ہو رہے ہوں میں تو بے شرم ہی محسوس کرتا ہوں اپنے آپ کو اور مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ میں بھی زمہ دار ہوں ان لوگوں کے ساتھ ساتھ جو سارے واقعات میں زمہ داری سے شریک ہوئے ہوں چاہے ٹرالر کو انسانوں سے بھرنے والے یا ٹرالر کو بغیر چیک کیے چھوڑ دینے والے اور اپنے بیوی بچوں میں اس حرام کی رشوت سے گلچھڑے اڑانے والے جن کے کھانے کے ہر نوالے میں ان مظلوم بے گناہوں انسانوں کے خون کی چھینٹیں شامل ہونگیں جو سسک سسک کر اور ایک ایک سانس کو کھینچ لینے کی کوشش میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اور اپنے سر ٹرالر کی مضبوط دیواروں پر مارتے مارتے اس بے وفا دنیا سے رخصت ہوئے ہونگے۔

اور تف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے فی کس افراد سے چار چار لاکھ روپے لیے اور ان لوگوں کو دھوکہ دے کر ناصرف انکی رقم ہتھیا لی بلکہ انکی جانیں بھی ہتھیا لیں اور اب وہ لوگ جنہوں نے پیسے لیے ہونگے کیسے اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں اور اپنوں کے ساتھ بیٹھے ٹی وی اسکرین پر وہ مناظر دیکھ رہے ہونگے جن میں بے گناہوں کی لاشیں ٹرالر سے بوریوں کی طرح اتاری جارہی تھیں۔ کیا وہ موت کے سوداگر مسلمان تو چھوڑیں اپنے آپ کو انسان بھی سمجھتے ہونگے۔ کاش اللہ ان کی نسلوں تک سے انتقام لے اور ہر مرنے والے کی ہر ہر سانس کے انتقام میں ان موت کے سوداگروں سے ایسا انتقام لے کہ یہ ظالم لوگ مر بھی نا سکیں اور جی بھی نا سکیں اور قیامت تک ایسے عذابوں میں گرفتار رہیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اللہ ہم بہت گناہ گار ہیں یا تو ہمیں اس دنیا سے ایمان کے ساتھ اٹھا لے ورنہ ہمیں طاقت دے کہ ہم ظالم کے ظلم کو صرف دل اور زبان سے برا نا سمجھیں بلکہ اپنے ہاتھ کی طاقت سے ظالم کو روک سکیں۔ آمین
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532781 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.