مجبوری کا نام دھرنا

اقتدار کے گلشن میں مفاہمت کی سیاست نے ایسے ایسے اور اِتنے گل کِھلائے ہیں کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ سمجھنا خاصا دشوار ہے کہ اِن گُلوں کو روئیں یا سیلیبریٹ کریں! ن لیگ کی قیادت نے مفاہمت کو ایسی مستعدی اور پختگی سے گلے لگایا ہے کہ پارٹی کے اپنے کارکن بھی آخر تک سمجھ نہیں پاتے کہ
دیکھیے، اِس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟

طاہرالقادری ”مشن پوسیبل“ یعنی ”نظام مخالف“ دھرنے کے نام پر خاصا مہنگا اور ہائی پروفائل سیاسی تماشا ختم کرچکے اور بوریا بستر لپیٹا جاچکا تب ن لیگ کو بھی کمپنی کی مشہوری کا خیال آیا۔ ساتھ ہی یہ بھی سوچا کہ تنہا جانا ٹھیک نہیں، اسلام آباد میں سانپ وانپ بھی ہوتے ہیں۔ ضروری سمجھا گیا کہ دیگر اپوزیشن (!) جماعتوں کو بھی ساتھ لیا جائے تاکہ رحمٰن ملک مارکہ اسلام آبادی سانپوں سے نمٹنے میں نیولے کم نہ پڑیں!

حکومت کے جو لوگ پانچ سالہ جمہوری دور میں ہر معاملے پر ن لیگ سے تفریح لیتے آئے ہیں اُن کے لیے تازہ ترین آئٹم یہ ہے کہ اِدھر ن لیگ نے اعلان کے مطابق اپوزیشن کو ساتھ لیکر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے کی تیاری شروع کی اور اُدھر موسم نے طوطا چشمی کا مظاہرہ شروع کیا۔ اسلام آباد میں بارش بھی ہوئی اور سردی بھی بڑھ گئی۔

ن لیگ کی قیادت میں اپوزیشن کی دھرنا نما ”آنیاں جانیاں“ دیکھ کر مرزا تنقید بیگ بہت خوش ہوئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ سیاست کا حصہ ہے۔ ہم نے یاد دلایا کہ صرف سیاست نہیں، مفاہمت کی سیاست کہیے۔ اِس پر اُنہوں نے خاصا ناقابل بیان سا منہ بناکر کہا۔ ”تم تو ہر معاملے میں کیڑے ہی نکالتے رہتے ہو۔ طاہرالقادری نے دھرنا دیا تو تمہیں بُرا لگا۔ اعتراض یہ تھا کہ کوئی باہر سے آکر دھرنا کیوں دے رہا ہے۔ اب اپنے والے دھرنا دے رہے ہیں تو اِس پر بھی معترض ہو۔“

ہم نے عرض کیا کہ اعتراض دھرنا دینے پر نہیں، ٹائمنگ پر ہے۔ مرزا بدکتے ہوئے بولے۔ ”یہ سیاست ہے، کرکٹ یا اداکاری نہیں جس میں ٹائمنگ کا خیال رکھا جائے۔ اگر ٹائمنگ دیکھنے کا اِتنا ہی شوق ہے تو ظہیر عباس کی اننگز یا منور ظریف کی فلمیں دیکھا کرو۔“

ہم نے مرزا کو یاد دہانی کرائی کہ ہم سیاسی ہلچل کو منور ظریف کی فلم جیسا ہی سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں۔

مرزا سدا سے ن لیگ کے دیوانے ہیں۔ ہمیں دُکھ اِسی بات کا ہے کہ ن لیگ کے جتنے بھی حقیقی دیوانے ہیں وہ اُس کی صفوں سے باہر ہیں! ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی مجبوری یہ ہے کہ دل چاہے یا نہ چاہے، دِیا جلائے رکھنا ہے یعنی ٹیمپو بنائے رکھنا ہے۔ طاہرالقادری نے دھرنا دیکر ن لیگ کا ناک میں دم کردیا۔ اُسے بھی پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے نکل کر اُس کے سامنے آنا پڑا۔ پیار بھرے موسم کو انجوائے کرنے کے بجائے مارچ کرنا اور دھرنا دینا کِسے اچھا لگے گا؟ دَھرنے کی دلہن کب کی رخصت ہوچکی مگر بے چاری ن لیگ کو اپنی لاج رکھنے کے لیے شادی ہال بند ہونے کے بعد بدائی کے آنسو بہانے پڑے!

ایک زمانہ تھا جب لوگوں میں واقعی سادگی ہوا کرتی تھی۔ اور سادگی بھی ایسی کہ سیاسی وعدوں کو آسمانی نوید یا وعید سمجھ کر قبول کرلیا کرتے تھے۔ اللہ سمجھے گا میڈیا والوں سے جن کی مہربانی سے خواتین خانہ تک سیانی ہوگئی ہیں! میڈیا نے سبھی کچھ طشت از بام بلکہ بے لباس کردیا ہے۔ بعض معاملات میں تو میڈیا والے لباس کو ایسا تار تار کرتے ہیں کہ پھر پہننے کے قابل نہیں رہتا اور پہن لیا جائے تو فیشن قرار پاتا ہے! خواتین خانہ کی زبان پر بھی اب ایجنسیوں کے افسانے آنے لگے ہیں! شوہر کی صورت دیکھ کر جیب کی کیفیت سمجھنے میں حاصل ہونے والی مہارت کی بنیاد پر خواتین اب حکومت کے اطوار دیکھ کر ایجنسیوں کی کار فرمائی کا اندازہ لگا لیتی ہیں! لوگوں کو ہر دال میں کالا بہت جلد اور واضح طور پر دِکھائی دے جاتا ہے! حد یہ ہے کہ کبھی کبھی کالا دکھائی دیتا ہے اور پھر اُس کے لیے دال کا اہتمام کرنا پڑتا ہے!
مرزا کو اِس بات سے چڑ ہے کہ ہر معاملے کو مشکوک سمجھا جائے۔ وہ کہتے ہیں۔ ”ہر چیز مفاہمت کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی۔ طاہرالقادری ہی کی مثال لے لو۔ قوم مزاروں پر جا جاکر کسی نجات دہندہ کی آمد کے لیے دعائیں مانگتی ہے، مَنّتیں مانتی ہے اور جب نجات دہندہ سامنے آتا ہے تو اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی ہے۔ ایسا کرو گے تو (کینیڈا) سے کون آئے گا؟“

اب ہم مرزا کو کیا بتائیں کہ کینیڈا کے پُرسکون ماحول میں کتابیں لکھتے لکھتے طاہرالقادری ایسی کتاب بن گئے ہیں جس کے ایڈیشن آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں اُن کا تیسرا ایڈیشن پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں آیا ہے۔ ویسے طاہر القادری خاصی تیاری کے ساتھ میدان میں اُترے۔ حد یہ ہے کہ ن لیگ جیسی ”امن پسند“ جماعت کو بھی، دکھاوے کے طور پر ہی سہی، دھرنے کی شاہراہ پر گامزن ہونا پڑا۔ یاروں نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان آنے سے قبل طاہرالقادری نے تین ہفتے واشنگٹن میں گزارے تھے۔ یہ بھی ان کے لیے کمپلیمنٹ ہے! امریکی پالیسی میکرز ایسے معاملات میں بہت حساس ہیں۔ وہ ایک آنچ کی بھی کسر نہیں رہنے دیتے۔ وہ جانتے ہیں معمولی سا وائرس پورے سوفٹ ویئر کی ایسی تیسی کردیتا ہے! امریکی پالیسی میکرز کو رات دن ہماری فکر لاحق رہتی ہے، ہمارے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ سوچ کہیں کم نہ پڑ جائے اِس خیال سے احتیاطاً اُنہوں نے پتیلے یا ڈرم نہیں بلکہ سوچ کے پورے پورے ”ٹینک“ بنا رکھے ہیں! فوج کے ٹینک آرام کر رہے ہیں، گولا باری ”تھنک ٹینک“ سے کی جارہی ہے۔

مرزا ہماری اِس رائے سے متفق نہیں کہ طاہرالقادری جیسے نابغوں کو انقلاب ونقلاب کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ علمی آدمی ہیں، علمی کام کریں۔ فضول مشق کے لیے اِتنے بہت سے لوگ ہیں تو سہی۔ ہماری رائے سُن کر مرزا ہم برس پڑے۔ ”تم تو بس یہ چاہتے ہو کہ جن میں علم ہے وہ عمل کی دنیا میں نہ آئیں۔ تم شاید اِس لیے ڈر رہے ہو کہ طاہر القادری کے سامنے کہیں تمہارے پسندیدہ چراغ گل نہ ہو جائیں!“
ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا جناب! قیادت کوئی ایسا منصب نہیں جو از خود نوٹس کے تحت حاصل کرلیا جائے۔ قوم جسے منتخب کرتی ہے وہ قائد بنتا ہے۔ مرزا نے فوراً کہا۔ ”تمہیں کیا معلوم قیادت کیا ہوتی ہے۔ پیدائشی قائد اِس بات کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی اُسے قیادت کے لیے منتخب کرے؟ وہ بُلائے جانے کا منتظر ہوتا ہے نہ اجازت کا طالب۔“

ہم نے اعتراض کیا کہ طاہرالقادری جس سسٹم کے خلاف جارہے ہیں اُسی کا حصہ بھی تو رہ چکے ہیں۔ مرزا نے خاصا بُرا منہ بناتے ہوئے کہا۔ ”ایک تو یہ بڑی مشکل ہے کہ تم بے دماغ ہوتے ہوئے بھی بڑی بڑی باتیں کرنے کی کوشش کرتے ہو! ڈاکٹر طاہر القادری نے اگر ماضی میں کوئی غلطی کی تھی تو ضروری ہے کہ اُسے دہرائیں؟ جب اِنسان کی دانش کا گراف بلند ہوتا ہے تو وہ اپنی اِصلاح کرتا ہے، تمہاری طرح کالم نگاری نہیں کرتا رہتا!“

ہم نے وضاحت کی کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں سُوئے ظن رکھنے کی ہم میں ہمت نہیں۔ ہم تو معاشرے اور میڈیا کی بات کر رہے ہیں۔ مرزا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”میڈیا والوں کو بُھوسے میں چنگاری ڈالنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اُن کا کوئی معیار تو ہے نہیں۔ قربانی کا جانور نالے میں گر جائے تو میڈیا والے بھاگم بھاگ موقع پر پہنچ کر لائیو نشریات شروع کردیتے ہیں۔ تو پھر ڈاکٹر صاحب کو کیوں کوریج نہ دیتے؟“

طاہرالقادری کی آمد سے اِتنا ضرور ہوا ہے کہ غفلت کی طویل نیند ختم کرکے ن لیگ کو بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دھرنے کے نام پر سڑک پر آنا پڑا۔ طاہرالقادری کے دھرنے میں تیسرے دن موسم نے حصہ ڈالا تھا۔ اِس بار موسم نے دھرنے کا تماشا شروع ہونے سے پہلے ہی انٹری دے دی۔ ن لیگ نے دھرنے کے نام پر جس کامیڈی کا ارتکاب کیا ہے اُس نے بہتوں کو مایوس کیا ہوگا، بالخصوص ان کو جو یہ سب ذرا طوالت کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے۔ پارٹی کے صدر نے دھرنے کے موقع پر سعودی عرب میں رہنے کو ترجیح دی۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کو یہ پارٹی کس حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے! دھرنے کے نام پر جو کچھ شروع ہوا وہ چند قدم کے مارچ میں تبدیل ہوکر ناکام پٹاخے کی طرح پُھس ہوکر رہ گیا۔ طاہرالقادری ”کمپنی کی مشہوری“ چاہتے تھے۔ خوب ہوئی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ ن لیگ کے ناکام دھرنے نے پوری کردی۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483473 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More