پرانے زمانے کے شاعر وں کی شاعری
کی اگر کوئی تعریف کرتا تو وہ بھی جواباَ تعریف کرتے چاہے انہیں یہ کام جی
کڑا کر کے ہی کرنا پڑتا-
اُس زمانے میں کوئی اپنی شاعری سنا کراس لئے نہیں بھاگتا تھا کہ مبادا
دوسرے کی شاعری سننا نہ پڑ جائے ۔ موجودہ دور کے شاعر( اﷲ انہیں حسِ تخلیق
اور قلب کی فراخی عطا فرمائے) مشاعروں میں اپنی شاعری پر تو دادو تحسین خوب
وصول کرتے ہیں لیکن شاعری سنانے کے بعد انہیں کوئی ایسی مجبوری آڑے آجاتی
ہے کہ وہ آداب و تسلیمات کے دوران بغلی دروازے سے رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔یہ
سلسلہ چلتا رہتا ہے حتٰی کہ آخری ایک دو شاعروں کے سامع صاحبِ صدر یا پھر
سٹیج سیکرٹری ہی رہ جاتے ہیں۔صاحبِ صدر کو سٹیج پر بٹھانے کے کچھ اور بھی
مقاصد ہوتے ہوں گے لیکن ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ صاحبِ صدر کو اس لئے نمایاں
جگہ پر بٹھانے کالا لچ دیا جاتا ہے کہ جب سب شاعر اپنی اپنی شاعری سنا کر
بھاگ جائیں تو سٹیج سیکرٹری کے ساتھ ہم آوازہوکر آخری دو تین شاعروں کی
شاعری پر واہ واہ، کیا کہنے، پھر سے کہنا جیسے الفاظ باآوازِ بلند کہہ سکیں
تاکہ اُن کی دِل شکنی نہ ہو لیکن صاحبِ صدر جو گوشت کا ہی بنا ہوا ہوتا ہے
بیٹھ بیٹھ کر اس قدر تھک جاتا ہے کہ کہ آگے جھک کر واہ واہ کہنے کی بجائے
کمر پر ہاتھ رکھ کر آہ آہ کہہ رہا ہوتا ہے۔موقع ملتے ہی ایک آدھ انگڑائی
لیتا ہے دو چار جمائیاں لیتا ہے۔اُس کا جی چاہ رہا ہوتا ہے کہ کسی طرح میری
یہاں سے جان چھوٹے تو میں اُن حصوں کو بھی جی بھر کے کھجلاؤں جن حصوں کو سب
کے سامنے کھجلا نہیں سکتا۔اگر تو متاثرین میں آٹھ دس شاعر ہی ہوں جو اپنی
شاعری سنانے اور داد وصول کرنے کے لئے بیٹھے ہوں تو صاحبِ صدر نتائج سے لا
پرواہ بن کر متاثرہ حصوں کو کھجلانے کی عیاشی کر لیتا ہے اور اگرغیر شعراء
کثرت سے حال میں موجود ہوں اور صاحبِ صدر اُن کی تیز نگاہی کے حصار میں ہوں
تو پھر صاحبِ صدر کی حسرت محض حسرت ہی رہتی ہے۔داد وصول کرنا ایک فن ہوتا
ہے جو شعراء اس فن کے ماہر ہوتے ہیں وہ اپنی کمزور نظم یا غزل پر بھی
زبردست داد وصول کر لیتے ہیں۔ مثلاَ سٹیج پر غزل کا ایک مصرع پڑھ کر رک
جائیں گے اورچہرے سے اس قسم کا (expression)تاثر دیں گے کہ ا س مصرع کی داد
۔ اس تاثر میں کچھ اس قسم کا جبر ہوتا ہے کہ کمزور لوگ بے ساختہ کہہ اٹھتے
ہیں واہ واہ۔کچھ ناعاقبت اندیش ایسے بھی ہوتے ہیں جو مکرر، مکرر بھی کہہ
دیتے ہیں اور پھر اپنے کئے کی سزا بھگتتے ہیں۔اگراس دادو تحسین سے شعراء کی
تسلی ہو جائے تو وہ کوئی اضافی مشقت نہیں کرتے لیکن اگر پھر بھی کام نہ بنے
تو شعراء سامعین میں سے نام لے لے کر پکار تے ہیں، ناصر صاحب، اسلم
صاحب،باسط صاحب، مصرع قابلِ غور ہے۔یہ حضرات اپنے کان کھڑے کر لیتے ہیں ۔
زیادہ مناسب ہوگا کہ کان کی بجائے میں یہ کہوں کہ اپنی زبان کھڑی کر لیتے
ہیں۔ جوں ہی شاعر کہتا ہے، عرض کیا ہے، یہ باآوازِ بلند کہنے لگنے ہیں
اِرشاد،اِرشاد۔جس کو بھری محفل میں نام لے لے کر کہا جائے کہ میں مصرع عرض
کرنے والا ہوں داد دیجئے گا ،اُس کے دل میں ایمان کی ایک رتی بھی موجود ہو
گی تو وہ مروتاَ یا اخلاقاَ کچھ نہ کچھ چکنا چپڑا تو کہے گا ہی،چاہے وہ یہ
کام جی کڑا کر کے ہی کرے۔ گویا شاعر کی اس سادگی میں بہت سے پُرکاری ہوتی
ہے۔اندر کی بات کچھ اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کی بھی تھوڑی دیر بعد
باری آنا ہوتی ہے اس لئے یہ نیوندرا ڈالتے ہوئے پورا مصرع دہرا دیتے ہیں
آہا کیا کہا جنت میں سن کے تزکرہ وہ خوردونوش کا۔شاعر مصرع دہراتا ہے تو وہ
شاعر اء جن کا نام لے لے کر داد کی درخواست کی گئی ہوتی ہے، عوام کو بھی اس
داد میں شامل کر لیتے ہیں ۔ جب شاعر دوسرا مصرع پڑھتا ہے۔اب مانگتے ہیں خیر
وہ دونوں جہان کی۔تو گھن گرج کے ساتھ داد و تحسین برسنا شروع ہو جاتی ہے۔
پکارے گئے نام والوں میں سے کوئی وجد میں آکر پورا شعر ہی یہ کہتے ہوئے
دہرا دیتا ہے کہ بھئی کیا کہنے۔
جنت میں سن کے تزکرہ وہ خوردونوش کا۔اب مانگتے ہیں خیر وہ دونوں جہان کی
مشاعرہ لوٹ لے جانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنے
پڑتے ہیں۔ بعض اوقات تو پاپڑبیلتے بیلتے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں لیکن
کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ مثلاَ جس کی شاعری پر بندہ گلا پھاڑ پھاڑ کر داد دے رہا
ہوتا ہے واہ واہ، پھر سے کہنا، کیا کہنے تاکہ وہ بھی باری پر ایسی ہی
آوازیں نکالے گا، اِسے کسی دوسرے مشاعرے میں جانا ہوتا ہے اور وہ صاحبِ صدر
کو معذرت پیش کر کے جا چکا ہوتا ہے۔برا وقت کسی پر نہ آئے، جس کو ضرورت کے
وقت داد دینے والا نہ ملے وہی جانتا ہے۔انہی پیش آمدہ خطرات کے پیشِ نظرکچھ
صاحبِ حیثیت شاعرمشاعرہ میں اپنے ساتھ شاگردوں کا ایک لشکر لے آتے ہیں، یہ
دادو تحسین کے معاملے میں اس حد تک خود کفیل ہوتے ہیں کہ ان کی شاعری پر
جمائیاں لینے والوں کی آوازیں دب جاتی ہیں اور واہ واہ یا کیا کہنے والے
حضرت چھائے رہتے ہیں۔وہ شاعری جو چونی میں بھی کلو کوئی لینے کو تیار نہ ہو
وہ پھولوں میں تُل رہی ہوتی ہے۔ بعض میرے اور آپ جیسے بھی سامعین ہوتے ہیں
جو حب الوطنی کے جذبے کے تحت اُن اشعار پر بھی داد دے رہے ہوتے ہیں جن پر
ٹماٹر پھینکنے کی ضرورت ہوتی ہے،دراصل انہیں کے دم قدم سے گلشن کا کاروبار
چلتا ہے۔ |