جناب یوسف رضا گیلانی نے فیصلہ
کیا ہے کہ سپریم کورٹ سے اپنی نا اہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے۔ شروع
شروع میں جب انہیں نا اہل قرار دیا گیا تھا تو وہ کچھ بجھے بجھے سے رہتے
تھے۔ مگر پھر انہوں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ اُن کی دلجوئی کے لیے
مریدوں کا اک ہجوم اُن کے اردگرد موجود ہوتا تھا ۔ یہ وہی مرید تھے کہ جب
شاہ صاحب وزیر اعظم تھے تو ان لوگوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں ہی نہیں
پورے ہاتھ گھی میں تھے۔ سپریم کورٹ کا ظلم کہ پیر بھی فارغ اور مرید بھی
فارغ۔ گیلانی صاحب کا خیال تھا کہ اب بیٹے حالات کو سنبھال لیں گے اور وہ
سکون سے زندگی گزار سکیں گے۔ مگر حالات بڑے ظالم ہیں۔ بیٹے حالات کو کیا
سنبھالیں ۔ ایک کو ایفی ڈرین کیس نے پوری طرح سنبھالا ہوا ہے اور دوسرے
کوحج سکینڈل نے۔ چنانچہ مریدوں کے پُر زور اصرار پر شاہ صاحب نے خم ٹھونک
کر دوبارہ سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن جو خم سپریم کورٹ نے شاہ
صاحب کا ٹھونک دیا ہے اُس خم کو سیدھا کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی منت سماجت
ضروری تھی اسی لیے اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔
پتہ نہیں کیوں مجھے جناب پیر یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے طور پر بہت اچھے
لگتے ہیں۔ انہیں سابق وزیر اعظم لکھتے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ بس نہیں چلتا
ورنہ میری نظری میں وہ آج بھی وزیر اعظم ہی ہیں۔ اُن کے علاوہ کوئی دوسر
اجچتا ہی نہیں۔ زبردست شخصیت ہیں وزیر اعظم تھے تو روزانہ کئی کئی دفعہ سوٹ
بدلنا اور ہر دفعہ ایک نیا سوٹ ۔لوگوں سے میل جول میں خالصتاً شاہی انداز۔
کوئی سوچ نہ کوئی فکر ، دماغ کو کبھی سوچنے کی تکلیف ہی نہیں دی۔ جو کہہ
دیا سو قانون ۔ جسے وزارت دی اُسے وزارت نچوڑنے کا کلی اختیار بھی دیا۔
ایسا بھلا اور درویش وزیر اعظم کہاں کوئی دوسرا مل سکتا ہے۔ سب سے بڑی بات
یہ کہ بقول اُن کے وہ پیران پیر حضرت غوث اعظم عبدالقادر جیلانی کی اولاد
ہیں۔ یہ سن کر اُن کی نسبت کے حوالے سے میرے احترام میں مزید اضافہ ہو جاتا
ہے۔
میرا ایک دوست بڑا عجیب ہے وہ ہر چیز میں نقص تلاش کرنے کا ماہر ہے۔ اچھی
چیز کو اچھا کہنے کی اُسے کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ ناجانے کیوں وہ شاہ
صاحب کابھی بہت مخالف ہے۔ باتوں باتوں میں شاہ صاحب کی سادگی کو کرپشن ،
ہیرا پھیری اور جانے کیا کیا نام دے کر اُن کے بارے میں بہت گستاخانہ باتیں
کر جاتا ہے اور سب سے بڑی زیادتی یہ کہ وہ شاہ صاحب کی نسبت حضرت غوث اعظم
ؒ کے ساتھ مانتا ہی نہیں اس کے خیال میں سیاست مکرو فریب کا کھیل ہے۔
خصوصاً ہمارے موجودہ سیاستدان اور ایمانداری دو متضاد چیزیں ہیں اور حضرت
عبدالقادر جیلانی کی اولاد اس قدر ہونہار کیسے ہو سکتی ہے کہ اُس کے چکنے
چکنے پات ساری دنیا کو پتہ چل رہے ہیں میں اُسے سمجھاتا ہوں کہ مان لو تو
کہتا ہے چلو مان لیتا ہوں مگر تم بھی میری ایک بات مانو۔ یہ وہ اولاد ہے
جنہیں حضرت نے عاق کر دیا تھا۔۔۔ کیا کرو ںمیں مزید کچھ نہیں سن سکتا۔
جناب یوسف رضا گیلانی آج کل بہت جذباتی ہیں۔ انہیں دنیا کی بے وفائی اور بے
مروتی کا بہت گلہ ہے چونکہ فارغ ہیں زیادہ وقت ٹیلویژن دیکھنے میں گزرتا
ہے۔ خبرنامے میں اپنے بارے خبر سن کر پریشان ہو جاتے اور عجیب عجیب تبصرے
کرتے ہیں۔ ٹی وی پر کائرہ صاحب کی پریس کانفرنس دکھائی جا رہی تھی کائرہ
صاحب بڑے زور شور سے حکومت کی وکالت کر رہے تھے۔ اچانک کائرہ صاحب نے
موجودہ وزیر اعظم کے دفاع میں تمام الزامات گیلانی صاحب کے سپرد کر دیئے ۔
گیلانی صاحب چلا اُٹھے۔ یہ دیکھو میرا بروٹس۔ جن پتوں پر تکیہ تھا وہی ہوا
دینے لگے۔ یہ میرا بروٹس۔ آج کا دن بہت خراب ہے۔
نیب نے ایفی ڈرین کیس میں جناب شاہ صاحب، اُن کی بیگم اور بچوں کے تمام
اکاؤنٹ بند کر دیے۔ شاہانہ خرچ۔ اب مرید بیچارے گھر کا سب بوجھ اٹھا رہے
ہوں گے۔ شاید انہیں ابھی تک اُمید ہے کہ شاہ صاحب کسی کام آسکیں گے۔ جس دن
اکاؤنٹ بند ہوئے اُس دن بھی شاہ صاحب کہہ رہے تھے کہ ”آج کا دن بہت خراب ہے
“۔
ایک پہلوان ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو دیکھا کوئی میز خالی نہیں تمام پر
لوگ بیٹھے ہیں۔ اچانک کونے میں اس کی نظر پڑی جہاں ایک میز پر ایک اکیلا
نوجوان بیٹھا تھا۔ پہلوان سیدھا اس میز پر جا پہنچا ۔ کرسی کھنچی اور بیٹھ
گیا۔ نوجوان سے بات کرنا چاہی مگر وہ اپنے خیالوں میں گم تھا۔ پہلوان کو
تھوڑا غصہ آیا تو اس نے نوجوان کے آگے پڑا مشروب اٹھایا اور پی گیا۔ نوجوان
نے رونا شروع کر دیا کہ آج کا دن ہی بہت خراب ہے۔ پہلوان نے اُسے کہا کہ
بھائی رو مت۔ مجھ سے کسی کا رونا دیکھا نہیں جاتا۔ میں نے جو مشروب پیا ہے
ابھی منگوا دیتا ہوں۔ نوجوان بولا، بھائی کیا منگواﺅ گے۔ میرے لیے آج کا دن
بہت خراب ہے۔۔۔۔ مگر کیوں۔ پہلوان نے پوچھا۔۔۔۔ صبح دیر سے اٹھا۔ اس لیے
دفتر سے لیٹ ہو گیا۔ باس نے جاتے ہی پہلے پوری طرح بے عزتی کی اور پھر
نوکری سے جواب دے دیا۔ واپس گھر جانے کے لیے پارکنگ میں آیا تو گاڑی چوری
ہو چکی تھی۔ پولیس کے پاس گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے
جو ہو گیا سو ہو گیا،ٹیکسی لے کر گھر پہنچا۔ کرایہ دیا۔ ٹیکسی سے اترا تو
یاد آیا ۔ پرس سیٹ پر پڑا رہ گیا ہے۔ ٹیکسی کے پیچھے بھاگا مگر وہ نکل گئی۔
بہت دل آزردہ گھر میں داخل ہوا تو اندر سے کچھ آوازیں آرہی تھیں۔ سنا تو
پتہ چلا کہ بے وفا بیوی کسی دوست سے میری غیر موجودگی میں گل چھڑے اڑا رہی
تھی جو انتہائی ناگوار تھا ۔ بیوی کی بے وفائی پر میں دل برداشتہ ہو گیا
اور خود کشی کا پکا ارادہ کر لیا۔ بازار سے زہر خریدا ، یہاں پہنچ کر مشروب
منگوایا اور زہر اس میں ملایا۔ ابھی پینے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ تم آگئے
اور وہ پی گئے۔ میں تو ہر طرح سے ناکام ٹھہرا ۔ میرے لیے ”آج کا دن بہت
خراب ہے “۔
گیلانی صاحب کے لیے ایفی ڈرین کیس کا دن بھی خراب تھا۔ حج سکینڈل کا دن بھی
خراب تھا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ انہیں ہر روز یہ گلہ ہوتا ہے کہ یہ دن سب
سے خراب ہے ۔ ابھی حکومت بدلی نہیں۔ اس لیے شاہ صاحب کو اندازہ نہیںکہ دن
خراب کیسے ہوتے ہیں۔ حکومت بدل گئی تو تمام دن ہی خراب ہو جائیں گے بلکہ
پھر دن نہیں ۔ وقت خراب ہو گا۔ اس ملک میں جس تیزی سے صورتحال بدل رہی ہے
گیلانی صاحب جیسے لوگوں کے دن ہی نہیں شاید لمحے بھی خراب ہی گزریں گے۔ |