گاؤں کی سوغات۔۔۔ڈیجیٹل سموسہ اور دیہاڑی کباب

صاحب جی ! یہ ڈیجیٹل سموسہ کیسے ہوتا ہے؟ڈرائیونگ کرتے ہوئے عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کے درد بھرے گانے سنتے ہوئے جب عارفی جبڑا جو کہ گاؤں سے نیا نیا آیا تھا۔نے سنجیدگی سے کہا تو میں درد بھری آواز کو بھول کر زور سے قہقہے لگانے لگا تو وہ حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ،صاحب جی! میں نے خود لکھا ہوا دیکھا ہے کہ ڈیجیٹل سموسہ دستیاب ہے ۔

میں نے اسے ہنستے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل نہیں ویجیٹیبل سموسہ ہوتا ہے ،ہم گاﺅں سے آنے والے بھی انتہائی سادہ ہوتے ہیں کافی عرصہ قبل جب میں بھی گاﺅں سے شہر میں آیا تھا تو عجیب سی حرکتیں سرزد ہوتی تھیں ،ہر جگہ مذاق کا نشانہ بنتا تھا پہلے دن ایک جگہ انٹرویو دینے گیا تو اس نے پہلے تو میرا نظروں ہی نظروں میں پورا ایکسرے کیا اور پھر کہا کہ کل سے یہ تہبند باندھ کر نہیں آنا ،میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ توبہ توبہ میں یہ نوکری نہیں کرسکتا ،اس نے پوچھا کہ کیوں ؟تو اسے صاف گوئی سے بتا دیا کہ ننگا ہو کر میں دفتر نہیں آ سکتا ۔اس پر وہ زور سے ہنسا اور کہا کہ میں نے تہبند اتار پھینکنے کو اور پینٹ شرٹ پہننے کو کہا تھا ۔خیر ہم بھی شہر میں ملازم ہو گئے اور پینٹ شرٹس بھی خرید لیں وہ تو صبح جب پہننے کی باری آئی تو کیا ہوا،یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔

پھر تو ہم بھی شہری بابو بن گئے لیکن ٹائی باندھنا آج تک نہیں آیا کہ کیسے اس کی ’ناٹ‘بناتے ہیں پہلے پہلے تو ایک گرہ لگا کر دفتر پہنچ جایا کرتے ،جہاں پہلے تو خوب مذاق کا نشانہ بنتے پھر دوست صحیح طریقے سے باندھ دیتے ۔

گزشتہ دنوں عارفی جبڑے کومیں نے کسی کام سے اندرون شہر بھیجااور کہا کہ واپسی پہ آپ کو شام ہو جائے گی تو بھاٹی گیٹ کے شامی کباب ضرور لیتے آنا،وہ کام سے جلد فارغ ہو گیا ،دوپہر میں کباب والے کے پاس جا کر کہتا ہے کہ دیہاڑی کباب تو پیک کر دو۔

دیہاتوں اور گاﺅں کی زندگی جتنی سادہ ہوتی ہے اتنی ہی پرکیف ہوتی ہے اب تو ان دیہاتوں میں بھی کچھ ماڈرن لوگ پیدا ہو گئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ دنیا کا ہر فیشن پہلے وہ اپناتے ہیں اس کے بعد باقی دنیا والے ان کی نقل کرتے ہیں اسی طرح ایک شہری بابو سے کسی ایسے ہی ”ماڈرن پینڈو“ کی ٹھن گئی،اور بات یہاں تک جا پہنچی کہ ”ماڈرن“کون ہیں؟اس بات کا فیصلہ اگلے ہفتے ہو گا جس میں’ شہر ی ماڈرن بابو‘جدید لباس اور فیشن کے ساتھ’ پینڈو ماڈرن‘ کے گھر جائے گا اور پینڈو ماڈرن اس کا استقبال جدید فیشن اور عمدہ لباس پہن کر کرے گا،فیصلے کی مناسبت سے شہری بابو جدید لباس اور فیشن کے ساتھ دیہاتی کے گھر کی طرف روانہ ہوا،پینڈو کے گھر پہنچنے سے پہلے وہ شہری بابو گرا اور اس کی پینٹ گھٹنے کی جگہ پھٹ گئی وہ کافی پریشان ہوا ،کہ اب کیا ہوگا؟ اسی پریشانی میں اسے ایک ترکیب سوجھی ،اس نے پھٹی ہوئی جگہ پر ایک پودے کاسبز پتا باندھ لیا اور چل دیا ،ماڈرن پینڈو بھی کسی سے کم نہیں تھا وہ بھی جدید خراش اور فیشن کے ساتھ شہری بابو کا نتظار کر رہا تھا اور گھر سے کافی پہلے ایک اونچی جگہ سے اس کی راہ تک رہا تھا کہ وہ کون سا جدید فیشن کر کے آ رہا ہے ؟تاکہ اس کے پہنچنے سے پہلے میں بھی اس کے مقابلے کا انداز اپنا لوں،جب اس کی نظر شہری ماڈرن بابو پر پڑی تو اسے اور تو کچھ نیا نظر نہیں آیا البتہ اس کے گھٹنے پر ایک بڑا سا پتا لگا ہواتھا ،پینڈو جلدی جلدی گھر پہنچا اور اس کے آنے سے قبل دونوں گھٹنوں پر پودے کے بڑے بڑے پتے باندھ لئے ۔

آج زندہ دلان لاہور میں مصروف زندگی گزارتے ہوئے جب گاﺅں کی سادہ زندگی یاد آتی ہے، تو گزرا ہوا حسیں ماضی،بچپن کی شرارتیں،اور سادگی بھری باتیں ،لوگوں کا ایک دوسرے سے محبت سے ملنا ،ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوناکتنا اچھا تھا،کتنا مزہ تھالیکن سچ کہتے ہیں گیا وقت لوٹ کر نہیں آتا ،البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ہر پل کو خوشی سے گزاریں زندگی میں خوش رہیں اور دوسروں میں مسکراہٹیں بانٹیں تو آپ کا ہر لمحہ یادگار بن سکتا ہے اور اچھی یادیں انسان کے بیش بہا خزانے کی مانند ہوتی ہیں ۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 187070 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.