ہندو دہشت گردی اپنی انتہا پر٬ بھارتی
مسلمانوں کا سر کاٹنے کی دھمکیاں انتخابی جلسوں کا نعرہ بن گئیں
ورون گاندھی کی دہشت گردی
بھارت کے ہندو راشٹر میں تبدیل ہونے کا ثبوت
بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی ”را “ کی چانکیائی سازش کامیاب
بھارت میں پیدا ہونے والا ہر ہندو ورون گاندھی کی طرح بھارت سے اقلیتوں کا
وجود مٹا دینے کا خواہشمند ہے ورون گاندھی کی تقریر ثابت کررہی ہے کہ اگر
اب کی بار بی جے پی کو بھارت میں اقتدار ملا تو سکھ اور مسمانوں کی حالت
خربوزے جیسی ہوجائے گی اور بھارت میں اقلیتوں کا وجود باقی نہیں رہے گا ۔
بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات کےلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نئے و
متنازعہ رہنما ” ورون گاندھی “ نے انتخابی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں٬
ورون گاندھی الیکشن کے لئے اہل قرارد یئے جائیں یا نہیں دئیے جائیں اس سے
قطع نظر اس میں تو کوئی شبہہ نہیں کہ انہوں نے ایک ہی جست میں اور ایک ہی
بھڑکیلی تقریر کے ذریعہ سیاسی دنیا میں اپنی مخصوص و منفرد پہچان بنالی ہے
اور اس وقت بھارتی اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں ہر طرف ورون
گاندھی کی مخالفت و حمایت میں بیانات اور بحثیں جاری ہیں اور ہندو مسلم
فسادات کو ہوا دینے کے لئے کی جانے والی ورون گاندھی کی بھڑکیلی تقریر نے
ہندو مسلم ووٹروں کو ایک دوسرے کے سامنے اپوزیشن میں لا کھڑا کرنے کے ساتھ
ساتھ ہندو ووٹروں اور عوام کو بھی دو علیحدہ علیحدہ دھڑوں میں تقسیم کردیا
ہے ۔ جس کی وجہ سے بھارتی عوام ورون کی حمایت و مخالفت میں ایک دوسرے پر
سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں٬ یہ عظمت واعزاز تو
بڑے بڑے سنگھی لیڈروں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ ایل کے ایڈوانی تو اپنی جگہ
گڑیا اور راج ٹھاکرے جیسے نامی گرامی عفریت بھی ورون کے سامنے ماند پڑ گئے
ہیں ۔ بالکل ٹھیک کہا ہے کسی نے کہ بد نام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔
بھارت میں ورون گاندھی کی اب تک صرف اتنی پہچان تھی کہ وہ نہرو خاندان کے
فرد ہیں اس کے علاوہ نہ ان کی سیاسی شناخت تھی نہ سماجی خدمات۔ ان کے والد
محترم جوانی میں ہی ہوائی جہاز کے شکار ہوگئے اور والدہ محترمہ جانوروں کی
خیرو عافیت اور فلاح وبہبود کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئیں ویسے بی جے پی کے
ٹکٹ پر وہ کئی بار پیلی بھیت سے کامیاب ہو کر پارلیمنٹ کی زینت بھی بن چکی
ہیں۔ ہر ماں کی طرح ان کے دل میں بھی یہ ارمان انگڑائی لے رہا تھا کہ جوان
ہوکر بیٹا بڑا نام کرے گا۔تربیت کے لئے ان کو ناگپور بھیج دیا گیا جہاں
انہوں نے براہ راست سدرشن کی نگرانی میں تین سال تک بے پٹرول کے آگ لگانے
والی تقریر کے لئے ایکشن اور مسلمانوں کا سر کاٹنے کا طریقہ سیکھا۔ نیم
پختہ ہو کر باہر نکلے تو پیلی بھیت سے بی جے پی کے امیدوار ہو کر وہ جلوہ
دکھایا کہ وقتی طور پر بی جے پی پر بھی سکتہ طاری ہوگیا لیکن سکتہ ٹوٹا تو
وہ کھل کر اسی طرح ورون کی حمایت میں آگئی جس طرح ہندو آتنک واد پرگیہ،
پانڈے اور پروہت کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اس وقت سنگھ پریوار ایک
طرف ورون کی حمایت میں کمر بستہ ہے تو دوسری طرف سارا ہندوستان مخالفت کر
رہا ہے۔
ورون گاندھی نے 6 مارچ کو پیلی بھیت کے انتخابی حلقہ میں عوامی جلسہ سے جس
میں سادھو سنتوں کی خاصی تعداد موجود تھی خطاب کرتے ہوئے انتہائی زہریلی
اور تیزابی تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ
”مجھے داڑھی‘ ٹوپی والا ہر مسلمان اُسامہ کی فیکٹری کا دہشت گرد نظر آتا ہے
“۔
اس کے بعد انہوں نے اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ ہاتھ نہیں ہے کنول
ہے یہ سر کاٹ کر رکھ دے گا۔ اگرکوئی ہندوؤں کی طرف ہاتھ اُٹھاتا ہے اور
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہندو کمزور ہیں اور ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے یا کوئی
یہ سمجھتا ہے کہ ہندو لیڈران ووٹ کے لئے جوتے چاٹیں گے تو میں گیتا کی قسم
کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا“۔
بھارتی الیکشن کمیشن کو ورون گاندھی کی تقریر پر مبنی 28منٹ کی ایک آڈیو سی
ڈی پیش کی گئی ہے اس تقریر کے اور چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
” میں کھڑا ہوں ہندوؤں کے لئے ....مجھے مسلمان کا ووٹ نہیں چاہیے‘ نہ
خالصتاً نہ پاکستان مانا جائے گا کہ بھارت ہندوؤں کا گڑھ ہے یہاں کوئی
(مسلمان ) اپنا سر اُٹھا نہیں سکتا۔اس چھتر میں ان لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ان
کی نس بندی کرانا پڑے گی“۔ (واضح رہے کہ ورون کے پتا سنجے گاندھی نے بھی
ایمرجنسی کے دوران زبردستی نس بندی کی تحریک چلائی تھی اور پکڑ پکڑ کر
لوگوں کی نس بندی کرائی تھی ہزاروں لوگوں کو شہر چھوڑ کر ڈر سے بھاگنا پڑا
تھا اور سنجے گاندھی کی ہٹلری سے لوگ اتنے تنگ آگئے تھے کہ الیکشن میں
اندرا گاندھی کو شکست ہوئی)۔
ورون گاندھی نے اس تقریرمیں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے ساتھ ساتھ
کانگریس امیدوار دی ایم سنگھ کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ”دی ایم
سنگھ ایک پاگل سردار ہے جس کے ہر سمے بارہ بجے ہوتے ہیں اور وہ ایک مسلمان
کا ایجنٹ بن کر لڑ رہا ہے۔ جو ہندوؤں کو لڑا رہے ہیں وہ ہندوؤں کے سب سے
بڑے غدار ہیں ان کو سزائے موت ہونی چاہیے“۔ یہی نہیں بلکہ ورون نے ہندوؤں
جنونیت کی آخری حد کو چھوتے ہوئے اس قتل و غارت تک کا اعلان کر دیا اور کہا
کہ ”میں جتنا سمرتھن ہندووؤں کو دونگا اس سے زیادہ میں گولیوں سے سمر تھن
ان کو دونگا“۔
ورون گاندھی کی مذکورہ تقریر نے ثابت کیا ہے کہ ورون گاندھی کے سر پر
مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف خون سوار ہے اور وہ انتخابی جلسہ سے خطاب کرنے
نہیں بلکہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف للکارنے آئے تھے اور دھارمک یدھ کا
بگل بجا دیا (مذہبی جنگ چھیڑ دی)۔ وہ تو شکر ہے کہ ورون گاندھی کے مذکورہ
جلسہ میں داڑھی والے سادھو سنت تو بہت تھے لیکن کوئی ٹوپی والا مسلمان اور
پگڑی والا سکھ نہیں تھا ورنہ اُن کی گردنیں تو یقیناً اسی وقت اُتار دی
جاتیں۔
ورون گاندھی کی مذکورہ شعلہ بیاں تقریر نے جہاں بھارتی ہندوؤں میں موجود
مسلم و سکھ دشمنی کے جذبات کو ونیا کے سامنے وا کیا ہے وہیں ایسے اقلیت
دشمن سیاسی رہنما پر پابندی عائد کرنے کی بجائے اس کے انتخابی کاغذات
نامزدگی کو وصول کر کے بھارتی الیکشن کمیشن نے بھارت کے مکروہ ہندو جنونیت
کے روپ پڑا سیکولرازم کا نقاب بھی الٹ دیا ہے اور دنیا پر یہ بات ثابت
ہوگئی ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی جس چانکیائی سازش کا آغا ”را “
نے اندرا گاندھی کے اشاروں پر شروع کیا تھا وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ چکی
ہے اور آج بھارت میں پیدا ہونے والا ہر ہندو بھارت کو ہندو راشٹر سمجھ کر
وہاں موجود اقلیتوں کو غدار کہہ کر ان کے وجود سے بھارت کو پاک کرنے کا
خواہشمند ہے ۔
ورون گاندھی نے بھی اپنی اقلیت دشمن تقریر کرتے وقت اسی نظریے کو ملحوظ
رکھا کہ ہندو راشٹر میں ان کی اس تقریر کی خوب خوب پذیرائی ہوگی اور وہ اسی
تقریر کی بدولت ایک ہی جست میں ایڈوانی، مودی اور راج ناتھ سے بھی بڑے
سیاسی قد کے مالک بن جائیں گے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ورون کی
تقریر کا خیر مقدم اور ان کے خیالات کی حمایت کے طور پر انہیں انتخابی
امیدوار برقرار رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ ”را“ کی بھارت کو ہندو
راشٹر میں تبدیل کرنے کی سازشوں میں شریک ہندو جنونیوں پر مشتمل ایک ایسی
دہشت گرد تنظیم ہے جسے اگر اب کی بار اقتدار مل گیا تو پھر یقیناً بھارت
میں اقلیتوں کا وجود باقی نہیں رہے گا اور ایک ایک سکھ اور مسلمان کو
سرکاری سرپرستی میں چن چن کر ہلاک کردیا جائے گا ۔
ویسے بھی بھارت میں جاری موجودہ انتخابی دنگل کے موقع پر بی جے پی کے لئے
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس کو ایک برے وقت میں ایسا شعلہ بیان اور آتش
مزاج نوجوان مل گیا ہے جس میں ”آتنک وادیوں“ کی ساری خصوصیات پائی جاتی
ہیں۔ ویسے بھی بی جے پی کے رام مندر، یکساں سول کوڈ، دفعہ 370، گاوؤ ہتھیا،
رام سمدرم، امر ناتھ وغیرہ وغیرہ کے نعرے فرسودہ ہوچکے تھے اور اسے ایک نئے
نعرے کی ضرورت تھی جو ورون گاندھی نے فراہم کر کے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسی
گاندھی کا پوتا ہے جس نے انگریزوں سے برصغیر کی آزادی کے وقت سودے بازی
کرکے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازشیں کی تھیں اور پھر قیام پاکستان کے
بعد سکھوں کو ورغلا کر لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرایا تھا ورون نے ثابت
کردیا کہ وہ اسی اندرا گاندھی کا پوتا ہے جس نے اپنا اقتدار مضبوط رکھنے کے
لئے نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کے خون سے کئی بار ہولی کھیلی بلکہ ”را “ کے
قیام کے ذریعے ملک بھر میں سیاسی سازشوں کا ایسا جال بھی بچھایا جس میں بے
گناہ شہریوں کے حقوق پامال کرنے کے ساتھ اقتدار کی سولی پر ہندو مسلمان اور
سکھ بلا تخصیص ہر ایک کو چڑھایا گیا تاکہ اپنا اقتدار محفوظ رہے ۔ ورون نے
یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ اسی سنجے گاندھی کا بیٹا ہے جس نے اپنی ماں اور
نانا کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے مسلم دشمنی میں مسلمانوں کی زبردستی نس بندی
کی قبیح فعل زور سرکار پر کرایا تاکہ مسلمانوں کی نسل آگے نہ بڑھ سکے اور
بی جے پی کو ایک بار پھر ایسے ہی مسلم دشمن ولولہ کی ضرورت تھی سو مل
گیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ورون گاندھی اپنی باتوں پر جما رہتا اور سینہ
ٹھونک کر کہتا کہ بے شک اس نے وہ باتیں کہی ہیں جو آڈیو سی ڈی میں قید ہیں
اور جس کو میڈیا والے اچھال رہے ہیں لیکن انہوں نے بڑی بزدلی کا ثبوت دیا
وہ اپنی ریکارڈ تقریر سے مکر گئے کہنے لگے میری تقریر میں ہیر پھیر کی گئی
ہے میرے خلاف سیاسی سازش کی جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ
ہندو بنیا منافق ہوتا ہے اور اگر سامنے ہو تو ہاتھ جوڑتا ہے اور ذرا منہ
پھیرو تو پیٹھ پر وار کرتا ہے جبکہ وہ تو ہندوؤں کی اس چانکیائی نسل سے
تعلق رکھتے ہیں جس نے ”را “ کی بنیاد رکھ کر دنیا بھر کے خلاف مکروہ سازشوں
کے جال بچھائے جن کے منہ پر ہمیشہ رام رام مگر بغل میں دو دھاری تلوار رہی
ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ورون گاندھی نے جو کچھ کہا وہ سنگھ پریوار کے
مسلمانوں کے لئے نفرت و کدورت کا اظہار ہے۔ ان فسادیوں کے پاس سوائے مار
کاٹ اور قتل وغارت گری کے انسانیت کے لئے کوئی پیغام ہی نہیں ہے جبکہ ورون
کی شکل میں ہندو آتنک واد کا جو نیا چہرہ سامنے آیا ہے اگر وہ بھارتی
پارلیمنٹ میں داخل ہوگیا تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ بھارت میں حقیقی معنوں
میں مسلمانوں کو خربوزہ ہی سمجھا جائے گا ۔ |