سالمیت پاکستان کے لئے بلوچستان کے
مسائل کا فوری حل ضروری ہے
دو فروری کو کوئٹہ سے اغواء ہونے والے اقوام متحدہ کے اہلکار جان سولیکی
رہائی کے بعد امریکہ پہنچ چکے ہیں ۔ جان سولیکی کے اغواء کی ذمہ داری قبول
کرنے والی بلوچستان یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ نامی نومولود بلوچ رائٹس تنظیم نے
جان سولیکی کی رہائی کے بدلے پاکستان کے خفیہ ریاستی اداروں کی غیر قانونی
حراست میں موجود ایک ہزار ایک سو نو بلوچوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جن
میں 141خواتین بھی شامل ہیں مگر جان سولیکی کے اغواء کے بعد بلوچستان کے
تمام قوم پرست رہنماؤں اور خود بلوچ رہنما سردار عطااللہ مینگل اور سردار
خیر بخش مری کی جانب سے اغوا کاروں سے جان سولیکی کی رہائی کی اپیل اور
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی ذمہ دارانہ کوششوں کے نتیجے میں
اغوا کاروں نے ایک ماہ چند یوم اپنی حراست میں رکھنے کے بعد جان سولیکی کو
رہا کردیا٬ نواب اسلم رئیسانی بذات خود اقوام متحدہ کے ہمراہ مستونگ جا کر
جان سولیکی کو اقوام متحدہ کے اسپتال لائے جہاں سے انہیں خصوصی طیارے کے
ذریعے نیویارک منتقل کر دیا گیا۔ جان سولیکی کے اغوا کار جو بھی ہوں اور
انہوں نے اغوا کا عمل خواہ کسی بھی کاز کے لئے کیوں نہ انجام دیا ہو مگر اس
عمل کی کسی بھی طور تائید و توثیق نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس طرح کے اعمال
سے اغوا کاروں کو اپنے معاملات میں کامیابی حاصل ہوئی ہو یا نہ ہو لیکن یہ
ایک حقیقت ہے کہ اس سے وطن عزیز کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور دنیا میں
پاکستان کے غیر ملکیوں کے لئے ایک ناموزوں ملک ہونے کا تاثر مزید مستحکم
ہوا ہے جو کسی بھی طور پاکستان کے حال و مستقبل اور بالخصوص بلوچستان کے
لئے کسی بھی طور سود مند نہیں کیونکہ اس سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ
شکنی ہوگی اور بیرونی سرمایہ کاروں سمیت تعلیم و صحت اور دیگر شعبوں میں
خدمات انجام دینے والے عالمی اداروں کے رضا کار بھی بلوچستان کا رخ کرنے سے
اجتناب کریں گے جس سے بلوچستان کی عوام جو پہلے ہی مسائل کے بوجھ تلے دبی
ہوئی ہے ان تھوڑی بہت امدادی سرگرمیوں سے بھی محروم ہوجائے گی جو کہیں کہیں
اس کی اشک شوئی کا سبب بن رہی ہیں ۔دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس واقعہ
نے بلوچستان کی سنگین صورتحال اور بلوچ عوام کی اُمنگوں کے مطابق ان کے
مسائل کے حل کی جانب دعوت فکر بھی دی ہے جبکہ اس واقعہ نے بالخصوص اس بات
کو بھی ثابت کیا ہے کہ بلوچستان میں حکومت و ریاست کے مظالم اور انسانی
حقوق کی پامالی کا مسئلہ قوم کے لیے انتہائی توجہ کا طالب ہے۔آمریت کے
اختتام اور جمہوریت کے قیام کے لئے 2008ء میں کرائے جانے والے انتخابات کے
نتیجے میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے قیام کے بعد صدر پاکستان آصف
زرداری نے بلوچستان کے عوام سے سابقہ ریاستی رویئے کے لئے معافی مانگ کر ان
کی اشک شوئی کی جو کوشش کی تھی اسے ایک طویل وقت گزرچکا ہے مگر صدر زرداری
کے بلوچستان کے حوالے سے کئے گئے اعلانات عملدرآمد سے محروم دکھائی دے رہے
ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل کو اولین ترجیح دینا پاکستان کے استحکام اور
یکجہتی کے لیے ضروری ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں علیحدگی کے جذبات
پیدا ہونے کے اسباب حکمرانوں کے مظالم اور انصاف سے محرومی کا نظام ہی ہوتا
ہے۔ جہاں تک بلوچستان کی صورتحال کا معاملہ ہے تو یہ بات تو یقینی ہے کہ
وہاں کے مسائل حقیقی ہیں اور ان مسائل کو بنیاد بنا کر بغاوت کو ہوا دینے
کی سامراجی سازشوں کی وجہ سے بلوچستان کشمکش کا شکار ہوچکا ہے جس کا انجام
بغاوت اور علیحدگی پر بھی منتج ہوسکتا ہے اسلئے سالمیت پاکستان کےلئے ضروری
ہے کہ بلوچستان کے مسائل پر فوری توجہ مرکوز کر کے ان کے خاتمے کے لئے
ترجیحی اقدامات کئے جائیں تاکہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کا خاتمہ ان کے
باغیانہ جذبات کا سدِباب کرسکے جبکہ بی ایل یو ایف کے ترجمان میر شہک بلوچ
نے جان سولیکی کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ” ہم نے اس طرح دنیا کو
بتا دیا ہے کہ بلوچ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے
ہیں “جو یقیناً محب وطن حلقوں کے لئے توجہ کا طالب ہے ۔ |