انقلاب آچکا۔ تبدیلی کا فیصلہ کیجئے

نتیجہ پھر وہی ہو گا سنا ہے چال بدلیں گے
پرندے وہی ہونگے بس شکاری جال بدلیں گے

بدلنا ہے تو دن بدلو َ،بدلتے کیوں ہو ہندسوں کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلیں گے

چلو ہم مان لیتے ہیں مہینہ ساٹھ سالوں کا
بتاﺅ کتنے سالوں میں ہمارے حالات بدلو گے؟

پینسٹھ سالوں سے پاکستانی قوم بے شمار مسائل کا شکار ہے اور ابھی تک کسی نے بھی انکے حل کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔جب کہ اس کی طرف نشاندہی کر کے ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوام کو اپنے حقوق کے حصول کی ایک نئی راہ اور سیاست دانوں کا کسی حد تک اصلی چہرہ بے نقاب کر کے ایک ہلچل مچا دی ہے کہ وہ اپنے حق کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں اور پاکستان کو قائداعظم کے خواب کی تعبیر کے قریب تر لائیں ۔ اتنے برسوں کے سفر میں ماسوائے اٹیمی قوت کے حصول کے کوئی بھی قابل ذکر تبدیلی ماسوائے چند شعبوں میں نہ تو ہمارے سیاست دانوں اور نہ ہی فوجی حکمران لا سکے۔وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ سماجی قدروں میں بھی بہت حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ لوگ محض دال روٹی کے چکر میں پھنس کر ہی رہ گئے ہیں ۔ اپنے مفاد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو چکے ہیں؟ہمارے جمہوریت کے دعوی دار سیاسی کھلاڑیوں کا نامہ اعمال تو قرضے معاف کرنے والوں اور این آر او سے مستفید ہونے والوں کی فہرستیںدیکھ کر اوررنیٹل پاور کیس،جج کرپشن کیس سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہ قوم کی رہنما کس حد تک قوم کی خوشحالی کی بجائے روپے پیسے کے پچاری بن چکے ہیں۔ دولت کے حصول کی خاطر جعلی ڈگری تک لے سکتے ہیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی ہو؟

صرف اپنے ذاتی مفاد اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر قوم کو ذلت و رسوائی کی دلدل میںزندگی گذارنے پر مجبور کرنا انکا متاع نظربن چکا ہے؟ لیکن ہم ہیں کہ ہر وقت ان کو ہی آزماتے رہتے ہیں کبھی نئے آنے والے اچھے اور مخلص سیاست دانوں کی قدر نہیں کرتے ہیں ؟کیا ہمارے مقدر میں بدکردار اوربددیانت لوگ ہی رہنمائی کے قابل رہ گئے ہیں؟ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان جیسے لوگ ابھی پاکستان میں موجود ہیں جو حق اور سچ پر مبنی بات کرتے ہیں اور ملک وقوم سے وفاداری پر کسی کو شک وشبہ نہیں ہے مگر بات صرف انکو سامنے لانے اور قیمتی ووٹ سے اسمبلی میں لا نا ہے تاکہ خاندانی سیاست کا اثرو رسوخ کا خاتمہ ہو سکے اورہمیں مخلص قائد مل سکیں۔ہمارے سیاستدان اس ملک اور عوام کے ساتھ کتنے مخلص ہیں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض نا اہلی سے بچنے کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور الیکشن کمیشن کو نشانے پر لے رکھا ہے کہ نہ انکی قابلیت اورنہ الیکشن لڑنے کی اہلیت پر کوئی اعتراض کیا جا سکے جبکہ آئین پاکستان صاف ستھرے نمائندوں کو ہی الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں پہنچنے کی بات کر تاہے۔اور اس معاملے کو اجاگر کرنا بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایک کارنامہ ہے وگرنہ کوئی بھی اسطرح کی بات کر کے اپنے پاﺅں پرکلہاڑی نہیں مارگے ؟

مگر افسوس کی بات ہے کہ یہاں سب کرپشن کے ساتھ ہی اقتدار میں آنا چاہتے ہیں اور عوام کے پیسے سے ووٹ خرید کر اپنی دوکانداری چلانے کا سوچتے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کی یہاں میں اس لیے بات کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے حمام میں ننگے سیاستدانوں کے کرتوں کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ کس طرح سے اس ملک کی سادہ لوح عوام کے جذبات سے محض اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے کھیل رہے ہیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو ناکام کہنے والے یاد رکھیں کہ آئین کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں اب ایک ریڑھی والے سے ایک پڑھا لکھا شخص تک اپنی روزمرہ گفتگو میں کرنے لگ گیا ہے یہ بات بھی کسی انقلاب سے کم نہیں ہے؟ مزید براں اپنے حقوق کے حوالے سے لانگ مارچ اب محرومیوں کا شکار عوام جہاں موقعہ ملا کرےگی۔بلوچستان ،کراچی اورملک بھر میں امن وامن و بے روزگاری کی شرح سب پر عیاں ہو چکی ہے ۔اوریہ حقائق جو ذیل میں بیان کئے جا رہے ہیں ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے اگر اس بار بھی ہم نے ووٹ غلط شخص کو دینے کی غلطی کر لی تو شاید اس کا کفارہ ادا نہ ہو سکے۔

پاکستان اقتصادی لحاظ سے بین الاقوامی برادری میں کرپشن میں 117واں نمبر پر ہے۔ جبکہ بھوٹان جو کہ سارک کا سب سے چھوٹا ملک شمارہو تاہے وہ کرپشن می 29نمبر پر ہے۔ جب کہ ہمارا ہمسایہ بھارت کرپشن میں 70ویں نمبر پر،سری لنکا74ویں اور منگولیا جیسا ملک 92نمبر پر ہے۔بنگلہ دیش ،زمبالوے،نائیجیرکا کرپشن میں 108واں نمبر ہے ۔ٹرانسپیرنسی نٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق8ہزار500روپے بدعنوانی،ٹیکس چوری اور خراب طرزحکمرانی کی نظر ہوئے۔پی آئی اے، پی ایس او، پاکستان اسٹیل ، پاکستان ریلوئے اور سوئی گیس جیسے منافع بخش ادارے سالانہ 150سے 300ارب روپے خسارہ میں ہیں۔ جبکہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کل قرضہ جات14561ارب روپے سے تجاوز ہو چکے ہیں جو کہ 2008سے اب تک تقربیاََ ایک سوفیصد زائد ہیں۔

دوسری طرف اگر بیروزگاری کی طرف دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے ملک میں اس کی شرح تقریباََ15.4فیصد ہو چکی ہے۔اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں 5.1،سری لنکا میں 4،نیپال میں 4.6،گھا نا میں 11 فیصد ہے۔صحت کے معاملات پر بھی کچھ بات کر لیتے ہیں کہ صحت پر ہمارا خرچ GNPکا صرف 0.84فیصد اور GDPکا 2.6فیصد ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ صحت محروم ہیں اور مر رہے ہیں ۔دوسری طرف دیکھا جائے تو ہم سے الگ ہونے ووالے بنگلہ دیش کا health budgetہم سے زیادہ ہے یعنی 4.3،نیپال کا 6،بھوٹا ن کا5.5،سری لنکا کا 4،مالدیپ کا 5.6،گھانا کا 10.6اور اتھوپیا وحبشہ کا 3.6ہے۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سال کے بچوں کی شرح اموات82فی ہزار ہے۔ جبکہ یہ شرح سری لنکا میں 16فی ہزار،چین میں30فی ہزاراور ر ملائیشیا میں صرف8فی ہزار ہے۔جبکہ پاکستان میں ہیروئین کے عادی افراد کی تعداد لگ بھگ 5لاکھ ہے ۔ورلڈ بنک کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی غربت کا تناسب 58فیصد ہے۔جبکہ یہ شرح سری لنکا میں 9،قازقستان میں 8اور ملائیشیامیں صرف 4فیصد ہے۔ان اعدادوشمار کو آپ کتنا ہی غلط کہہ لیجئے مگر آس پاس نظر دوڑائیں تو ان میں کسی قدرسچائی نظر آجائے گی۔

جمہوریت اس نظام کو کہتے ہیں جس میں محکوم اپنے حکمرانوں کو اورووٹر اپنے نمائندوں کو کنٹرو ل کرسکیں۔یہ اہم سوال ہے کہ حقیقی جمہوریت کیا ہے؟حقیقی جمہوریت وہ ہوتی ہے جس میں ووٹر کا اختیارنمائندگان کے اوپر ہو؟ ذرا سوچے کیا ایسا ہمارے ہاں ہو رہا ہے؟یہاں تو کوئی الیکشن میں جیت جانے کے بعد ووٹرز کو اپنی شکل تک نہیں دکھاتا ہے ووٹرز کا اختیار ہونا تو بہت دور کی بات ہے جناب !ہمیں اب اس بات کا خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس انداز حکمرانی کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ہماری آنے والی نسلیں بلکہ ہمارے ملک کو بھی خوشحالی اور استحکام مل سکے۔ ہمیں مل کر اپنی اور اپنے ملک کی تقدیر بدلنی ہوگی بات صرف تعاون اور فیصلہ کرنے کی ہے ؟ سوچئے اور فیصلہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522652 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More