شرع٬ آئین پاکستان اور سوات میں طالبان
نظام
تین اپریل کو پاکستان کے ہر ٹی وی چینل پر یہ منظر دکھایا جارہا تھا اور
کچھ بین الاقوامی انٹرنیٹ سسٹم پر بھی دیکھا گیا۔سوات کی تحصیل کبل کے ایک
گاؤں میں ایک 17 سالہ لڑکی کو الٹا لٹا کر سر عام کوڑے مارے جارہے ہیں اور
وہ پشتو میں چیخ رہی ہے‘ توبہ کررہی ہے۔ مرد گھیرا بنائے ہوئے یہ منظر دیکھ
رہے ہیں شریعت کے نفاذ کے نام پر دی جانے والی اس سزا میں تین مرد ملوث
دکھائی دے رہے ہیں ۔ جن میں سے ایک نے لڑکی کی ٹانگیں پکڑی ہوئی ہیں۔ دوسرے
نے سر کی طرف سے دبوچا ہوا ہے اور تیسرا اس کی کمر پر کوڑے برسا رہا ہے۔
اسے 32 کوڑے مارے گئے ہیں۔ لیکن کیا اس لڑکی کو دبوچنے والے٬ اس کے جسم کو
ہاتھ لگانے والے اس لڑکی کے محرم تھے؟ یقینا ایسا نہیں تھا تو کیا وہ زیادہ
بڑے جرم کا ارتکاب نہیں کررہے تھے؟ انہیں تو سو سو کوڑے لگنے چاہئیں۔ کہا
گیا ہے کہ یہ طالبان کی حرکت ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان مسلم خان کا کہنا ہے
کہ لڑکی کو پردے میں مکان کے اندر کوڑے مارنے چاہئے تھے لیکن کیوں؟ شریعت
تمام تر وہ ہے جو قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ کیا قرآن میں کسی نامحرم کے ساتھ
یا بغیر محرم کے باہر نکلنے پر کوڑوں کی سزا تجویز کی گئی ہے؟ کیا رسول
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایسا کوئی واقعہ ہوا؟ کیا خلفائے
راشدین سے ایسی کوئی روایت وابستہ ہے؟ وہاں تو زنا کی مرتکب خاتون سے بھی
نرمی کا سلوک کیا گیا جس نے اپنی زبان سے اقرار کیا تھا۔ پھر یہ کون سی
شریعت اور کون سا اسلام ہے؟ یہ بھی ثابت نہیں کہ کسی قاضی کی عدالت سے یہ
سزا سنائی گئی ہو اور اگر ایسا ہوا تو اس قاضی کو بھی کوڑے لگنے
چاہئیں۔انتہائی شرم ناک واقعہ ہے۔ واقعہ کیا اسے سانحہ کہیے۔ لیکن اگر
میڈیا پر دکھائے جانی والی اس فلم کا دوسرے پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے تو
سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ وڈیو کس نے بنائی۔ کیا ان کوڑے بازوں نے اس کا
اہتمام کیا کہ دوسروں پر خوف طاری ہو یا کسی نے اپنے کیمرے سے از خود بنالی
جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ واقعہ 3جنوری کا ہے تو پھر اس پر تین ماہ
تک پردہ کیوں پڑا رہا اور اسے منظر عام پر اس وقت کیوں لایا گیا جب سوات
میں نظام شریعت کے نفاذ کا سمجھوتا ہوگیا اور اب اس وڈیو کے منظر عام پر
آنے کے بعد اس معاہدے پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں اور حکومت پر دباؤ
بڑھ رہا ہے کہ صوفی محمد سے معاہدہ ختم کیا جائے اور سوات میں پھر آپریشن
شروع کیا جائے جس پر بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ویڈیوکا مقصد عوام
میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ امریکا جو کچھ کررہا ہے وہ صحیح کررہا ہے اور
اب وہی ان ”خونخوار درندوں“ سے نجات دلاسکتا ہے۔مقاصد خواہ کچھ بھی ہوں
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ قابل مذمت واقعہ رونما ہوا ہے جس کی وجہ سے نہ
صرف سوات امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ پاکستان کے عوام بھی انتشار
کا شکار ہوگئے ہیں اور کچھ نا سمجھ و دین سے ناواقف افراد کو شرع پر بھی
انگلیاں اٹھانے کا موقع مل گیا ہے لہٰذا یہ حکومت یہ ذمہ داری ہے کہ اس
واقعہ کی مؤثر تحقیقات کے ذریعے اس کے ذمہ داران کا پتا لگا کر نہ صرف ان
کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے بلکہ اس ویڈیو
کے پیچھے پوشیدہ سازش کا بھی پتا لگا کر اس کا بھی سدِ باب کیا جائے کیونکہ
سوات میں ہونے والے اس واقعہ نے ملک بھر کی تمام خواتین میں اس احساس عدم
تحفظ کو جنم دیا ہے کہ اگر سوات امن معاہد ختم کرکے فی الفور طالبان کا
خاتمہ نہ کیا گیا اور سوات کو آئین و قانون سے ماورا قرار دے کر وہاں شرع
کے نام پر شخصی آمریت قائم رکھنے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر یہ نظام پورے
پاکستان کو اپنی زَد میں لے لے گا اور طالبان پورے پاکستان میں پھیل کر نہ
صرف خواتین کے بنیادی انسانی حقوق معطل کردیں گے بلکہ ہر شہر کی شاہراہوں
پر اسی طرح خواتین کو کوڑے مارنے کے مناظر بھی دکھائی دیں گے ۔صدر٬ وزیر
اعظم٬ مشیر داخلہ اور پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس واقعہ کا
ازخود نوٹس لیا جانا اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ حکومت و عدلیہ عوام کو نہ
تو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑے گی اور نہ ہی امن معاہدے کے خلاف کسی سازش
کو کامیاب ہونے دے گی اسلئے خواتین اور سول سوسائٹی کو حکومت پر اعتماد
کرنا چاہئے حکومت ایسا کوئی نظام ملک میں قائم نہیں ہونے دے گی جو پاکستان
کی سلامتی کے لئے خطرہ یا آئین پاکستان سے متصادم ہو کیونکہ پاکستان کا
آئین ایک ایسا متفقہ آئین ہے جس میں اسلام کے تمام شرعی تقاضے موجود ہیں
اور اس کی موجودگی میں قوم کو مزید کسی کی ایسی خود ساختہ شریعت کی ضرورت
نہیں جو انسانوں کے حقوق سلب کرتی ہو ۔ |