سوات، میڈیا اور سپریم کورٹ

جب سے مبینہ طور پر سوات میں ایک خاتون کو کوڑے مارنے کی فوٹیج میڈیا پر دکھائی جا رہی ہیں، مغرب زدہ این جی اوز سے وابستہ لوگوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ایسا واقعہ ہوا بھی ہے تو اس میں اسلام یا مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں نہ ہی اسلام میں ایسی حرکات کی گنجائش موجود ہے، ایسی سزا باقاعدہ طور پر مجاز عدالت کی جانب سے تو دی جاسکتی ہے جس نے پورا کیس قرآن و سنت کی روشنی میں سنا ہو اور قانون کے تقاضے پورے کر کے سزا دی ہو، لیکن کسی تنظےم کو ایسی کسی حرکات کی آزادی ہرگز نہیں دی جاسکتی! لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ غیروں کے ایجنٹوں کی ایسی کارروائی کو بنیاد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جائے۔ ایسی حرکات اور ان کی میڈیا کوریج باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔جس کے تحت اسلام اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ مقصود ہے۔ ان این جی اوز اور عاصمہ جہانگیر جیسی ان خواتین کو اس وقت سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے جب امریکی ڈرون پاکستانی علاقوں پر حملے کرتے ہیں اور ان حملوں میں معصوم اور بےگناہ بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں، کیوں اس وقت وہ لوگ امریکہ کے خلاف مظاہرے نہیں کرتے، اس وقت پتھر کے بت بن جاتے ہیں اور جب اسی امریکہ کے ایجنٹ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں تو فوراً ایسے مظاہرے کئے جاتے ہیں تاکہ امریکہ بہادر کو خوش کیا جاسکے۔ ہمارے میڈیا والے بھی ”بادشاہ“ لوگ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کا کردار انتہائی طاقتور ہے اور عدلیہ بحالی تحریک میں اگر میڈیا، وکلا، سول سوسائٹی اور ججز کا ساتھ نہ دیتا تو تحریک اتنی آسانی سے کامیاب نہ ہوتی، یہ امر مصدقہ ہے کہ میڈیا نے لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک دیا ہے اور ایک مثبت انداز فکر کے ساتھ کام کیا ہے لیکن میڈیا کے بھائیوں اور چینل مالکان سے یہ بھی درخواست ہے کہ خدارا ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جو اسلام اور پاکستان کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔ حکومت پر ضرور تنقید کریں لیکن وطن عزیز کو بحیثیت مجموعی ذلیل و رسوا نہ کریں۔ اسلام کا امیج خراب نہ کریں۔ ایسی باتوں کے بارے میں پہلے چھان بین کر لیا کریں کہ ان میں کوئی صداقت ہے بھی یا نہیں! کسی بھی ذی شعور انسان کو اس بات پر غور کرنا تو چاہئے کہ ایک پرانی ویڈیو فوٹیج اس وقت کیوں منظر عام پر لائی گئی جب سوات میں امن معاہدہ ہوچکا ہے اور وہاں امن و امان کی صورتحال دن بدن بہتر ہورہی ہے۔ کیا یہ پاکستانی ”جنت نظیر مقام“ کو ایک بار پھر ”جہنم“ بنانے کی سازش تو نہیں؟ کیا یہ سوات کے پر امن عوام کو دوبارہ کشت و خون پر آمادہ کرنے کی کوئی دانستہ کوشش تو نہیں؟ خبر کو پہلے ”بریک“ کرنے کی دوڑ میں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کیوں پیدا کئے جارہے ہیں؟ بازی مارنے کی کوشش میں لوگوں کو ذہنی مریض کیوں بنایا جا رہا ہے؟

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے سوات میں خاتون کو کوڑے مارنے کی سزا کے خلاف از خود نوٹس کیس میں جب سپرےم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بنچ نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ سے سوات میں حکومت کی عملداری کی بابت استفسار کیا تو ان کا اور اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ سوات میں حکومت کی عملداری ختم ہوچکی ہے اور وہاں تحقیقات کرنا بہت مشکل ہے، جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ کے اس جواب پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو ججوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ بھی کوئی کام آتا ہے؟ بلاشبہ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے سمیت تمام معاملات کو دیکھنے اور حکم جاری کرنے کا اختیار ہے لیکن اس طرح کے ریمارکس دے کر سپریم کورٹ اپنی حیثیت کو متنازعہ تو نہیں کر رہی؟ یہ وہ سوال ہے جس کو ذہن میں رکھ کر سپریم کورٹ کے کسی بھی عزت مآب جج کو ریمارکس دینے چاہیے کیونکہ اس طرح کے معاملات میں بہت جلد یہ پراپیگنڈہ شروع ہوجائے گا کہ سپریم کورٹ کے ججز خصوصاً وہ ججز جو وکلاء کی عدلیہ بحالی تحریک اور لانگ مارچ کے نتیجہ میں بحال ہوئے ہیں وہ حکومت سے کسی قسم کا کوئی بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ سپریم کورٹ کو تمام معاملات کو قانون و آئین کے تحت پرکھنا اور حکم جاری کرنا چاہئے لیکن اگر اس طرح کے ”ریمارکس“ کے بغیر بھی کام چلایا جاسکتا ہو تو ضرور چلانا چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ سپریم کورٹ کو سوات سے متعلقہ تمام معاملات کا بھی نوٹس لینا چاہئے، وہاں روز امریکہ کی جانب سے کوئی نہ کوئی حملہ ہوتا ہے جس میں معصوم اور بےگناہ لوگ شہید ہوتے ہیں، اب بلوچستان میں بھی ڈرون حملوں کی خبریں آرہی ہیں اس بارے میں بھی بالآخر سپریم کورٹ کو ہی نوٹس لینا پڑے گا۔ حکومت امریکہ کے ساتھ دہشت گردی روکنے کے معاملات کو سپریم کورٹ کے احکامات سے بھی نتھی کرسکتی ہے، امریکہ جہاں اپنے ملک کی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے وہیں اسے پوری دنیا کے آزاد ممالک کے ان فیصلوں کا بھی احترام کرنا چاہئے جو وہاں کی عدالتوں نے اپنے آئین و قانون کے مطابق دیے ہوں اور جن کا تعلق ان ممالک کے خانگی معاملات سے ہو۔ سپریم کورٹ کو ان رپورٹس کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے جن میں سوات کے مبینہ واقعہ کی صحت سے انکار کیا گیا ہے، جب تک ٹی وی فوٹیج کی اصلیت اور حقیقت سامنے نہیں آجاتی تب تک اس کو دوبارہ نشر کرنے پر بھی پابندی لگانی چاہئے۔ حکومت پاکستان، سپریم کورٹ، پاکستانی عوام اور میڈیا کو اس بارے مں بھی سوچنا چاہئے کہ بیت اللہ محسود کا تعلق طالبان سے ہے یا وہ انڈین و افغان ایجنٹ ہے؟ کیونکہ جس طرح کے اس کے بیانات ہیں اور جس طرح کے افعال ہیں اس سے وہ کم از کم اسلام اور مسلمانوں کا حامی تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کہاں کی مسلمانیت ہے کہ اپنے ان بہن بھائیوں کے خلاف خود کش حملے کئے جائیں جو سوات اور فاٹا سے انتہائی دور بھی ہیں اور ان کا کوئی قصور بھی نہیں!اور دوسری طرف امریکہ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ پوری دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ہر جگہ کی پل پل کی خبر رکھتا ہے، اور ہمارے وہ مشیر داخلہ( جو اب ماشاءاللہ عنقریب وزیر داخلہ ہوجائیں گے ) جو اکثر کوئی دھماکہ ہوتے ہی سابقہ حکومت کے مشیران کی طرح بیان داغ دیتے ہیں کہ ہم نے فون کال ٹریس کی ہے، یہ کام بیت اللہ محسود کا ہے، وہ کیوں اس کو پکڑتے نہیں یا اس پر میزائل نہیں داغتے؟ علی احمد کرد کو ایک بار میڈیا سے موبائل پر بات کرنے کے دس منٹ کے اندر گرفتار کر لیا گیا تھا تو بیت اللہ محسود کو ٹریس نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کہاں سے میڈیا کو ٹیلیفونک انٹرویو دے رہا ہے؟ کیا کبھی ان معنی خیز سوالات کے جوابات اس قوم کو بھی میسر ہوں گے؟ سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے یا نہیں؟ آپ کیا کہتے ہیں؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207278 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.