آزاد کشمیر حکومت کو ریاستی پریس کا انتباہ

آزاد کشمیر کے ریاستی اخبارات و جرائد نے تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر کے حقوق کے لئے جو شاندار کردار ادا کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔لیکن بدقسمتی سے آزاد کشمیر کی حکومتوں نے ریاستی پریس کو اس کا جائز مقام نہیں دیا اور نہ ہی ریاستی پریس کے ترقی کے لئے کوئی اقدامات کئے گئے۔1952ءمیں ریاستی اخبارات نے ” جموں و کشمیر نیوز پیپرز ایسوسی ایشن“ قائم کی اور اسی سال حکومت کے چیف ایگزیکٹیو اور ریاستی اخبارات کے نمائندوں پر مشتمل ”پریس مشاورتی کمیٹی ‘ ‘ قائم کی گئی ،تاہم بعد میں یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ آزاد کشمیر میں ہر شعبے میں ترقی ہوتی گئی لیکن ریاستی اخبارات و جرائد کے لئے ترقی کے دروازے بند رکھے گئے۔

آزاد کشمیر کی حکومتوں نے ہمیشہ پاکستان کے اخبارات و جرائد کو ریاستی اخبارات پر نمایاں ترجیح دی ہے ۔اسی ناموافق صورتحال میں متعدد ریاستی اخبارات و جرائد بند ہو گئے جن کی تعداد درجنوں میں ہے۔گزشتہ ایک عشرے کے دوران آزاد کشمیر سے متعدد روزنامہ اخبارات شائع ہونے شروع ہو ئے اور اب آزاد کشمیر سے پچیس سے زائدروزنامہ اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔پاکستان کے اخبارات و جرائد آزاد کشمیر ایڈیشن کے نام پر معمولی تعداد میں اخبارات شائع کر کے آزاد کشمیر کے اشتہارات کا بڑا حصہ لے جاتے ہیں جبکہ ریاستی اخبارات کو ان کے جائز حصے سے محروم رکھا جاتا ہے۔پاکستان کے تمام صوبوں میں علاقائی اخبارات کو اسی فیصد جبکہ باقی اخبارات کو بیس فیصد اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔اس کے برعکس آزاد کشمیر میں اسی فیصد اشتہارات پاکستان کے اخبارات جبکہ محض بیس فیصد ریاستی اخبارات کو دیئے جاتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ آزاد کشمیر اس متنازعہ ریاست جموں و کشمیر وگلگت بلتستا ن کا حصہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری میں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے زیر انتطام کشمیر اور پاکستان زیر انتظام کشمیر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔آزاد کشمیر حکومت کا وجود رتمام ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور ہر عمل میں لایا گیا لیکن پھر گلگت بلتستان کا انتظام حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کے بعد مسئلہ کشمیر بھی وزارت خارجہ کے سپرد کر کے آزاد کشمیر حکومت مقامی نوعیت کے اہداف اور جھگڑوں میں ملوث و محدود ہو گئی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد کشمیراپنے آئینی ،انتظامی اور مالیاتی حقوق سے بتدریج محروم ہوتا چلا گیا۔تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ کرپشن اور اقرباءپروری کے نظارے بھی عریاں ہو گئے ہیں۔اس تناظر میں آزاد کشمیر حکومت کے قیام کے جواز ہی ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ آزاد کشمیر اپنے حقوق و تشخص کا تحفظ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے اپنے مظلوم بھائیوں کی حقیقی مدد کی تدابیر اختیار کرے۔لیکن ہو کیا رہا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے علمی و فکری محاذ کے لئے قائم کشمیر لبریشن سیل بھی آزاد کشمیر حکومت کی طرح محض لوٹ مار اور ناجائز سیاسی ایڈجسمنٹ کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔

پاکستانی اخبارات و جرائد نے کشمیریوں کے مسائل اور ان کے موضوعات کا جیسے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔پاکستانی میڈیا کے اس روئیے کے نتائج دورس اثرات پر مبنی ہوں گے۔اس طرح ریاستی اخبارات پر یہ بھاری ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں ریاستی حقوق و تشخص کی بحالی کے لئے اپنا ابلاغی کردار ادا کریںاور آزاد کشمیر میں ایسی باوقار حکومت کے قیام کے لئے آواز بلند کریں جو گندگی کا موجود ماحول سمیٹتے ہوئےریاستی عوام کی امنگوں اور مفاد کے مطابق وہ راہ اختیار کریں جس کے لئے آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

جموں و کشمیر نیوز پیپرز ایسوسی ایشن نوے کی دہائی تک موجود رہی اور اس کے آخری صدور میں فیاض عباسی مرحوم اور قاضی عبدلحیفیظ سالب مرحوم شامل تھے۔2008ءمیں جموں و کشمیر نیوز پیپرز ایسوسی ایشن کی دوبارہ تنظیم نو کی گئی اور بعدمیں اس کا نام ”آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی “ رکھا گیا۔ریاستی اخبارات و جرائد کی تنظیم نو کے محرکات وہی ہیں جن امور کا تذکرہ پہلے کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال ریاستی اخبارات وجرائد کی اس تنظیم کے الیکشن ہوئے اور اب تما م ریاستی اخبارت و جرائد ”آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی“ کے پلیٹ فارم پر متحد ہیں اور مقامی امور کے علاوہ کشمیر کاز کے حوالے سے بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے کو پرعزم ہیں۔

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کی عدم دلچسپی اور زیادتی کی وجہ سے ریاستی اخبارات شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں جس سے اکثر اخبارات و جرائد کے بند ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ماضی میں تو معاشی بحران کے شکار کئی کشمیری اخبارات چلانے والے یہی صدمے لئے اس دنیا سے چل بسے لیکن کسی نے ان کی موت کو پریس پر معاشی دباﺅ سے منسلک نہ کیا۔ لیکن چند ہی ماہ قبل روزنامہ ”دومیل“ مظفر آباد کے ایڈیٹر و پبلشر راجہ ظفر شدید معاشی دباﺅ کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔اس وقت تمام کشمیری اخبارات شدید مالی خسارے سے دوچار ہیں اور ان پر موجود قرضوں کی مدات میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ کسی بھی وقت ایک ایک کر کے یہ اخبارات بند ہونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔29جنوری2013ءکو مظفر آباد میں ” آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی“ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں کئی ارکان پھٹ پڑے اور انہوں نے شدید الفاظ میں کشمیری اخبارات کو درپیش سنگین معاشی بحران پر بات کی اور کہا کہ آزاد کشمیر حکومت ریاستی اخبارات کا گلا گھونٹ کر کشمیری عوام کی آواز دبانا چاہتی ہے۔جنرل کونسل کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاستی اخبارات عوام کے ترجمان اور ان کے حقوق کے نگہبان ہیں لہذا ریاستی اخبارات کو ختم کرنے کی اس مذموم سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔اجلاس میں فیصلے کیا گیا کہ ریاستی اخبارت و جرائد کواشتہارات کے بلات کی ادائیگی کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو 15فروری تک کی مہلت دی جائے اور اگر حکومت نے ادائیگی نہ کی تو تما م ریاستی اخبارات حکومت کے خلاف ایسے راست اقدامات اٹھائیں گے جس کے نتائج کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائید ہو گی۔اجلاس میں صدر ”آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی“ کے صدر عامر محبوب نے بتا یا کہ میرپور جناح ماڈل ٹاﺅن کے منصوبے میں ایکسئین کے حصے میں آنے والی کمیشن کی رقم سے نصف رقم سے تمام اخبارت کی ذمے ادائیگیاں ہو سکتی ہیں۔

المختصر یہ کہ ”آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی“ نے یکمشت فوری ادائیگیاں نہ کرنے کی صورت حکومت پاکستان،پاکستان کے اہم اداروں سمیت مختلف عالمی تنظیموں سے رابطوں کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت کی خبروں کے بائیکاٹ سمیت آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔” آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی“نے آزاد کشمیر حکومت کو اس حوالے سے بار بار متنبہ کیا ہے اور حکومت کو ادائیگی کی لئے پورا وقت دیا ہے لیکن اب اگر حکومت ریاستی اخبارات کو یکمشت فوری ادائیگی نہیں کرتی یا ریاستی اخبارات کو ادائیگی کرنے کے بجائے پاکستان کے اخبارات و جرائد کو ادائیگی کر دیتی ہے تو کشمیری اخبارات آزاد کشمیر اسمبلی کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے ایسی آواز احتجاج بلند کریں گے کہ اس کی باز گشت نہ صرف پاکستان اور مقبوضہ کشمیر بلکہ دنیا بھر میں سنائی دے گی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699379 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More