مجھے اندازہ نہیں ہورہا کہ وہ کس
قسم کا ٹی وی اینکر ہے ، وہ کیا چاہتا ہے اور سب سے بڑھ کر کیوں چاہتا ہے؟
ہمارے معاشرے میں کس نے اسے یہ ٹھیکہ دیا ہے کہ پوری سوسائٹی کو ٹھیک کرنے
کے لیئے ایسے جرات مندانہ پروگرام پیش کرے؟ جہاں چاہے وہ پہنچ جاتا ہے اور
وہ سب کچھ لوگوں کو دکھادیتا ہے جو اس سے پہلے لوگوں نے کم از کم اپنے
گھروں میں چلنے والے ٹی وی پر نہیں دیکھا ہوگا۔ یقین کریں جب اس کا پروگرام
لوگ اچانک ہی ریموٹ کے بٹن دباتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر ان کی ہمت نہیں
ہوتی کہ دوبارہ ریموٹ پر انگلیاں چلائیں ، بلکہ وہ ریموٹ کو اپنے ہاتھ کی
گرفت سے آزاد کردیتے ہیں۔اور چپ چاپ ٹی وی اسکرین پر متوجہ ہوجاتے ہیں ۔
اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کو خاموش کرادیتے ہیں اور پھر کمرے میں موجود سب ہی
لوگوں کی توجہ اس کے پروگرام کی طرف ہوجاتی ہے۔لوگ اس کی باتوں کے ساتھ
دکھائی جانے والی فوٹیج کی طرف اس طرح متوجہ ہوجاتے ہیں جیسے یہ پروگرام
دیکھنا ہی ان کا مقصد تھا۔ممکن ہے اب لوگ اس نوجوان کے پروگرام کا انتظار
کرتے ہوں،کیونکہ وہ پروگرام ہی ایسے پیش کرتا ہے جو عام لوگ دیکھنا چاہتے
ہیں۔ اس کے ہر پروگرام میں عام افراد کی بات کی جاتی ہے جس کا مقصد صرف اور
صرف عام لوگوں کی رہنمائی کرنا ، انہیں بتانا کہ وہ کیا کھا رہے ہیں وہ کیا
پی رہے ہیں، وہ اپنے مسائل کے لیئے جن سے رابطے کررہے ہیں وہ ان کا مسیحا
ہے بھی کہ نہیں؟ان کے درد اور دکھوں کا مدوا کرے گا بھی یا نہیں؟ کہیں وہ
مزید دکھ اور تکلیف کا باعث تو نہیں بن جائے گا۔
میں بات کررہا ہوں اس ٹی وی اینکر کی جس سے میری آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔
جس چینل پر وہ انسانیت کی خدمت کررہا ہے اس چینل سے ابتدائی دنوں میں میرا
بھی واسطہ رہا۔لیکن مجھے نہیں معلوم تھا ہم لوگ جس چینل کی ابتداءکررہے ہیں
وہاں کوئی ایسا بھی اینکر آجائے گا جس کا مقصد اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کا
احساس کرنا ہوگا۔
اے آر وائی ٹی وی کے پروگرام” سرے راہ “کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو اس
کے ختم ہونے تک دیکھتا رہا ۔پروگرام دیکھنے کے بعد میں ، اینکر اقرارالحسن
کی غائبانہ تعریف کیئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ہمارے معاشرے میں منہ پر تعریف
کرنے اور سننے کارواج ہے اور وہ بھی ڈرف جان پہچان والوں کی۔ شائد یہ ہی
وجہ تھی کہ میری اہلیہ اور بچوں نے یک زبان ہوکر مجھ سے دریافت کیا کہ کیا
آپ جانتے ہیں۔میرا ارحم ماشاءاللہ سے گیارہ سال کا ہے مگر اس کی زبان سے
اقرار کے بارے میں یہ جملہ نکلا ” ابو یہ اینکر ڈرنے والا نہیں لگتا“۔
چند روز قبل میں نے اقرار کو فون کیا ،میری توقع کے مطابق اس نے کال ریسیو
نہیں کی اور کرنی بھی نہیں چاہئے تھی۔اب ہمارے شہرکراچی اور ملک کے حالات
ایسے نہیں رہے کہ کسی بھی نامعلوم نمبر کی کال سن لی جائے۔کم از کم اقرار
جیسی شخصیات کو احتیاط کرنی چاہئے۔فون ریسیو نہ کیئے جانے پر میں نے اسے
تحریری پیغام ( ایس ایم ایس )بھیجا۔کچھ دیر بعداقرار نے خودمجھے فون کیا
میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور اچھے پروگرام پیش کرنے پر انہیں مبارکباد
دی۔
آپ کن احساسات اور مقاصد کے تحت ایسے پروگرام کرتے ہیں؟ میں نے پوچھا ،
اقرار نے کہا کہ اللہ نے مجھے لوگوں کو معاشرے کی کالی بھیڑوں سے آگاہ کرنے
کا موقع دیا ہے اس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، اللہ کی دی ہوئی
صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاکر قارئیں کو سچ اور جھوٹ ، ایمانداری و بے ایمانی
اور اچھائی و برائی سے آگاہ کرنے کی اپنے تئیں کوشش کرتا ہوں ، میری خوش
قسمتی ہے کہ مجھے ٹیم بھی اچھی ملی جبکہ چینل بھی ایسا ہی ملا جو یہ سب
دکھانے کی ہمت رکھتا ہے۔اقرار نے کہا کہ میں سیاسی ٹاک شو بھی کرسکتا تھا
لیکن جو مزا انسانیت کی خدمت والے پروگرام میں ہے وہ سیاست دانوں کے مفادات
والے پروگراموں میں کہاں ہوتا ہے؟اس نے کہا ان پروگراموں کے ذریعے اگرچہ
ابھی تک وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے جو میرا ہدف ہے اور ہدف یہ ہے کہ معاشرے
کو چوروں ، لٹیروں اور بے ایمانوں سے پاک کرنا ۔ اقرار نے بتایاکہ پروگرام
نشر ہونے سے علی تبسم نامی جعلساز جو کہ لوگوں کو ورغلاکرپتھروںکی
انگوٹھیاں بھاری قیمت پر فروخت کرتا تھا اس کی پشت پناہی کرنے والے پولیس
اہلکار کے خلاف کارروائی شروع ہوچکی ہے۔
اقرار سے میری اب تک باالمشافہہ ملاقات نہیں ہوسکی ۔اس لیئے میں نے ان سے
پوچھاکہ آپ کو ڈر نہیں لگتا ؟
اقرار نے کہاسر ڈر کس سے اور کس کا؟ جب سب کچھ اللہ کی رضا کے لیئے کرنا ہے
تو پھر کیا ڈرنااور کیوں ؟ہاں البتہ اس نے ایک لمحہ رک کر بولا ” سر لوگ
سمجھ نہیں رہے کہ ان کے کیا حقوق ہیں معاشرے کے لئے دوسرے انسانوں کے لیئے
“۔وہ بس اپنی ذات کے بارے میں ہی سوچتے ہیں تب ہی ان کی رہنمائی کرنے کے
لیئے بھی کوئی دوسرا تیار نہیں ہوتا۔ اقرارالحسن کی فکر انگیز بات سنکر میں
خود سوچوں میں گم ہوگیا۔فون بند کرکے میں مزید سوچتا رہامگر میرے دماغ میں
صرف وہ ایک جملہ آیا جو اکثر آتا ہے کہ ”اگر ہم دوسروں کی فکر کریں گے تو
دوسرے اللہ کے حکم سے ہماری فکر کرنے لگیں گے“ ۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے
کہ اللہ کی ذات پرپختہ یقین کیا جائے اور اس کے احکامات پر بھی عمل کیا
جائے۔ پکا یقین ایسے کہ جیسے ہم زندہ ہیں اورایک دن موت بھی آئے گی۔یقین
کریں جس دن ہم دین دار بن جائیں گے اس روز ہماری زندگیاں بھی خوشگوار
ہوجائیں گی۔ |