زاہد خان، فلمی نام زاہد کپور،
خلاف معمول اندھیرے منہ اٹھ بیٹھا، قدآدم آئینہ میں سراپا درست کیا اور تیز
تیز قدموں سے زینہ اتر گیا۔
پانچ منٹ کی ڈرائیونگ کے بعدوہ دلآورخان عرف ببلو بھائی کے نیم مردہ چہرے
کو بڑے اشتیاق کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔
”ماموں جان ، ابھی کیسے ہیں آپ؟
”اللہ کا کرم ہے “ انہوں نے بستر مرگ سے اٹھنے کی کوشش کی۔
کپور بجلی کی سی سرعت سے صوفے سے اٹھا اور ماموں کو دوبارہ اُسی پوزیشن میں
لٹا کر اپنی جگہ آبیٹھا۔
”ماموں ”بجلی “ دیکھی آپ نے؟“ اس کے لہجے میں بلا کااشتیاق تھا۔
انہوں نے ایک بار پھر اٹھنے کی ناکام کوشش کی تھی مگر ان کے کمزور بدن نے
دماغ کاساتھ نہ دیا۔اور ان کا اٹھا ہوا سر پھر تکئے سے جالگا۔
”کپور آگ لگانا سیکھ آگ لگانا تیری بجلی تو اچھی ہے ، بڑے تیکھے نقوش ہیں
اس کے ایکٹنگ بھی خوب ہے پر ’بجلی ‘میں آگ لگانے کی شکتی نہیں کچھ مرچ
مسالہ ڈال نا اس میں کہ آگ لگے اور فلم سپر ہٹ ہوجائےاس زمانے کا اسٹینڈ
یہی ہے ، فلمیں اپنی فنی بنیادوں پر کامیاب نہیں ہوتیں باہر سے کچھ نہ کچھ
کرنا پڑتا ہے“
انہوں نے گزشتہ رات ’بجلی‘ کو ایک کامیاب ہدایت کار کی کڑی تنقیدی نظر سے
دیکھا تھااور کپور کو مزید رہنما ہدایات دینے کے لیے بلا بھیجا تھا۔کپور کو
بھی ان کے خیالات جاننے کا بے صبری سے انتظار تھااس لیے وہ اندھیرے منہ ان
کے پاس آپہونچاتھا۔
کپور نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے سرکھجایا اور ماموں کو مزید زحمت نہ دینے
کے ارادے سے موضوع بدل کر ادھرادھر کی باتیں کرنے لگا۔اس کے چہرے کی شگفتگی
اداسی میں بدل گئی ۔
” گڑیا اپنی شادی کو لے کر بہت ایکسائی ٹیڈ ہے داماد اچھا مل گیاآپ کو“
” سب اوپر والے کا کرم ہےموہن شرما بہت نیک اور محنتی لڑکا ہے امریکہ میں
اس کا ایکسپورٹ امپورٹ کا بزنس ہے۔خوبرو بھی ہے، ذہین بھی، دولت مند بھی
اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ فرماں بردار بھی بہت ہے بستر مرگ پر پڑے ہوئے
ایک بیمار آدمی کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئے کہ اس کی نازو ں کی پالی ہوئی
بیٹی سدا سکھی رہے۔“وہ نحیف آواز میںرک رک کر بول رہے تھے۔
ان کی عمر ابھی کچھ زیادہ نہیں تھی مگر جان لیوا بیماری نے انہیں بستر مرگ
پر ڈال دیا تھا ۔نزہت عرف گڑیا کا نام یا خیال آتے ہی ان کے بدن میں جانے
کہاں سے طاقت آجاتی تھی۔ گڑیا ان کی اکلوتی اولاد تھی، نازوں کی پالی
ہوئی۔جب کوئی اس کا ذکر کر بیٹھتا تو وہ اپنی بیماری بھول جاتے ۔اور اس کی
بڑی بڑی آنکھوں اور کشادہ پیشانی کاذکر کرنے لگ جاتے۔کبھی کبھار تو وہ حد
ہی کردیتے ۔ گڑیا کی پیدائش سے جوانی تک پوری کہانی انہیں ازبر تھی اور جب
ایک بار اس کہانی کو شروع کردیتے تو پھر گڑیا کی جوانی اور شادی تک پہونچ
کر ہی دم لیتے۔گڑیا اگر ایسے کسی موقع پر موجود ہوتی توچپکے سے کھسک لیتی
یا پھر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کہہ دیتی ’ ’ اب بس بھی کرو ڈیڈی آپ ہر
ایک کے سامنے میری کہانی لے کر بیٹھ جاتے ہیں لوگ کیا سوچتے ہوں گے آپ کے
بارے میں۔“
”یہی نا کہ میں سٹھیا گیا ہوں“ وہ ہنس دیتے اور خاموش ہوجاتے۔
”جی جی بڑے نصیبوں والے ہیں آپ آپ جلد اچھے ہوجائیں گے فکر نہ کریں “کپور
کو معلوم تھا کہ ماموں اب اچھے ہونے والے نہیں پھر بھی اس نے ان کا دل
رکھنے کے لیے کہا۔کثرت شراب نوشی نے جگر کے دن تمام کردئے تھے۔
اچھامیں چلتا ہوں پھر آؤنگا فرصت میں۔ مجھے آج سفر پر جانا ہےاللہ حافظ“
”جاؤ، پھلو پھولو اللہ حافظ۔“
زاہد کپور جتنی تیزی کے ساتھ اپنے گھر سے نکلاتھا اتنی ہی تیزی کے ساتھ
ماموں کے گھر سے بھی نکلا۔
اور چند منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ ایک بار پھر قدآدم آئینہ کے سامنے کھڑ
اتھا۔
”خوبرو تو میںبھی ہوں،ذہانت میں کچھ خاص کمی نہیں اورفرما بردار تو ہوں
ہیلیکن اگر گڑیا کو وہ ہا تھی ہی پسند آیاتو میں کیا کروں بے وقوف لڑکی۔“
اس نے زور سے پیر پٹخے اور بیرون ملک سفر کی تیاریوں میں جٹ گیا۔
زاہد کپور فلم انڈسٹری میں نووارد نہیں تھا ماڈلنگ اور پھر ایکٹنگ میں وہ
جانا پہچانا چہرہ تھا تاہم فلمی ہدایت کار کی حیثیت سے’ بجلی‘ اس کی پہلی
فلم تھی۔
”کچھ مرچ مسالہ ڈال نہ اس میں “
دیکھنے کو تو وہ سفر کی تیاریوں میں جٹا ہواتھا پر اس کا دماغ ماموں کے اس
جملے پر اٹکا ہوا تھااسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ اس کے کیا معنی
نکالے۔ایک بار اسے اپنے آپ پر غصہ آیا کہ وہ اتنے سالوں سے ماموں کی
رہنمائی میں کام کررہا ہے او ر ابھی تک وہ ان کی ذو معنی باتوں کوپوری طرح
سمجھ پانے سے قاصر ہے۔جنجھلاہٹ اور غصہ کے عالم میں اس نے گڑیا کی تصویر پر
قلم چلادیا ۔گڑیاکے ہونٹ دو حصوں میں بٹ گئے۔
”مگر یہ ماموں بھی نا ہر وقت پہیلیاں بجھاتے رہتے ہیں صاف صاف بات کرنے میں
کیا ان کی “ اچانک اسے بستر مرگ پر پڑے ہوئے ماموں سے ہمدردی پیدا ہوئی
اوروہ لبوں پر آئی ہوئی بھدی گالی کو پی گیا۔
وہ بجلی کے تعلق سے خوبصورت الفاظ سننے کا مشتاق تھامگر خلاف توقع اسے نقد
بھرے الفاظ سننے کو ملےدوسرے یہ کہ وہ ابھی تک شرما کو گڑیا کے شوہر کی
حیثیت سے برداشت کرنے کے لیے خودکو تیار نہیں کرپایاتھا۔اس لیے اس کا دماغ
چکرایا ہوا تھا۔
زاہد بیٹا، اتنے لمبے سفر پر جارہا ہے لے یہ گرم گرم پکوڑے کھالے اور تھوڑی
دیر آرام کرلے شام میں آٹھ بجے تو فلائٹ ہے تیری پانج بج گئے تیاری کرتے
کرتے اب بہت ہوگئی تیاری یہ پکوڑے کھالے او ر سوجا تھوڑی دیر “
اور وہ اچھا ماں کہتے ہوئے بستر پر چلا گیا۔
”کیامطلب ہوسکتا ہے ماموں جان کا“ پچھلے کئی گھنٹوں سے ماموں جان کے کمینٹس
اس کو بے چین کیے ہوئے تھے اور اب بستر پربھی نیند اس کی آنکھوں سے کافی
دور تھی۔ جب کسی کا ذہن ہزار کلومیڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کررہا ہو تو
نیند اس کے پاس کیسے آسکتی ہے بھلا۔
”اسٹوری، ایکشن، میوزک،گانے،ایکٹنگ سبھی کچھ تو اچھا ہے، سیکس بھی ہے،
سسپینس بھی ہے اور آئٹم سانگ بھی ہے ایک چھوڑ دودو آئٹم سانگ ہیں اب آخر
ایسی کیا کمی رہ گئی ہے بجلی میں کہ اس میں بقول ماموں کے کرنٹ نہیں ہے۔“
” اور بجلی کیا کمال کی اداکاری کی ہے اس نے مجھے تویقین ہی نہیں ہورہا
اچھا ہی ہوا کہ گڑیا شادی کرکے امریکہ چلی گئی اور اس کی جگہ بجلی کولینے
کا فیصلہ لیا گیا۔“بجلی پہلی بار کسی بڑی فلم میں ایکٹنگ کر رہی تھی۔
ماں کے ہاتھ کے گرم گرم پکوڑے کھاکر اسے عجیب سی خوشی کا احساس ہوا” کتنی
اچھی ہیں میری ماں ۔ کتنا خیال رکھتی ہیں میرا۔“وہ زیر لب بڑبڑایا۔
ہزار کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتے ہوئے ذہن کی رفتار ذرا دھیمی ہوئی
تو نیندکی دیوی آدھمکی اور اسے اپنی نرم کشادہ باہوں میں بھر لیا۔
” نہیں چلے گی نہیں چلے گی بیجاپور میں بجلی نہیں چلے گی“
ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ گھبراکر اٹھ بیٹھااور بجلی کی سی سرعت
سے بالکنی کی طرف لپکا۔
اس کے بنگلے کے ٹھیک سامنے مین چوک پر لوگوں کا ہجوم تھا، ان کے ہاتھوں میں
طرح طرح کے پلے کارڈ تھے اور منہ میں عجیب وغریب سلوگنز سب لوگ زور زور سے
ہاتھ ہلا رہے تھے اور بلند آواز سے نعرے لگا رہے تھے۔
ایک کھدرپوش نیتا مائک ہاتھ میں لئے اعلان کر رہاتھا۔ توہین آمیز فلمیں
مزید برداشت نہیں کی جائیں گی۔اس کے اردگرد کچھ مذہبی لوگ اس کی تائید
کررہے تھے۔
اسی اثنا میں ایک نوجوان نے نعرہ لگایا۔
” نہیں چلے گی نہیں چلے گی“ اور ہجوم میں شامل تمام لوگ چلا نے
لگے۔”بیجاپور میں بجلی نہیں چلے گیبیجاپور میں بجلی نہیں چلے گی“ درودیورا
لرز گئے اور بجلی سپلائی کے تار جھنجھنا اٹھے۔
ایک نوجوان لوگوں کے گول دائرے کے بیچ آیا ۔ اس کے ہاتھ میں’بجلی‘ کا بڑا
سا پوسٹر تھا۔ نوجوان بہت پرجوش معلوم ہورہا تھا اس نے ایک ہاتھ سے پوسٹر
اوپر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے لائٹر جلاکر پوسٹر کے ایک کونے کو آگ لگادی
۔ جیسے ہی پوسٹر کو آگ لگی لوگوں کا جوش وخروش دونا ہوگیا اور وہ زورزور سے
چیخنے چلانے لگے۔اس کے بدن میں جھرجھری پیدا ہوئی ، جلد ہی اس نے خطرے کی
بو محسوس کرلی اور پلک چھپکنے کے وقت میں وہ کسی محفوظ مقام پر روپوش ہوچکا
تھا۔
”ٹرن ،ٹرن ٹرن،ٹرن “ عین اسی لمحے فون سنسنان کمرے میں پوری طاقت سے چیخ
اٹھا۔ اس نے گھبراکر آنکھ کھولی اور غنودگی کے عالم میں رسیور اٹھایا۔
”سمجھ گیا پوری طرح سمجھ گیا“
” ارے ،ارےیہ کیابک رہے ہو سورہے ہو کیایا بجلی کے پیار میں دیوانے ہوگئے
ہو۔“
”اوہو ! تم ہوآخر تمہیں فرصت مل ہی گئی اس موٹے سےخوب ستاتا ہوگانا تمہیں
وہ تمہاری شادی کیا ہوئی کہ تم تو دنیا جہان سے غافل ہو گئیں۔“
شادی ہوتے ہی موہن شرما کو جانے کیا ہوا کہ وہ محض تین چار ماہ کے اندر ہی
پھول کر کپا ہوگئے ۔اوروہ اسی باعث نزہت کپور کو جو اب نزہت شرما کے نام سے
پہچانی جاتی تھی اکثر چڑھایا کرتا تھا۔
”ان کی بات چھوڑو یہ بتاؤ ، یہ تم کیا بک رہے تھے، سمجھ گیا سمجھ گیا۔“
”ارے ۔ کچھ نہیں میں سمجھا کہ تمہارے ڈیڈی کافون ہے“ پھر ادھر ادھر کی بات
کرکے جلدی سے رسیور رکھا اور فریش ہونے کے لیے باتھ روم کی طرف دوڑپڑا۔ اس
نے ایک بار پھر اپناسراپا قد آدم آئینے میں دیکھاوہ ڈرا ہواسا لگ رہا تھا۔
”اوہ، شٹ کتنا بھیانک خواب تھایقینا میں تو ڈر ہی گیا تھا۔“ وہ اپنے آپ سے
مخاطب تھا۔مگر معاًبعد اس کے چہرے پراطمینان کی پرچھائیاں نمایاں
ہوگئیں۔جیسے اسے کچھ مل گیا یا کوئی انوکھا آئیڈیا اس کے دماغ میں آیاہو۔
”اب سمجھا میں ترے رخسار پہ تل کا مطلب“اس کے من میں عجیب سی سرمستی سمارہی
تھی۔
اس نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ اپنے تمام فلمی معاونین کو خاص ہدایات دیں
اور امریکہ کے لیے روانہ ہوگیا۔
اور خدا کی شان میں چند نازیبا کلمات پرمبنی کلپس کا اضافہ کردیا گیا۔
اس کی ہدایت کے مطابق اس کے غائبانے میں بجلی ریلیز ہوئی اور دیکھتے دیکھتے
ملک کے بڑے بڑے شہروں میں چوراہوں پر وہی منظر ابھر آیا جو اس نے خواب میں
دیکھا تھا۔جیسے خواب خود جاگ اٹھا ہواور رونمائی کے شوق میں خواب کا چوغہ
اتار کر لباسِ حقیقت زیب تن کرلیا ہو۔
” نہیں چلے گی نہیں چلے گی بیجاپور میں بجلی نہیں چلے گی“
لوگ حکومت سے فلم ہٹانے کی مانگ کر رہے تھے۔ ایک دو سنیما میں توڑ پھوڑ کے
واقعات بھی ہوئے تھے۔لوگوں کا الزام تھا کہ’ بجلی‘ میں مبینہ طورپر مذہب
مخالف کلپس شامل کی گئی ہیں۔ اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے
ہیں۔خدا کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے۔
حکومت کی نظر آنے والے انتخابات پر تھی۔ اس لیے اس نے فلم پر پابندی بھی
نہیں لگائی اور احتجاج کرنے والوں کی ہم نوا بھی بنی رہی۔
وہ ابھی تک امریکہ میں ہی تھا اور میڈیا کی اپڈیٹس کے ذریعہ پل پل بدلتے
حالات پرپوری طرح نظر رکھے ہوئے تھامگر اس بار اس کے چہرے پرگھبراہٹ کے
بجائے خوشیوں کے سائے رقصاں تھے۔
ادھر احتجاج کی گھن گرج جاری تھی اور ادھرفلم نے باکس آفس پر دھمال مچا
رکھا تا۔
باکس آفس پر بجلی کی کامیابی اور پہلے ہفتہ کی کروڑوں کی کمائی دیکھ کر اس
کی آنکھوں سے خوشیوں کے آنسو چھلک اٹھے۔ اور وہ احساس تشکر کے زیر اثر خدا
کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا۔
”اے خدا تو کتنا مہربان ہےیقینا تو دلوں کا حال جانتا ہے تجھے معلوم ہے کہ
میرے دل میں تیرے لیے کتنی عزت ہے اے دلوں کا حال جاننے والے خدا مجھے معاف
کردے“
مگر یہ کیا یکایک ایک حسرت اس کے دل کی گہرائیوں سے کہیں سے نمودار ہوئی
اور اس کی آنکھوں میں جھلملاتے ستاروں کے عقب سے نمکین پانی پھوٹنے لگا۔وہ
اداس ہوگیا ۔
وہ جن کی ہدایات ورہنمائی نے اسے شہرتوں کی بلندیوں تک پہونچایا تھا اس کی
شہرتیں دیکھ کر خوش ہونے کے لیے اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔
” اے کاش ! ماموں کچھ اور جئے ہوتے ۔ کم از کم میں انہیں یہ تو بتا پاتا کہ
میں نے ان کا اشارہ سمجھنے میں غلطی نہیں کی تھی۔“
اس نے سجدے سے سر اٹھایا اور آرام کرسی پر جا بیٹھا۔ |