ہاں تو عمران میاں ہم نے تُم سے اپنی پہلی
مُلاقات میں جمال ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق استفسار کیا تھا۔ کیا
تُم جاننا چاہتے ہُو کہ،، جمالِ ہانسوی کُون تھے۔۔۔؟۔۔۔ جی حضور میں ضرور
اُس ہستی کے متعلق جاننا چاہُوں گا۔ جنکی زندگی کا عکس میری کہانی میں آپکو
نظر آیا ہے۔ عمران نے سعادتمندی سے بابا صابر کو جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔
تو بیٹا سُنو! جمال ہانسوی صرف ایک بُزرگ ہستی کا نام ہی نہیں ہے۔ بلکہ
جمال ہانسوی کی زندگی قیامت تک آنے والے عاشقوں کے لئے ایک درس وتاریخ ہے۔۔۔۔
یہ ایک صاحب کمال بُزرگ تھے۔ جو انتہائی حسین چہرے کے مالک ہُونے کے ساتھ
ساتھ عِلم و فضل کا شاہکار بھی تھے۔ اُور زمانے کے مشہور وَلی حضرت خُواجہ
بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے خاص اُور چہیتے مُرید بھی تھے۔
لیکن جمال ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کی ایک نادانستہ لغزش نے اُنہیں زمانے
والوں کی نگاہ میں ایک عرصہ تک گمنام بنا ڈالا تھا۔
یہ ریاست ہانسی کے ایسے عالم تھے جنکا خطاب سُننے کیلئے لُوگوں کے دِل بے
چین رہا کرتے تھے۔ اُور انکے پاس عِلم کی دُولت کے ساتھ ساتھ دُنیاوی متاع
کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ لیکن جب جمال ہانسوی کی پہلی نظر شہزادہِ بختیار
کاکی رحمتہ اللہ علیہ پر پڑی تو اپنا سب کُچھ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کے
قدموں پر نچھاور کرڈالا۔ اُور عشق و اَدب کی منزلیں اتنی سرعت سے طے کر
ڈالیں۔ کہ بُہت جلد بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کے ایسے منظورِ نظر بن گئے
کہ،، بابا صاحب جب کسی کے سر پر ولایت کا تاج سجانا چاہتے تو یُوں اِرشاد
فرماتے۔ کہ پہلے ہانسی جاکر جمال سے مہر لگوا کر آؤ۔۔۔ اُور جمال میرا ہے۔
جمال میرا ہے۔ کی صدا بابا صاحب کی زُباں سے اِتنی مرتبہ بُلند ہُوئیں کہ،،
لوگ جمالِ ہانسوی کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اُور حاسدین کی نِگاہوں کے
سامنے اندھیرا پھیلنے لگا۔
یہاں تک کہ جمال ہانسوی کے سر پہ امتحان کی گھڑی آپُہنچی۔ ۔۔۔۔ اِمتحان کی
گھڑی۔۔۔۔؟ عمران نےبابا صاحب کے خاموش ہُوتے ہی تعجب سے پُوچھا۔ ۔۔۔۔ہاں
بیٹا اِمتحان کی گھڑی۔ ۔۔ جسکی کی وجہ سے ایک معشوق طالب اپنے حقیقی عاشق
کی جُدائی کا شِکار ہُوگیا۔۔۔ آخر ایسا کیا واقعہ ہُوگیا تھا۔۔۔؟ عمران نے
بے چینی سے پہلو بدلتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔ بتا رہا ہُوں بیٹا ذرا صبر سے
تُو کام لو۔ کُچھ لمحے توقف کے بعد بابا صابرصاحب نے ایک مرتبہ پھر گفتگو
کو جاری رکھتے ہُوئے کہا۔
جیسا کہ میں نے ابھی بتایا تھا ۔ کہ ،،حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کی
نِگاہوں میں جمال ہانسوی اپنے اخلاص و اَدب کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل
کرچُکے تھے۔ جسکی وجہ سے بابا صاحب اکثر یہی کہتے سُنائی دیتے تھے۔ کہ جمال
میرا ہے۔۔۔۔ ایک مُرشد کریم کی اپنے ایک خاص مُرید پر نظر کرم کا فیضان
جاری تھا۔ کہ ایک دِن سلسلہ
سہرورد کے پیشوا حضرت بہاوٗالدین ذکریا کی
نِگاہ حضرت جمال ہانسوی پر پڑ گئی۔ اُور حضرت جمال ہانسوی کے کردار سے حضرت
بہاوٗالدین ذکریا ملتانی ایسے مُتاثر ہُوئے کہ ،،حضرت بہاوٗالدین ذکریا نے
بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ سے اپنے تمام مُریدوں اُور خلفاٗ کے بدلے میں
جمالِ ہانسوی کو مانگ لیا۔۔۔ جسکے جواب میں بابا فرید نے اِرشاد فرمایا کہ،،
قیمت تو جِنس کی وصول کی جاتی ہے۔ جبکہ جمال کوئی شئے نہیں بلکہ میرا
جمال(حُسن) ہیں۔ اُور بھلا کوئی اپنا جمال بھی کسی کو بیچتا ہے۔
بات بظاہر آئی گئی ہُوگئی تھی۔ لیکن جمال ہانسوی کے کردار نے شاہِ
سہرورد
کو ایسا مُتاثر کیا تھا۔ کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد حضرت بہاوٗ الدین رحمتہ
اللہ علیہ نے بذریعہ خط پھر اپنی اُسی خُواہش کا اظہار کرڈالا۔ البتہ اس
مرتبہ ہمیشہ کیلئے نہ سہی عارضی طور پر ملتان بھیجنے کی درخواست کی گئی
تھی۔ بابا فرید نے پھر وہی جواب دیا۔ کہ جمال صرف میرا ہے۔ اُور ہمیشہ میرا
ہی رہے گا۔ اِس طرح شاہِ
سہرورد نے تین مرتبہ اپنی خواہش کا اظہار فرمایا۔
لیکن حضرت بابا فرید چند دِن کُجا ایک لمحے کیلئے بھی جمالِ ہانسوی کو خُود
سے جُدا کرنے کیلئے راضی نہیں تھے۔
اِس کے بعد تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بظاہر شاہِ
سہرورد نے خاموشی اختیار
فرمالی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ نے اپنے رُوحانی تصرف سے دھیرے دھیرے
جمالِ ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کے قلب کو اپنی محبت میں وارفتہ کردیا۔
چنانچہ ایک دِن خود ہی جمال ہانسوی نے حضرت بہاوٗالدین ذکریا رحمتہ اللہ
علیہ سے ملنے کیلئے ملتان جانے کی خواہش کا اظہار کرڈالا۔ حضرت بابا فرید
رحمتہ اللہ علیہ اپنے مُرید خاص کو ٹالتے رہے۔ لیکن جمالِ ہانسوی رحمتہ
اللہ علیہ کا خود پر بس ہی کہاں تھا۔ اسلئے وُہ مُرشد کریم کے چہرے پر پیدا
ہُونے والی ناراضگی کو دیکھ ہی نہ پائے جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہی چلی جارہی
تھی۔ جمالِ ہانسوی بار بار ایک ہی رَٹ لگائے جارہے تھے۔ کہ مجھے ہر حال میں
ملتان جانا ہے۔ اب ایک طرف حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کئی بار شاہِ
سہرورد کو اپنی رُوحانی اُولاد کیلئےکُورا سا جواب دے چُکے تھے۔ تو دوسری
طرف وہی دلبر پَسر خُود ملتان جانے کی ضد کئے بیٹھا تھا۔ جمالِ ہانسوی کی
بار بار کی تکرار رنگ لائی۔ اُور حضرت خُواجہ فریدالدین گنج شکر نے غیض کی
حالت میں جمالِ ہانسوی کو اپنے دربار سے یہ کہہ کرنکل جانے کا حکم صادر
فرمادیا۔ کہ اگر تُمہاری یہی ضد ہے ۔۔۔ تو ابھی اُور اِسی وقت میری نظروں
سے ہمیشہ کیلئے دُور ہُوجاوٗ۔
کہنے والے کہتے ہیں۔ کہ قہر سے مامور یہ جملہ سُن کر جمال ہانسوی کو ہُوش
تو آگیا۔ لیکن اب بُہت دیر ہُوچکی تھی۔ حضرت جمال ہانسوی بابا فرید کے چہرے
کو جلال کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں پارہے تھے۔ اب وُہ جانا نہیں چاہتے
تھے۔لیکن۔ اب رُکنے کیلئے فضاٗ سازگار نہیں تھی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے
ہیں ۔ کہ بابا فرید کی ناراضگی کے بعد حضرت جمال ہانسوی کے چہرے کا رنگ
متغیر ہُوگیا تھا۔ جیسے کسی دُلہن کے چہرے کی آب اُسے دوسرے ہی دِن گھر سے
نکال دیئے جانے پر چھن جاتی ہے۔
بہرحال یہ کسی دُنیاوی بادشاہ کی ناراضگی کا معاملہ نہیں تھا۔جویہ معاملہ
اتنی آسانی سےٹل جاتا۔ یہ تو خواجہ خواجگان کے شہزادے کی ناراضگی تھی۔ جس
نے جمالِ ہانسوی سے صرف ظاہری آب و تاب ہی نہیں چھین لی تھی۔ بلکہ جمال
ہانسوی اپنا ہوش و خرد بھی معتوب ہُوکر کھوچکے تھے۔ تاریخ کے اُوراق ہمیں
یہی بتاتے ہیں کہ جمال ہانسوی دربار فرید سے نِکال دیئے جانے کے بعد کئی
ماہ و سال تک زخم زخم جسم لئے بیابانوں میں دیوانوں کی طرح مارے مارے پھرتے
رہے۔ اُور اُنہیں حالتِ دیوانگی میں اپنے زخموں سے رَستے خُون کی بھی خبر
نہیں ہُوپاتی۔ کئی مریدین نے بابا فرید کی خدمت میں جمالِ ہانسوی کا حالِ
زار بیان کرنے کا سُوچا۔ لیکن بابا صاحب کے جلالی چہرے پر نِگاہ پڑتے ہی
اُن کی یہ آرزو دِل میں ہی دَم تُوڑ جاتی۔
دوسری طرف بابا فرید بھی جمال ہانسوی کے چلے جانے کے بعد ہر وقت اَفسردہ
دِکھائی دینے لگے تھے۔ اُور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کہ جس جمال پر
بابا صاحب نے اتنا ناز کیا تھا ۔ جِسے بابا فرید اپنا جمال کہتے رہےتھے۔
وہی جمال خُود رخصت لے کر دربار فرید سے نِکل کر دَر دَر کی ٹھوکریں
کھارَہا تھا۔ حالانکہ بظاہر ٹھوکر جمالِ ہانسوی کھارہے تھے۔ لیکن ہر ٹھوکر
کی چوٹ بابا صاحب کے دِل پر ثبت ہُورہی تھی۔۔۔ اتنا واقعہ سُنا کر بابا
صابر کی آواز رندھ گئی ۔اُور وُہ اپنے دامن سے اپنی بہتی آنکھوں کو خشک
کرنے لگے۔ عمران بھی اِس واقعہ سے آبدیدہ ہُوچُکا تھا۔ لیکن اُسکی نم
آنکھوں کی رَوانی سے ذیادہ اُسکا دِل اِس کہانی کے انجام کیلئے متجسس تھا۔
تھوڑی دیر انتظار کے بعد عمران سے بابا صابر سے بڑی بےچینی سے استفسار
کیا۔۔۔ کیا پھر حضرتِ جمال ہانسوی کبھی بابا فرید سے نہیں ملے۔؟
عمران کے استفسار پر بابا صابر صاحب نے اپنی حالت پر قابو پاتے ہُوئے کہانی
دُوبارہ سُنانی شروع کردِی۔۔۔۔۔ جب کافی عرصہ گُزر گیا۔ تب ایک دِن جمالِ
ہانسوی کے ایک تاجر پیر بھائی کی مُلاقات جمال ہانسوی سے ہُوگئی۔ اُس نے
جمال ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کی خطابت بھی سُنی ہُوئی تھی ۔ اُور دربار
فرید میں جمالِ ہانسوی کا مرتبہ بھی دیکھ رِکھا تھا۔ تمام ماجرا جمال
ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ کی زُبانی سُن کر وُہ تاجر بُہت دیر تک رُوتا
رہا۔۔۔ اُور اُس نے اپنے دِل میں ایک فیصلہ کرلیا۔۔۔۔ کہ چاہے کچھ بھی
ہُوجائے وُہ آج اَپنے رُوٹھے ہُوئے مُرشد کریم کو جمالِ ہانسوی کیلئے منا
کر ہی دَم لے گا۔
چنانچہ جب یہ تاجر مُرید بابا صاحب کی محفل میں پُہنچ گیا۔ تب جمال ہانسوی
کی حالت نے زار و قطار اُسےسسِکنے پر مجبور کردیا۔ بابا صاحب نے جب اُس
تاجر مُرید کو یُوں بلکتے ہُوئے دیکھا۔ تو اُسکے غم کا مداوا کرنے
کیلئےاُسے اَپنے سینے سے لگاکر رُونے کی وجہ دریافت کی۔ تب اُس نے رُوتے
روتے جمالِ ہانسوی کی بربادی کی تمام داستان ہچکیاں لے لیکر بابا صاحب کے
گُوش گُزار کردی۔ ایک مُدت کے بعد دربار فرید میں آج کسی کو ہمت ہُوئی تھی۔
کہ جمال ہانسوی کا تذکرہ بابا صاحب کے سامنے پیش کرے۔ کچھ لوگوں کا خیال
تھا ۔ کہ نافرمان جمال کا تذکرہ سُن کر بابا فرید پھر سے ناراضگی اُور
ناپسندیدگی کا اِظہار فرمائیں گے۔ لیکن بابا فرید کے رُخساروں پر بہتے
آنسو۔ اُور زُباں پر جاری یہ کلمہ۔ کہ،، جمال کے چلے جانے کے بعد چین تو
ہمارے دِل کو بھی ایک لمحے کیلئے کہاں مُیسر آیا ہے۔ ۔۔ کچھ اُور ہی کہانی
بیان کررہے تھے۔ تاجر نے بابا صاحب کو مغموم دیکھ کر جمال ہانسوی رحمتہ
اللہ علیہ کیلیئے معافی طلب کی۔ جسکے جواب میں بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ
نے جمالِ ہانسوی کیلئے معافی کا اعلان کرتے ہُوئے اُنہیں اپنے آستانے پر
لائے جانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
جب جمالِ ہانسوی اپنے زخمی جسم سے بہتے ہُوئے خُون کیساتھ بابا فرید کی
خِدمت میں ندامت سے سر جھکائے حاضر ہُوئے ۔تو بابا فرید اپنے رُوحانی فرزند
کی ابتر حالت دیکھ کر آبدیدہ ہُوگئے۔ جسکے تمام بدن پر زخموں کے نِشاںسجے
ہُوئے تھے۔ اُور چہرے کی رُونق کو زمانے کی دھوپ نے جُھلسا کر رکھ دیا تھا۔
وُہ چہرہ جِسے دیکھ کر بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے
آثار نمودار ہُوجایا کرتے تھے۔ آج اُسی چہرے کے اعضاٗ پر اتنی دُھول پڑی
تھی۔ کہ بظاہر جمال ہانسوی پہچانے بھی نہیں جارہے تھے۔ بابا فرید نے خود
آگے بڑھ کر اپنے چہیتے روحانی پسر کو اپنے سینے سے یہ کہہ کر لگایا۔ کہ،،
کیا ہم نے یہ حال بنانے کیلئے تُم کو خُود سے جُدا کرنے کی صعوبت برداشت کی
تھی۔ کافی لمحے یونہی جمال ہانسوی بابا صاحب کے سینے پر سر رکھ کر اپنی
بُھول کی معافی مانگتے رہے۔ اُور بابا صاحب نے تمام دربار میں اعلان
فرمادیا کہ،، آج صرف ہمارا جمال واپس نہیں آیا بلکہ قُطبِ عَالم واپس آگیا
ہے۔
اب عمران کو سمجھ آرہا تھا۔ کہ کیوں بابا صابر اُسے حضرت جمال ہانسوی کا
عکس قرار فرمارہے تھے۔ عمران کی آنکھیں جہاں اِس غمناک واقعہ سے بھیگ رہی
تھیں۔اُسکا دِل اپنے مُرشد کریم کی یاد میں مُرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا
تھا۔۔۔ عمران نے بھیگی پلکوں سے بابا صابر کی جانب جونہی دیکھا۔ تو بابا
صابر نے بھرائی ہُوئی آواز میں عمران کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔ بیٹا دِل کی
بات سُنو! اُور ہمیشہ دِل کی ہی ماننی چاہیئے۔اَرےتُو ایک پری کیلئے جو
قیمت دینے کو تیار ہُوگیا ہے۔۔۔۔ اگر اپنے مُرشدکی عظمت کو جان لیتا۔ تو
ایسی ہزار پریاں اُنکے قدموں پر نِثار کردیتا۔
اُسکی الفت کا مزاہ سب سے الگ سب سے جُدا
جیسے سُورج کی تپش روکتی ہے کُوئی رِدا
جیسے ساقی نے پَلائی کِسی تشنہ کو شراب
جیسے ٹل جائے کسی عاصی کے سر پہ سے عذاب |