اظہار محبت کا ایک دن

عقائد و نظریات کے علاوہ جس چیز سے کوئی قوم دوسری قوم سے جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان کو برقرار رکھ سکتی ہے، وہ اس کی تہذیب و ثقافت اور طرز تمدن ہے۔ عقائد اور تہذیب کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی قوم ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی امتیازی شان ختم ہو جاتی ہے۔ عقائد و نظریات کی بنیادوں پر تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی ہے۔ اس طرح ثقافت کسی بھی قوم کے نظریات کا اظہار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی قوم اپنی ثقافت اپنے عقیدہ کے برعکس ترتیب دے تو اس کا عقیدہ بے حقیقت ہو جاتا ہے۔ اور وہ قوم اسی قوم کی نسبت اور عقیدہ سے پہچانی جاتی ہے جس کی ثقافت کو وہ اپناتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ہندو مسلمانوں کی مسجد میں نماز پرھے، روزے رکھے، لباس مسلمانوں جیسا پہنے اس کے اُٹھنے بیٹھنے کا انداز مسلمانوں جیسا ہو تو لوگ اسے مسلمان ہی سمجھیں گے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان ہندو طرز حیات اختیار کرے اور ان کی تقریبات منائے تو اسے بھی یہی سمجھا جائے گا کہ یہ عقیدہ تاً تو مسلمان ہے، مگر عملاً ہندو ہے۔ چونکہ کسی بھی انسان کے جسم میں اس کے عقیدہ کی جڑیں اس کے عمل کے ذریعہ مضبوط ہوتی ہیں۔ اس لئے جب اس کا عمل جاتا رہے گا تو پھر اس کا عقیدہ بھی جاتا رہے گا اور یوں وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اسی لئے ہمارے پیارے نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے‘‘۔

ویلیٹائن ڈے بھی ایک شرمناک تہوار ہے۔ اس گندے دن کو سادہ الفاظ میں ’’اظہار محبت کا دن‘‘ کہا جاتا ہے اس دن مغرب زدہ ذہن اور ہوس کے پجاری جسم اپنی خواہشات پوری کرتے ہیں۔ اس تہوار میں حصے لینے والوں میں زیادہ تر اداکار، گلوکار، کرکٹر اور اکثر امیر گھرانوں کے بگڑے ہوئے بچے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمومی سطح پر بھی لڑکے لڑکیاں بھی اس گھٹیا عمل میں بُری طرح ملوث ہوتے ہیں۔ اس تہوار میں لڑکے اور لڑکیاں اسلام کی بتائی ہوئی تمام اخلاقی دیواروں کو پھلانگ ہوئے معاشرے میں بُرائی پھیلاتے ہیں ۔ یہ دن ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے یہ تہوار پاکستان میں بھی بڑے زور شور سے منایا جاتا ہے۔
حدیث میں حضرت محمدؐ نے فرمایا:
’’جب تجھ میں شرم نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘

اس حدیث کے تناظر میں اس دن کو پرکھے تو یہ دن انسان اور حیوان میں فرق مٹاتا ہے۔ جس انسان میں شرم و حیا نہ ہو تو وہ انسان ،انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ مغرب کے آزاد معاشرے کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے انسان سے شرم و حیا اور عزت کو چھین کر جنسی تسکین میں اُسے حیوان کے برابر لاکھڑا کیا جائے تاکہ ماں، بہن اور بیٹی یا بیوی کے درمیان مقدس رشتوں کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان کو گرا دیا جائے۔ ویلنٹائن ڈے بھی انہی سازشوں کی ایک کڑی ہے۔اسلام کے بعد اگر مشرقی راویات کے تناظر میں ویلیٹائن ڈے کو دیکھا جائے تو سراسر یہ ہماری تہذیب و تمدن کے مخالف ہے نہ جانے والدین کس طرح اپنے بچوں کو اس دن کو منانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ملتی۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق اس کا تعلق رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا (Luper Calia) سے ہے۔ جہاں بطور تہوار کے یہ دن منایا جاتا ہے اور بعض کے مطابق اس کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے ہے۔ برکیف یہ بات تو پکی ہے کہ اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ غیر مسلموں سے ہے۔ ویلنٹائن ڈے سے متعلقہ مختلف روایات میں سے ایک مستند روایت یہ ہے کہ یہ دن رومن سینٹ ویلنٹائن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جسے محبت کا دیوتا بھی کہتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق ویلنٹائن نامی شخص کو مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید رکھا گیا لیکن بعد میں سولی پر چڑھا دیا گیا۔ قید کے دوران ویلنٹائن کی جیلر کی بیٹی سے دوستی اور محبت ہو گئی۔ سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے ویلنٹائن نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوادعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا تمہارا ’’ویلنٹائن‘‘ اور یہ واقعہ 14 فروری 429ء کو رونما ہوا۔ یوں محبت کرنے والوں کے لئے ویلنٹائن کو پیش رو تسلیم کیا جانے لگا اور اس کی یاد میں 14 فروری یوم تجدید محبت بن گیا۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ عیسائی شخص کے مرنے پر مسلمانوں میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار مسلمانوں کا تو نہیں اور آخر ہو بھی کیسے سکتا ہے؟؟

میری تحریر روشن خیال ذہنوں پر بجلی بن کر گرے گی ۔طنز کے تیر برسائے جائیں گے ، مولوی اور طرح طرح کے القابات سے نوازا جائے گا۔ کیوں کہ میں نے اپنی نوجوان نسل کو اپنے اسلاف اور مشرقی راویات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ویلنٹائن ڈے اور اس جیسے دوسرے تہوار ہماری دین اور ثقافت کا حصہ نہیں ہیں۔سوچئے تو سہی کہ کسی کی بہن، بیٹی یا بیوی کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی، محبت جیسے کام کریں تو کوئی برداشت کرلے گا؟؟؟

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اﷲ رب العزت فرماتے ہیں:
’’بے شک وہ لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذات ہے‘‘۔

مگر اﷲ رب العزت کی طرف سے اس سخت وعید کے باوجود مسلمان کہلوانے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں باہم محبت بھرے جملوں، پھولوں اور ویلنٹائن ڈے کارڈز کا تبادلہ کرکے اسلامی تہذیب اور طرز معاشرے کے منہ پر گویا تمانچہ رسید کرتے ہیں مگر یہ نادان تو اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ اسلامی معاشرے کو رسوا نہیں کر رہے بلکہ اپنی عافیت برباد کر رہے ہیں۔میرے کچھ ناداں دوست یہ دلیل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ لازمی تو نہیں کے آپ اپنی محبوبہ سے محبت کا اظہار کریں۔ آپ والدین ، بہن بھائیوں اور دوستوں سے بھی یہ اظہار کر سکتے ہیں۔ تو کیا اب ایک ہی دن بچا ہے اپنوں سے اظہار محبت کا؟؟اور رہی بات اس کو منانے کی تو اس کی بنیاد کس واقعہ پر رکھی گئی ہے اس کو سامنے رکھ لیں ویلنٹائن نے اپنی والدہ یہ بہن کو تو خط نہیں لکھا تھا ،پھر ہم کس طرح اس کو منا سکتے ہیں؟؟ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنا کر اس کلچر سے چھٹکارا حاصل کیا اب یورپین بے حیائی درآمد کرنے کا مقصد ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ طوفان کا آغاز بگولوں سے ہوا کرتا ہے۔ سمندر میں اُٹھنے والی تباہ کن موجیں پہلے چھوٹی چھوٹی لہروں سے جنم لیتی ہیں اس طرح معاشرے کی بربادی کا آغاز چھوٹی چھوٹی اخلاق سوز حرکات سے ہوتا ہے۔ خدارا ویلنٹائن ڈے کو قومی تہوار کی شکل نہ دی جائے کیونکہ مغرب میں رہنے والے پاکستانیوں نے بھی اسے نہیں اپنایا ممکن ہے چند نوجوان حصہ لیتے ہوں مگر والدین نے اور اکثریت نے اسے پسند کی نگاہوں سے نہیں دیکھا ۔اس لیے اس بُرائی سے دور رہے وگرنہ ہمارے جیسے ہزاروں افراد کا جو صرف پاکستانی معاشرتی اقدار کی خوبصورتی اور کشش کی وجہ سے پاکستان واپس آئے ہیں اُن کا دل ٹوٹ جائے گا۔ آج ہم یورپ کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مغرب کی نقالی میں فخر محسوس نہ کریں،وہ حیوان زدہ معاشرہ ہے۔جہاں والدین کی کوئی عزت نہ ہو عورت اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھے جہاں چند لمحوں میں درجنوں خواتین درندگی کا شکار ہوتی ہوں، ہم ان کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اب فیصلے آپ نے کرنا ہے کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط؟؟؟؟؟
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 53630 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More