سید ضمیر عباس کاظمی۔۔۔۔۔
ہمارہ معاشرہ اتنا بے حس ہوچکا ہے کہ پوچھو مت خود غرضی فرض سے غفلت کرپشن
اقرباء ،پروری ہسپتال جائیں تو آپ کو سوائے پرچی کے اور کچھ نہیں ملے گا۔پی
ڈبلیو ڈی کے آفس میں جائیں تو بغیر پیسوں کے آپ کا کوئی جائز کام بھی نہیں
ہوگا لیکن نوٹ دے کر ہر ناجائز کام کروا سکتے ہیں۔محکمہ تعلیم میں تو کھلی
بولی لگی ہوئی ہے پیسے دے دو نوکری لے لو۔ماسٹر یا مسٹریس بن جاؤ چاہے آپ
کی ڈگری اصلی ہو یا نقلی اس سے کوئی غرض نہیں ۔صرف تین لاکھ کا سوال
ہے۔میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ۔مہدی شاہ بادشاہ عرف وزیر اعلیٰ نے ہر ایک
کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔غلطی سے کوئی فرض شناس ایماندار آفسیر آئے تو اس
بچارے کو او ایس ڈی بناکر گھر میں بٹھادیا جاتاہے۔مہدی شاہ کے رشوت خوروں
کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کنٹریکٹ کے نام پر مال بنانے کے لئے دوبارہ رکھا
جاتا ہے۔یہ سب وزیر اعلیٰ کے قریبی ساتھی ہیں۔سیکریٹری ایجوکیشن ،سیکریٹری
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن غرض جہاں بھی مال بنتا ہے مہدی شاہ بادشاہ کے بندے
موجود ہیں۔یہ تو ہے سرکار کا حال ۔اگر کہی غلطی سے چیف سیکریٹری یا فورس
کمانڈر عوام کا درد محسوس کرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے
ہیں تو مہدی شاہ کے پیٹ میں درد محسوس ہونے لگتا ہے ۔مہدی شاہ عرف رنگیلا
شاہ اپنے مسخرے پن سے فارغ ہی نہیں ہوتے ہیں کہ عوام کا احوال پوچھے بلکہ
تین ماہ سے اپنے وزراء سمیت اسلام آباد میں براجمان ہیں۔پرائس کنٹرول کا
کوئی نظام ہی نہیں برائے نام ایک نائب تحصیلدار رکھا ہوا ہے۔وہ بھی اپنا
حصہ لے کر خواب خرگوش میں سوئے رہتے ہیں۔قسائی قیمہ نکال کر ہڈی عوام کو
بیچتا ہے اور قیمہ ہوٹل والوں کو یوں پاکستان میں کہی بھی بھینسوں کی
انتڈئیاں اور اجڑی نہیں بیچی جاتی ہے ۔سوائے گلگت کے دو نمبر اشیائے خردنوش
کی برما رہے مسالحہ جات سے لے کر بناسپتی گھی اور بڑی مرغی سے لے کر بیمار
جانوروں اور دیگر دو نمبر اشیائے خردنوش کی برمار ہے۔یہاں آپ کو ہر دو نمبر
چیز ملے گی۔کپڑے والون کی تو چاندی ہے۔سات آٹھ سو سے ہزار تک کے جوڑے تین
سے چار ہزار تک مل جاتے ہیں۔گاڑیوں کے انجن بٹھانے کے لئے دونمبر آئل ،پٹرول
پمپوں میں تیل کا کم ڈالنا عام ہے۔سوائے گلگت بلتستان سکاؤٹس کا ایک پٹرول
پمپ ہے جہاں صحیح تیل ڈالا جاتا ہے۔غرض ہر جگہ دو نمبری ہے۔عوام بھی ایک
دوسرے کے جیبوں کو کسی نہ کسی طرح خالی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔کوئی گاڑیوں
کے شکل میں تو کوئی زمینوں کے نام پر تو کسی کو باہر بھجوانے کے خواب دکھا
کر تو کوئی بگ بورڈ کے نام پر عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ہمارے عوام بھی ایسے بے
حس ہوچکے ہیں کہ اپنے صلہ رحم میں کسی مستحق کو قرضہ حسنہ دینے کے بجائے
سود اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو لوٹنے سے نہیں کتراتے ہیں۔یہ سب آخرت پر
یقین نہ رکھنے ،حساب کتاب کا فکروسوچ نہ ہونے کی وجہ ہے۔ورنہ اگر کسی انسان
کو احساس ہو کہ مرنے کے بعد مجھ سے حساب کتاب ہوگا تو وہ ہر قسم کی بے
ایمانی اور حرام خوری سے خود کو محفوظ رکھے گا۔یہاں پر ایک صحافی کا سر عام
قتل ہوا کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔غرض کہ ہمارا پورا معاشرہ بے حس
ہوچکا ہے۔پی پی پی کی حکومت آتے ہی ایک بہترین سیٹ اپ دیا تھا۔اس کو بھی
ہمارے نالائق اور حرص و حوص میں ڈوبے ہوئے حکمرانوں نے کمزور سے کمزور تر
کرتے رہے اور اپنے پروٹوکول کو ہی سیٹ اپ سمجھ بھیٹے اور اپنے چند اللے
تللوں کے ساتھ اپنے مسخروں میں مشغول رہے اب بھی وقت ہے اپنی بے حسی کو ختم
کرکے حکمرانوں کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کے عوام سے معافی مانگے ۔امید ہے
عوام اپنے کوتاہیوں کو سامنے رکھتے ہوئے معاف کرینگے۔ورنہ ڈرو اس دن سے جب
عوام بھیڑے بن جائیں اور حکمران کو نوچ نوچ کر گھد کی طرح نگلنے لگے ۔ڈرو
اس دن سے جب تم سب عوام کے پاس ووٹ لینے جاؤگے۔ڈرو اس دن سے جب تم سب کو
قبر میں اتارا جائے گا اور اس دن سے ڈرو جب زرہ زرہ کا حساب کتاب لیا جائے
گا۔ڈرو اس دن سے جب مرنے کے بعد ایک ایک حرکت کا حساب لیا جائے گا۔بے حسی
حد سے بڑھ چکی ہے اب بس بھی کرو اﷲ تعالی سے دعاگو ہوں مجھے اپنے ہدایت کے
نور سے منور کرے اور خاص کر حکمرانوں کو اور عوام کو زندگی کے ہر شعبے میں
کام کرنے والوں کو سیدھے راست پر چلنے کی توفیق دے اور حکمرانوں کو توبہ
کرکے عوام کی خدمت کرنے کی اور عوام پر کئے ظلم کی معافی مانگنے کی توفیق
دے اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بے حسی سے نکال کر صراط مستقیم کے راستے پر چلنے کی
ہدایت دے۔آمین یارب العالمین- |