ولنٹائنس ڈے ایک خاصں رومی عید
ہے جس کی ابتداءسے متعلق کوئی تحقیقی بات کہنا ایک مشکل امر ہے ،البتہ اس
عید سے متعلقہ کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ابتداءتقریباً1700سال قبل
ہوئی ہے،اُس وقت یہ ایک مشرکانہ عید تھی کیونکہ اہل روم کے نزدیک14فروری کا
دن چونکہ”یونو“ دیوی کہ نزدیک مقدس تھا اور یونو کو عورتوں اور شادی بیاہ
کی دیوں کہا جاتا تھا اس لئیے رومیوں نے اس دن کو عیدکا دن کہا ۔اور اس
موقع پر ایک حادثہ پیش آیا اور میرے دوستو! اس وجہ سے یہ دن عشقیہ،فحش اور
غیر شرعی تعلقات رکھنے والو ں کی عید بن گیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی
میں رومی بادشاہ کلاوڈیوس کو اپنے مخالف کے خلاف فوج کشی کی ضرورت پڑی جس
کہ لئے اس نے فوج میں بھرتیاں شروع کی تو لوگوں کی رغبت نہ دیکھی وجہ معلوم
کی گئی تو معلوم ہوا کہ لوگوں کی اپنے اہل وعیال اور بیویوں کی طرف رغبت ہے
لہذا اس نے شادی کی رسم کو ختم کرنے کا اعلان کیا ،لیکن ایک پادری جس کا
نام ولنٹائن تھا اس نے اس رسم کی مخالفت کی اور چھپ چھپا کر وہ نکاع پڑھاتا
رہا اور جب اس کی خبر بادشا ہ کو ہوئی تو اس نے پادری کو جیل میں ڈالنے کا
حکم دے دیا ۔جیل میں پادری پر جیلر کی لڑکی عاشق ہو گئی لیکن معاشقہ مکمل
نہ ہو پایا کہ پادری کو سولی پر لٹکا دیا گیا اور یہ واقع 14فروری 279 ءکو
رونما ہوااور اسی دن کو یاد کرتے ہو ہر سال 14فروری کو شادی شدہ اور غیر
شادی شُدہ جوڑے یہ عید مناتے ہیں ،جس میں اپنی محبت کا اظہا ر مختلف انداز
سے کرتے ہیں ۔
میرے دوستو! اس عید میں ایسی ایسی خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے گویا یہ
کوئی شرعی اور ہم مسلمانو ں کی کوئی خاص عید ہے۔عشق و محبت کہ اظہار و
تجدید کہ لیئے نوجوان لڑکے لڑکیا ں اس عید کی مناسبت سے مبارک باد کہ کارڈ
کا تحفہ ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں اور بعض اوقات اس کارڈ Be My Vealentine
لکھا ہوتا ہے۔دونو ں پارٹیاں ایک دوسرے کو پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہیں ،اور
اس موقع پر کثرت سے پھول بکتے ہیں۔اور میں نے ایک اخبار میں پڑھا تھا کہ
دنیا میں پھولوں کا چالیس فیصد حصہ اسی مقصد کہ لئے استعمال ہوتا ہے۔دونوں
جنس ایک دوسرے کو ایسا کارڈ پیش کرتے ہیں جس پر یونانیوں کہ عقیدے کہ مطابق
محبت کہ خُدا کی تصویر بنی ہو تی ہے۔اس کی تصویر کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ایک
لڑکا ہوتا ہے جس کو دو پَر لگے ہوتے ہیں اور اس کہ ہاتھ میں تیر وکمان ہیں
اور وہ تیر کو لڑکی کہ دل میں پیوست کر رہا ہے۔دونوں جنس غیر محرم لڑکے اور
لڑکیا ں ایک دوسرے کو چاکلیٹ اور مٹھائیوں کا پیکٹ بطور ہدیہ پیش کرکے اپنی
محبت کا اظہا ر کرتے ہیں۔نوجوان لڑکے لڑکیا ں یونانیوں کہ عقیدے کہ مطابق
خوب شوخ سُرخ لباس بلکہ زیب تن کئے جانے والی تمام چیزیں سُرخ استعمال کرتے
ہیں ۔حالانکہ شرعی طور پر مردوں کہ لئے شوخ اور سُرخ لباس منع ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ ارشاد مبارک فرمایا:﴾تم ضرور
اپنے سے پہلے لوگوں کی قد بقدم پیروری کرو گے ،اگر وہ لوگ گوہ گے سوراخ میں
داخل ہوں گے تو تم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے ،آپﷺ سے پوچھا
گیا کہ پہلی قوم سے آپ کی مراد یہودونصار ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا ٬٬تو اور کون،،؟
مطلب یہ کہ تم یہودیوں اور عیسائیوں کہ نقال بن جاﺅ گے اور ان کہ رسم و
رواج و چال ڈھال پسند کرو گے ،ان کو اختیار کرو گے اور بلکل ان کہ مطابق ہو
جاﺅ گے۔اور میرے دوستو ! دیکھ لو کہ آج ہمارا کیا حال ہے خُدا لے لئے اے
مسلمانو ں اس فرما ن ِ نبویﷺ کو بار بار پڑھو اور اپنا حال دیکھو۔عیسائی ،یہودی
،ہندو،سیکھ اورپارسی وغیرہ سب اپنی شکل ،اپنے لباس اور اپنی وضع و قطع کو
پسند کرتے ہیں مگر افسوس در افسوس کہ مسلما ن دن بدن عسائیوں کی نقل میں
فنا ہو رہے ہیں۔سَر دیسی ہے مگر بال انگریزی،منہ دیسی ہے مگر زبان انگریزی
اور غذا دیسی ہے مگر کھانے کا انداز انگریزی ۔حد تو یہ ہے کہ اگر عیسائی
ایسا کام کریں جس میں نفع کوئی نہ ہو تو صرف تکلیف ہی ہو تو مسلمان ان کی
نقالی میں وہ کام ضرور کرتا ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ سخت سردی ہے مگر ﴾صاحب
بہادر ﴿سر نہیں ڈھکتے ننگے سر پھرتے ہیں چاہے بیمار ہی کیوں نہ ہو جائیں
اور پھر منہ سے بھی روتے ہیں اور ناک سے بھی ۔عورتوں کا حال تو اب کیا
پوچھنا وہ تو مردوں کہ شانہ بشانہ نہیں بلکہ لیڈی فرسٹ کہ خود ساختہ اصول
پر گامزن ہیں ۔ان حرکتوں میں کیا فائدہ ہے؟کچھ بھی نہیں سراسر خسران و
نقصان اور تکلیف ہی تکلف ہے۔
میرے دوستو! محبت کا حقیقی اظہا ر عمل کا متقاضی ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کہ
رسولﷺ سے محبت ایمان اور اطاعت سے پہچانی جاتی ہے ۔والدین کی محبت ان کی
خدمت میں پوشیدہ ہے ۔۔۔۔اور اولاد کی محبت اس کی اعلیٰ تربیت میں پوشیدہ
ہے۔اور انسانوں سے سچی محبت ہر دکھ سکھ میں ان کہ کام آنے کا مطالبہ کرتی
ہے۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دو افراد کہ درمیان محبت کا تعلق صرف ایک دن
کہ اظہار جیسی ناپائیدار بنیاد پر قائم ہو ۔سچی محبت ایک دوسرے کی خیر
خواہی کا درس دیتی ہے۔مگر اس بات کو سمجھنے والے بہت کم لوگ ہیں ۔
کسی قوم کہ وہ تہوار جن کا تعلق کسی تہذیبی روایت سے ہو تو ان کو اپناتے
وقت بڑا متحاد رہنا چاہے کیونکہ تہوار اس لئے منائے جاتے ہیں ۔تا کہ کچھ
عقائد و تصورات انسانی معاشرے کہ اند ر پیوست ہو جائیں۔ اور میرے دوستو !
جب تہوار ہی ایسے ہو ںجو بے حیائیوں اور برائیوں کو بنیاد فراہم کریں اور
انسان کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت میں داخل کر دیں تو ایسے تہواروں کا
مکمل بائیکاٹ ضروری ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین پر چلنے والا
اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم﴾ﷺ﴿کی پیروی کرنے والا بنائے ،اور
تمام تہواروں ،خوشیوں کو نبی کریمﷺ کے بتائے اور سکھائے ہوئے طریقوں پر ادا
کرنے والا بنائے ۔آمین۔
آپ دوستوں سے گذارش ہے کہ اگر آ پکو یہ کالم پسند آیا ہو تو مہربانی فرما
کر مجھے 03245070058 یا بذریعہ ای میل [email protected]پر اپنی رائے
سے ضرور اگاہ کریں ۔شکریہٓ |