گزشتہ کافی عرصے سے آل پارٹی
کانفرنس کے انعقاد کےلئیے کوشاں حکومتی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے
با لاخر 14 فروری کو اسلام اباد میں آل پارٹیز کانفرنس کرڈالا.اے این پی کا
یہ آل پارٹیز کانفرنس اس لحاظ سے تو کافی کامیاب رہا کہ اس میں حکومتی
اتحادیوں سمیت تقریبا دو درجن چھوٹی بڑی جماعتوں نے شرکت کی. کانفرنس کا
مشترکہ اعلامیہ جس میں کہا گیا ہے کہ'' ملک میں امن کے قیام کی ضرورت ہے
تاکہ قیمتی جانوں کاضاع روکاجاسکے اورملک میں استحکام‘ سماجی اورمعاشی ترقی
کی ضروریات پوری کی جاسکیں،جیساکہ خون آلوددامن کو خون سے نہیں دھویا
جاسکتا بلکہ پرامن مذاکرات کے پانی ہی سے خون کے دھبے دھل سکتے ہیں اسی کے
مصداق مذاکرات کے لیے ذریعے امن کے قیام کواولین ترجیح دی جائے۔دہشت گردی
کے مسئلے کے پرامن حل کوریاست پاکستان کے آئین وقانون اورملک کی سلامتی
واقتداراعلیٰ کے تحفظ کی حدودکے اندرہوناچاہیے۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ کل
جماعتی کانفرنس فاٹامیں امن کے قیام کے لیے گرینڈقبائلی جرگہ کی کوششوں
کوتحسین کی نظرسے دیکھتی ہے اورفاٹاکے عوام اوران کے نمائندوں کویقین دلاتی
ہے کہ کانفرنس میں شریک ساری جماعتیں امن کے قیام کے لیے ان کی جدوجہد کی
مکمل حمایت کرتی ہیں۔شرکا نے دہشت گردی کے واقعات میں شہیدہونے والے افراد
کے لواحقین سے ہمدردی کااظہارکیا۔کانفرنس میں اپنے خطاب میں اسفند یار ولی
خان نے کہا کہ امن کا قیام ہم سب کا مشترکہ ایجنڈا ہے ‘ سب اس پر متفق ہیں
کہ پاکستان کو دہشت گردی وانتہا پسندی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے،، بظاہرتو
کانفرنس کا اعلامیہ بڑا اچھا ہے لیکن اگر اس کے پس منظر تو دیکھا جائے تو
یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اے این پی آل پارٹیز کانفرنس کے تیر
سے ایک،دو نہیں بلکہ کئی شکار کرنے کی چکر میں ہے.اس بات کو مزید آسانی کے
ساتھ سمجھنے کے لیئے یہ وضاحت پیش خدمت ہیں. اے این پی ایک قوم پرست سیاسی
جماعت ہے اور یہ خود کو پختون حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی ہے.
دلچسپ بات یہ ہے کہ پختون قوم کا پاکستان سمیت پوری دنیا میں پہچان.
بہادری،سادگی اور اپنے دین یعنی دین اسلام سے لازوال محبت کی وجہ سے ہے
جبکہ اس کے برعکس عوامی نیشنل پارٹی عیاشیوں اور دین بیزار پالیسیوں کی وجہ
سے مشہور ہے . یہی وجہ ہے کہ پختوں قوم میں اے این پی کو وہ پزیرائی نہیں
ملی جس کے وہ متمنی ہے.ایسے میں جب بھی کھبی انتخابات کا وقت اتا ہے تو اے
این پی مختلف قسم کے چکنی چپٹی باتوں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنے کی
کوشش کرتی ہے. مثال کے طور پر 2008 کے انتخابات سے پہلے جب جب سوات کے
حالات ٹھیک نہیں تھے . اے این پی قائدنے صوبہ سرحد موجودہ خیبرپختون خواہ
میں یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ طالبان ہمارے پختون بھائی ، بیٹے ہیں اور فوجی
بھی جن کو اس سازش کے تحت آپس مین لڑایا جارہا ہے کہ اس سے دونوں جانب
پٹھانوں کا نقصان ہو. لہذا پختون عوام اے این پی کو وٹ دے تاکہ وہ اقتدار
میں آکر اس آگ کو بجھادیں . جب الیکشن 2008 کا وقت آپہنچا تو پختون عوام نے
''قائد محترم،، اسفندیارولی کے کہنے پر اعتبار کیا اور ان کو ووٹ دے کر
صوبے کا باگ ڈور انکویعنی اے این پی کو تھما دیا .اس کے بعد اے این پی نے
جو حال صوبے اورپختون عوام کا کیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. انہوں نے وعدے
کے مطابق اس آگ کو بجھانے کی بجائے امریکہ سے آئے ڈالروں سے کے نشے میں مست
ہوکر اس آگ پورے صوبے میں پھیلادیا. جس کے نتیجے میں گاؤں ، قصبے ویران
جبکہ قبرستان تیزی سے آباد ہونے لگے.اے این پی کو یہ ''اعزاز،،بھی حاصل ہے
کہ جہاں پوری قوم گزشتہ کئی سالوں سے امریکی ڈرون حملوں پر سراپاء احتجاج
بنی ہوئی ہیں تو وہی اے.این.پی قیادت نے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے
ہوئے ڈرون کو ابابیل سے تشبیہ دے دی.ڈرون حملوں سے متعلق جہاں پوری دنیا اس
بات پر متفق ہے کہ اس میں زیادہ تر عام ،بے گناہ شہری جن میں خواتین،بچے
اور بوڑھے شامل ہوتے ہیں نشانہ بنتے ہیں .لیکن اے این پی کے سینیٹر حاجی
عدیل سینیٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر کہتا ہے کہ ڈرون حملوں میں اسی فیصد
القائدہ اراکین ہلاک ہوتے ہیں ،اس لیئے ڈرون حملے جاری رہنے چاھیئے.حاجی
عدیل کے اس انکشاف کے بعد مجھے یوں لگا کہ شائد ایمن الظواہری ''حاجی صاحب،،
فون یا ای میل کرکے بتاتے ہونگے کہ ہمارے اتنے ارکان ہلاک ہوگئے .جبھی تو
حاجی عدیل اتنے وثوق سے یہ بات کہتے ہیں -
اب ایک طرف جبکہ وہ آگ اے این پی کی اپنے دہلیز تک آپہنچی ہے اور دوسری طرف
موجودہ حکومت کا وقت بھی پورا ہونے کو ہے تو ایسے میں اے این پی نے اپنے
ڈوبتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے کے لیئے اے پی سی کا انعقاد کیا.لیکن میں
سمجھتا ہوں کہ یہ اے پی سی اب اے این پی کو ممکنہ طور پہنچنے والے نقصانات
کا مداوہ نہیں کرسکتی. کیونکہ انہوں نے ایک تو اس کے غلط وقت کا انتخاب کیا
اور دوسرا یہ کہ الفاظ کے جس ہیر پیر سے انہوں نے فریق مخالف کو گھیرنے کی
کوشش کی ہے ،حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ پہلے خود انکے جوبات دے .اے پی سی
کے اعلامئیے کو وہ خاص نکات یہاں سوالات کے شکل میں اے این پی قیادت کے
خدمت میں پیش کیا جارہاہے .
'1'اعلامیہ میں کہاگیاکہ '' دہشت گردی کے مسئلے کے پرامن حل کوریاست
پاکستان کے آئین وقانون اورملک کی سلامتی واقتداراعلیٰ کے تحفظ کی حدودکے
اندرہوناچاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اے این پی کا موجودہ کردار جس میں امریکہ
سے غیر مشروط تعاون کرنا،فوجی اپریشن کا دائرہ کا مسلسل دوسرے علاقوںتک
پھیلانا،بنا کسی ثبوت کے کئی لوگوں کوعقوبت خانوں میں قید رکھنا ، سوات
اپریشن کے دوران نفاذ شریعت محمدیّ کے امیر مولانا صوفی محمد کو بنا کسی
عدالتی کارروائی کے جیل سے رہائی دینا اور مقصد پورا ہونے کے بعد پھر جیل
میں ڈالنا کیا ان تمام باتون کا گنجائش ریاست پاکستان کے آئین وقانون میں
تھا یا ہے؟
'2'اعلامیہ میں کہاگیاکہ کل جماعتی کانفرنس فاٹامیں امن کے قیام کے لیے
گرینڈقبائلی جرگہ کی کوششوں کوتحسین کی نظرسے دیکھتی ہے اورفاٹاکے عوام
اوران کے نمائندوں کویقین دلاتی ہے کہ کانفرنس میں شریک ساری جماعتیں امن
کے قیام کے لیے ان کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی ہیں .سوال یہ ہے کہ فاٹا
کے عوام کے نمائندے ہے کون؟ اگر اس سے مراد انکے منتخب کردہ اراکین اسمبلی
ہے ،تو وہ بیچارے تو خود وہاں کے عام سے کنارہ کش ہوچکے ہیں ،اور وہ قیام
امن کے لیئے کوئی کوشش بھی نہیں کر رہے ماسوا اس کے کہ امریکہ کے ہاتھ
مضبوط ہو ،ایسے میں آپ کس طرح ان کی مدد کرینگے؟
'3'شرکا نے دہشت گردی کے واقعات میں شہیدہونے والے افراد کے لواحقین سے
ہمدردی کااظہارکیا۔اور یہ مطابہ کیا کہ صوبائی اور قومی حکومت متاثرین کی
فوری مدد کرے. ہیاں پر بھی سوال یہ ہے کہ جب حکومت میں شامل تمام پارٹیاں
کانفرنس میں موجود رہے تو پھر یہ مطالبہ کس سے کیا جارہا ہے؟
ایک اخری سوال اے این پی کے کرتا دھرتاؤں سے یہ کہ اب تو آپ چند ہفتوں میں
بے اختیار ہو جایئنگے،جب آپ با اختیار حیثیت سے جس اسمبلی کے حصہ تھے ،میرے
یاداشت کے مطابق اس اسمبلی نے دو دفعہ اس اہم مسئلے پر متفقہ قراردادیں
منظور کی ہے .اگر ان قراردادوں پر عمل ہوجاتا تو یقینا پاکستان بیرونی
مداخلت اور اندرونی خلفشار سے پاک ہوجاتا سوال یہ ہے کہ آج امن کے لیئے
پریشان اے.این.پی نے کل ان قرادادوں پر عمل درآمد کرانے میں کردار ادا کیو
ں نہیں کیا؟؟؟ |