میرا یہ کالم جواب ہے۔ اُس تحریر
کا جو ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ کے قلم سے لکھی گئی۔ جی ہاں میری مُراد
قابل احرتام وباعمل اُور علم دوست انسان جناب محترم افتخار الحسن رضوی دامت
برکاتہم عالیہ سے ہے۔ جنہوں نے مجھ جیسے حقیر و نابینا انسان کیلئے اپنے
قلم کو جنبش دِی تو مروت و محبت میں مجھ جیسے انسان کیلئے اپنی تحریر میں
نجانے کیسے کیسے القابات کا استعمال کرڈالا۔ اُنکا یہ کالم ہماری ویب ڈاٹ
کام پر جب پبلش ہُوا تب میں بستر علالت پر پڑا تھا۔ مجھے کامران عظیمی
بھائی کے توسط سے اِس کالم کے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہُوئی ۔ کالم نشر
ہُونے کے دوسرے دِن کے اختتام تک بھی ہمت نہیں تھی۔ کہ جواباً شکریہ کے دو
الفاظ ہی لکھ سکوں۔ لیکن اب جونہی طبیعت میں کچھ اِفاقہ محسوس ہُوا۔ میں
اُنکے شکریہ کیساتھ کچھ حقائق اپنے قارئین کرام کی خِدمت میں پیش کرنا
چاہتا ہُوں۔
افتخار الحسن رضوی بھائی پہلے تو میں آپکو بُہت بُہت مبارکباد پیش کرنا
چاہتا ہُوں۔ کہ آپ نے جس گہوارے میں اپنی آنکھ کھولی۔ وہاں علم کی روشنی
پہلے سے ہی موجود تھی۔ لیکن شائد آپکو اِسکی قدر و قیمت کا اندازہ اِسلئے
نہ ہُوسکا ہُو۔ کہ آپ نے ہمیشہ اپنے اِرد گرد بینا لوگوں کو دیکھ کر یہی
سُوچا ہُو۔ کہ،، شائد دُنیا میں ہر بچہ آنکھ کی نعمت سے مالا مال ہی پیدا
ہُوتا ہُوگا۔۔ اسلئے آپ کے چاروں طرف آنکھ والے بینا مرد و خواتین موجود
ہیں۔
لیکن جناب والا میں آپکو بتانا چاہتا ہُوں کہ،، ساری دُنیا کے بچے آپکی طرح
خوش نصیب نہیں ہُوتے۔ دُنیا میں لاکھوں بچے میری طرح نابینا بھی پیدا ہُوتے
ہیں۔ اُور اُنکے گرد اگرد بھی نابینا لوگوں کی بھیڑ ہی جمع ہُوتی ہے۔ جِس
کے سبب اُنکو یہ محسوس ہُوتا ہے ۔ کہ شائد ساری دُنیا کے لُوگ ہی نابینا
ہیں۔ اُور اس لئے جب اُنہیں کوئی بتاتا ہے ۔ کہ میں الحمدُ للہ بینا ہُوں۔
اُور مجھے سب کچھ دِکھائی دیتا ہے۔ تو نابینا لوگ اُس بینا انسان کا مذاق
اُڑاتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اُنکا خیال ہُوتا ہے۔ کہ دُنیا میں کوئی بھی
انسان بینا نہیں ہُوسکتا۔ اگر ایسا ہُوتا تو اُنہیں دکھائی کیوں نہیں دیتا۔۔؟
جناب والا۔ یہی حال میرا اُور میرے خاندان کا بھی تھا۔ کیونکہ میں جس
خاندان میں پیدا ہُوا۔ وہاں کوئی بھی بینا انسان موجود نہیں تھا۔ اُور اِس
وجہ سے سِوائے میرے دادا کے میرے اکثرخاندان والوں کو ہر اُس انسان سے شدید
نفرت تھی۔ جو خود کو آنکھ والا کہے۔ کیونکہ اُنکا خیال تھا۔ کہ جب کوئی یہ
کہتا ہے۔ کہ مجھے نظر آتا ہے۔ تو اِسکا صرف ایک ہی مطلب ہُوتا ہے۔ کہ وُہ
ہمیں نابینا سمجھ کر گالی دینے کا مرتکب ہُورہا ہے۔ اُور کسی میں ہمت نہ
تھی۔ کہ وُہ اُس آنکھ والے سے کلام کرے۔ یا بینائی کی حقیقت سےمتعلق
استفسار کرے۔
لیکن افتخار صاحب مجھے ایک بات کا قوی یقین ہے۔ اُور وُہ یہ کہ میرے
پروردیگار کو مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔۔ جی ہاں میں یہ بات بالکل ہُوش و حواس میں
رِہ کر کہہ رہا ہُوں۔۔۔۔ اُور میں اِس بات کو ثابت بھی کرسکتا ہُوں۔۔۔۔۔ آپ
یہ بات تو مانتے ہیں نہ کہ،، کوئی بھی جب کسی کو کوئی خاص تحفہ یا اسپیشل
انعام دیتا ہے۔ تو اِس انعام و تحفہ کے پیچھے محبت کا لطیف جذبہ ضرور
کارفرما ہُوتا ہے۔ اُور جِس سے محبت اُور لگاوٗ نہ ہُو۔ اُسے کسی خاص تحفے
یا انعام سے نہیں نوازا جاتا۔۔۔۔ اگر آپ کو میری مثال سمجھ آگئی ہے۔ تو آپ
بھی لازماً میری بات کی تائید کردیں گے۔۔۔
دیکھئے نا ! میں بھی نابینا تھا۔ اُور نابینا لوگوں کے درمیان نا صرف پلا
بڑھا تھا۔ بلکہ پیدا بھی ایسے نابینا خاندان میں ہُوا تھا۔ جہاں بچے کو
پیدا ہُوتے ہی کان میں اِذان کی صدا بعد میں سُنائی دیتی ہے۔ اُور آنکھ
والوں سے دشمنی کی گھٹی پہلے پلائی جاتی ہے۔۔۔۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں
آنکھ کھولنے کے باوجود۔۔۔۔ خُدا کے سِوا ۔اُور کون ہستی ہُوسکتی ہے۔ جِس نے
میرے قلب کو آنکھ والوں کی عدوات سے پاک رکھا۔۔۔۔۔ اُور یہ اللہ کریم کی
محبت کے سِوا کیا معاملہ ہُوسکتا ہے۔ کہ مجھے صرف آنکھ والوں کی نفرت سے ہی
نہیں بچایا۔ بلکہ آنکھ والوں کی محبت سے میرے بے نُور دِل کو آگہی بخشتے
ہُوئے جگمگا ڈالا ۔
یقین کیجئے! مجھے نہ کبھی اِس بات پر فخر رہا ہے۔ کہ میں ایک صنعتکار باپ
کا بیٹا ہُوں۔ اُور نہ ہی مجھے اپنے حسب نسب کی برتری کا خمار رہا ہے۔ اُور
نہ ہی مجھے اِس بات پر کبھی غرور ہُوا ۔ کہ اللہ کریم کی عطا سے ہزاروں
لوگوں کو میرے ہاتھ سے بذریعہ روحانی علاج شفا حاصل ہُوئی ہے۔ کیونکہ بقول
جاوید بھائی عطاری اللہ کریم جب کام لینا چاہتا ہے۔ تو کسی فاسق و فاجر سے
بھی کام لے لیتا ہے۔ عامل کامل ہُونا میرے نذدیک کبھی بھی اہمیت کا حامِل
نہیں رہا۔ کیونکہ عامل ہُونا ہی خُدا کی رضا کا حامل ہُونا نہیں ہُوتا۔۔۔۔
میری آنکھوں میں جب بھی تشکر کے آنسووٗں نے جگہ پائی ہے۔ تو یہی سُوچ کر
سجدہ شکر بجالایا ہُوں۔۔۔ کہ اے پروردیگار تیری محبت کے قربان جاوٗں۔۔۔
کہ،، تُونے مجھے اندھوں کی گلی سے نِکال کر آنکھ والوں کے آستانے کا فقیر
بناڈالا۔ تیرے واضح فرمان کے باوجود بھی جو لوگ تیرے آنکھ والے (اُولیائے
کرام) کی عظمت کے منکر ہیں۔ تونے مجھے اُنہی میں پیدا فرمانے کے باوجود
۔اپنی خاص محبت سے میرے دِل کو مُنافقوں کے منفی اثر سے محٖفوظ رکھا۔۔۔۔
اُور جب تونے چاہا کہ میرا مقدر سنور جائے ۔ تب تونے اپنے خاص فضل و کرم سے
اپنے آنکھ والے (اُولیائے کرام) کے قُلوب کو میری جانب مائل فرمادیا۔۔ ۔
اُور مجھ عاصی و بدکار و بد اطوار کے دِل میں اُن نفوسِ قُدسیہ کی محبت ڈال
دی۔۔۔۔
اے میرے پروردیگار۔ تیری عطا سے میں ایک بات بخوبی جان چُکا ہُوں۔ کہ یہ
دنیا کا کارخانہ اُور اسمیں کئی جانے والی مزدوری ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کوئی
اپنے طویل سجدوں کے باوجود بھی شیطان کے نقش پا کا اسیر بن جاتا ہے۔ اُور
کوئی بِن مانگے بھی اپنا حصہ خُوب اس دُنیا سے حاصل کرلیتا ہے۔ جسکی وجہ سے
مجھ پر یہ بات رُوزِ رُوشن کی طرح عیاں ہُوگئی ہے کہ،، تُو انعام صرف
مزدوری پر عطا نہیں فرماتا۔ بلکہ تیرا جس پر فضل ہُوجائے وہی کامیاب رِہتا
ہے۔
اے میرے پرور دیگار میری جھولی خالی ہے۔ نہ میں نے طرز بندگی سیکھا۔۔۔۔اُور
نہ ہی اپنا کام ایمانداری سے کرپایا۔ اگرچہ میں جانتا ہُوں ۔ کہ یہ دُنیا
امتحان گاہ ہے۔ پھر بھی دُنیا کی محبت سے پیچھا نہیں چھوٹتا۔ تُونے تو
احسان فرماتے ہُوئے ہمیں اِس کمرہ امتحان میں مختصر وقت کیلئے رکھا۔ تاکہ
گناہوں کے انبار ہماری کمر نہ تُوڑ کر رکھ دیں۔ مگر مجھ کو اِس کمرہ امتحان
کی رنگینی ایسے بھا گئی۔ کہ اِس کے گورکھ دھندے سے دِل ہی نہیں بھرتا۔
اگرچہ میں جانتا ہُوں کہ ،، بُلاوے کا وقت نذدیک ہے۔ لیکن پھر بھی مفت
کھانے کی ایسی عادت پڑی ہے۔ کہ مزدوری کو جی نہیں چاہتا۔ نتیجتاً ابھی تک
خالی ہاتھ ہُوں۔ اگر پاس کچھ ہے۔۔۔ تو یہ یقین کہ،، جسطرح تونے میرے عیبوں
پر دُنیا میں پردہ قائم رکھا۔ اجر دیئے جانے کے دِن بھی پردہ فرمائے گا۔
اُور رُسوا نہیں ہُونے دیگا۔ اے میرے کریم رَبّ مجھے اُجرت نہیں چاہیئے۔
کیوں کہ اجرت تو مزدوری کی ہُوتی ہے۔ اُور مزدوری میں نے کی نہیں۔ اسلئے
مجھے تو صرف بھیک چاہیئے ۔
اُور سخی کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی بھکاری اُس کے در سے خالی ہاتھ
چلا جائے۔ اسلئے قوی یقین ہے کہ ،، تو مجھے بھی بھیک میں اپنے خاص لُطف و
کرم سے مغفرت کی بھیک اُور اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت
نصیب فرمائے گا۔ جسطرح بھیک میں تونے مجھے آنکھ والے (اُولیائے کرام) رحم
اللہ اجمعین کی محبت و قربت عطا فرمادی۔ اُور دُنیا کے مختلف کونوں میں بسے
اہل محبت کی محبتوں کا اسیر بنا ڈالا ہے۔
آمین آمین آمین ! بجاہِ النبی الکریم وَ صلی اللہ تعالی علیہ وَآلہ وَ
اصحابہ و ازواجہِ و اولیائے ملتہ اجمعین یا ربنا یا ربنا یا ربنا واغفرلنا
یا الرحم الرحمین۔ |