عہد زرداری اور حافظ مظفر محسن

آپ میں سے کافی لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہم عہد زرداری میں جی رہے ہیں ۔ یہ وہ عہد ہے جس میں اکثر عہد پورے نہیں ہوتے۔ ایسے پر آشوب دور میں غنیمت ہے کہ ہمیں مشتاق احمد یوسفی ، عطا الحق قاسمی، گل نوخیز اختر ، شوکت علی مظفر، کے ایم خالد،ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے ساتھ ساتھ حافظ مظفر محسن جیسے مزاح نگار دستیاب ہیں ۔میں ایک عرصہ تک سمجھتا رہا کہ حافظ مظفر محسن کا تعلق ملتان کے حافظ سوہن حلوہ سے ہے پھر معلوم ہوا کہ تعلق تو ہے لیکن صرف کھانے کی حد تک ۔ ہمارے ہاں ادیب جتنی کتابیں لکھتا جائے اس کی حالت اتنی ہی پتلی ہوتی جاتی ہے ،حافظ صاحب پر اس کا الٹ اثر ہوا ۔ پرانی تصویروں میں یہ کافی دبلے پتلے نظر آتے ہیں لیکن ما شااللہ گزشتہ دنوںان کی25 ویںکتاب اور 120 کلو وزن کی تقریب رونمائی ہوئی ۔ یعنی بیمار کا حال اچھا ہے ۔اللہ نے اتنی صحت دی ہے کہ گل نوخیز اختر کے بقول ہم ان کے جنازے پر گٹھلیوں کی جگہ تربوزپڑھیں گے ۔ایسٹ مین مزاح کی تعریف لکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ مزاح کے موڈ میں خوشگوار چیزوں کے ساتھ نا خوشگوار چیزیں بھی اچھی لگتی ہیں ۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ حافظ صاحب نے ایسٹ مین کو پڑھا تھا یا نہیںمگریہ ضرور جانتا ہوں کہ جب ان کی کتاب”بونا نہیں بےوقوف“ کا ٹائیٹل بن رہا تھا تو اس پر صرف ایک نرس کی تصویر تھی لیکن جب فائنل ٹائیٹل چھپا تو اس پر پر نرس کے ساتھ ان کی اپنی تصویر بھی پائی گئی۔لوگ لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں حافظ صاحب یہ سلوک عنوان کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کے مضامین کے عنوان پڑھتے پڑھتے خیال آتا ہے کہ ضرور ان کے چھوٹے بیٹے کا نام حافظ مظفر محسن کے بڑے بیٹے کا چھوٹا بھائی ہو گا ۔ ویسے تو یہ نام بھی ان کے مضامین کے عنوانات کے سامنے بونا ہی ہے ۔ نمونے کے طور پر ایک دو مضامین کے نام ملاحظہ کیجئے۔
ٍ1 : بوٹ، وانا کے صدر اور صدر امریکہ میں مماثلت اور عقلمند رعایا
2 : چودھری مائیکل جیکسن، ملنگوں کی دھمال اور کالا جادو
3: خواجہ سراﺅں کی رجسٹریشن ، مکھیوں پر مظالم اور عوامی فیصلے
4 : ساٹھ سال کا دولہا ، بیس کی دلھن ۔ ۔ اس بارات سے ڈر لگتا ہے

مجھے ڈر ہے کہ حافظ صاحب کا یہ سٹائل ترقی کر گیا تو مستقبل میں 1000 الفاظ کا عنوان اور ایک لائن کا مضمون بھی جنم لے سکتا ہے۔ اسی طرح ممکن ہوتا تو میں اس مضمون کا نام بھی ”حافظ مظفر محسن ،بونا نہیں بے وقوف ، میں ، حسن عباسی ،اعتراف انٹرنیشنل اور ایک ادبی تقریب“رکھ کر حافظ صاحب کا ریکارڈ توڑنے کی ناکام کوشش کر تا۔

موصوف خالص لاہوری ہیں اس لیے ان کی ہر بات ”ہور سناﺅ بادشاہو“ سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اکثر جنازے کو کندھا دیتے ہوئے کلمہ شہادت کی بجائے” ہور سناﺅ بادشاہو “ کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔لاہوریوں کی عادت ہے کہ ہور سناﺅ بادشاہو سے بات شروع کرتے ہیں جو ”کھابے “ پر ختم ہوتی ہے۔ حافظ صاحب بھی قلوں پر اتنی ہی گٹھلیاں پڑھتے ہیں جتنی دیگیں پکی ہوں۔ بچپن میں پڑھا تھاکہ ادیب معاشرے سے ہی موضوع چنتا ہے اورجو محسوس کرے وہی لکھتا ہے ۔ حافظ صاحب نے اس بات پر اتنا زیادہ عمل کیا کہ اب اگر یہ بنک کھولیں تو ضرور اس کا نام” حافظ مظفر محسن لما ٹیڈ“ ہو گا۔ انگریزی ادب میں مزاح کا آغاز چاسر سے ہوا ۔ لیکن حافظ صاحب سمجھتے ہیں یہ کام بھی ان کے صنوبر خان نے کیا ہو گا۔وہ اس پر پورا مضمون لکھ سکتے ہیں اور ایسے ایسے دلائل دے سکتے ہیں کہ آپ کو بھی یقین آ جائے گا ایسی حرکت صنوبر خان ہی کر سکتا ہے۔شروع شروع میں حافظ صاحب نے یونس بٹ کے ”ف “کو یونس بٹ کی” ف“ سمجھتے ہوئے صنوبر خان کو میدان میں اتارا۔ بعد میں انہیںمعلوم ہوا کہ صنوبر خان پٹھانوں کے ہوٹل میں سب سے کم عمر ہے تو استاد قمر کمانی کی کمانی کا سہارا لینے لگے۔

حافظ مظفر محسن کا شمار ان مزاح نگاروں میں ہوتا ہے جو شائستگی اور شائستہ دونوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔بچپن میں سیاست دان بننا چاہتے تھے شاید اسی لیے کہانی کے ہر موڑ پر پلٹی کھا جاتے ہیں ۔ان کی سیکرٹری بھی ان سے نالاں ہے۔ ابھی کل ہی کہہ رہی تھی یہ بھی سجیب سرکاری افسر ہیں جنہیں ٹوپی گھمانی بھی نہیں آتی۔اسی لیے سکینڈل کھڑا نہیں ہوتا۔ دفتر سے سینما کی بجائے سیدھے گھر جاتے ہیں یعنی لاحول ولا قوہ۔لکھتے وقت خود پر ہنسنے کا فن جانتے ہیں ۔ شرارت ان کے چہرے سے ٹپکتی ہے جسے مہندی لگا کر رکھتے ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے حافظ صاحب صرف مزاح لکھتے ہیں اور طنز سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ۔ ایسے دوستوں سے گزارش ہے کہ ان کی کتاب ”ابونا نہیں بے وقوف “کا انتساب دیکھ لیں جس میں تعویز کی شکل میں کم و بیش 300 نام لکھے ہوئے ہیں۔ اس سے خوبصورت طنز کیا ہو گا ۔ ان کا طنزنشتر کی بجائے ہنسی کا فوارا بن جاتا ہے ۔ ویسے تو میں گول گپا بھی کہہ سکتا ہوں لیکن پھر دوست میری بات سننے کی بجائے ان کی جانب دیکھنے لگتے ہیں ۔

اگر ہم مزاح پڑھنے کی بجائے اس پرصرف اتنی سی نظر ڈالیں جتنی بعض شر پسند میٹرو بس کی کامیابی اور خوبیوںپر ڈال رہے ہیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں مزاح کے دو رنگ نمایاں ہیں ۔ ایک عطا الحق قاسمی صاحب کی طرح بزرگانہ سٹائل ہے ۔جو زیادہ بڑھاپے کی صورت میں مشتاق احمد یوسفی بن جاتا ہے ۔ اس طرز کے مزاح میں جملے مضبوط، سرخ اور پکے ہوئے ملتے ہیں ۔ ان میں چاشنی کے ساتھ ساتھ ٹھہراﺅ اور گہرائی نمایاں ہوتی ہے ۔ دوسرارنگ گل نوخیز اختر کی طرح کا ہے ۔ یہ زیادہ بگڑ جائے تو یونس بٹ بھی بن سکتا ہے۔ اس میں جملے جوان اورچست ہوتے ہیں اسی لیے دھمالیں ڈالتے نظر آتے ہیں ۔ اس دھمال میں کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی جملے کا سوٹا ختم ہو جائے تو وہ وہیں ”حضرت داغ جہاں لیٹ گئے وہاں لیٹ گئے“ کہتے ہوئے سو جاتا ہے اور دوسرا جملہ اسے پھلانگتے ہوئے گزر جاتا ہے ۔ مزاح کی یہ دونوںگاڑیاں اپنی اپنی جگہ مکمل نظر آتی ہیں اور مزاح لکھنے والے انہی میں سے کسی ایک کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔مزید کسی اور شرارت کی گنجائش تو نہ تھی لیکن حافظ مظفر محسن نے یہ شرارت کر لی ۔ مزاح کے اس کھیت میں وہ عطا الحق قاسمی اور گل نوخیز اختر کے درمیان تھوڑی سی جگہ نظر آتے ہی جا بیٹھے ہیں ۔اس لیے اب کہہ سکتے ہیں کہ بادشاہومیں تے استاد شاگرد دوناں نوں پھنسا لیا اے ۔ حافظ مظفر محسن مزاح نگاروں کی دنیا میں اپنی الگ کٹیا بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے کسی اور کا رنگ اپنانے کی بجائے اپنا ایک الگ انداز بنایا اور پھر اسے خوب نبھایا۔ بالکل ویسے ہی جیسے چھوٹے سموسے لینے جائیں اور کہیںویجیٹیبل سموسے چاہیے تو دکاندار کہتا ہے ان میں سبزی ہی ہے ۔ اگر کہیں چکن سموسے چاہیے تو جواب ملتا ہے ان میں چکن ہی ہے ۔ اسی طرح حافظ صاحب کی تحریر مزاح بھی ہے اور سنجیدہ بھی۔ یہ وہ دکان ہے جہاں بارہ مسالے کی چاٹ میںشیرابھی ڈال دیا گیا ہے۔لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی اور ٹینشن کے اس دور میں میری دعا ہے کہ حافظ صاحب یونہی سنجیدہ مزاح لکھتے رہیں ۔ اب تو مزاح پڑھنا اور لکھنا بھی غنیمت ہے کیونکہ ہم عہد زرداری میں جی رہے ہیں ۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54398 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.