فضہ پروین
مارچ 1939کی ایک خنک شام تھی سید نصیر الدین جامعی اور تابش صدیقی گرم جوشی
سے ملے اور ایسٹ روڈ پر سیر کرتے ہوئے شملہ پہاڑی لاہور کی جانب جا رہے تھے
۔دونوںدوست علم و ادب سے والہانہ وابستگی رکھتے تھے ۔ان کی دلی تمناتھی کہ
فروغ علم وادب کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔دوران گفتگو سید
نصیر الدین جامعی نے تجویز پیش کی کہ ایک ایسی فعال ادبی مجلس کا قیام عمل
میں لایا جائے جو جمود کا خاتمہ کرے اور فکر و نظر کو مہمیز کر کے قارئین
ادب میں مثبت شعور و آگہی پید ا کرے ۔اس مجلس کا نام”مجلس افسانہ گویاں
“تجویز ہوا ۔تابش صدیقی نے اس تجویز کو بہ نظر تحسین دیکھا اور اس مجلس میں
شامل ہونے والے وہ پہلے فعال رکن تھے ۔”مجلس افسانہ گویاں“کے قیام کے سلسلے
میںجن ممتاز شخصیات سے مشاورت کی گئی ان کے نام درج ذیل ہیں :
حفیظ ہو شیارپوری ،شیر محمد اختر ،محمد فاضل ،سید اقبال احمد جعفری ،اختر
ہو شیارپوری ،ڈاکٹر حیات ملک ،اے مجید اور سید محمد اصغر جعفری ۔“(1)
ابتدا میں ”مجلس افسانہ گویاں “کے تمام بانی ارکان اس بات پر متفق تھے کہ
اس مجلس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ادبی نشستوں میں صرف افسانے تنقید
کے لیے پیش کیے جائیں گے ۔ادبی نشستوں میں شامل ادیبوں ،دانشو روںاور
سامعین کو ان طبع زاد افسانوں کے مختلف فنی پہلوﺅں کا جائزہ لینے کا مو قع
دیا جائے گا ۔اس طرح صحت مند تنقید کے اعجاز سے افسانوں کو معیار اور وقار
کی رفعت سے آشنا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ 2۔اپریل 1939 کو ’ ’مجلس افسانہ
گویاں “کا پہلا اجلاس سید نصیر الدین جامعی کی رہائش گاہ پر لاہور میں
منعقد ہوا۔اس اجلاس میں سید نصیر الدین جامعی کو ”مجلس افسانہ گویاں “کا
پہلا سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔(2)اپنے قیام کے ساتھ ہی ”مجلس افسانہ
گویاں“کو علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی اور اس کے قیام کو
تخلیق ادب اور اردو زبان کے فروغ کے لیے ایک نیک فال سے تعبیر کیا
گیا۔اسلوبیاتی تنوع اور مو ضوعاتی ندرت کے حوالے سے اس بات کو شدت سے محسوس
کیا گیا کہ اردو ادب میں نئے طبع زاد افسانوں کی تخلیق قدرے کم رہی ہے ۔اس
لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اس رجحان ساز مجلس کو محض افسانوں تک
محدود کرنے کے بجائے اس کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور نظم و نثر کی تمام
اصناف کو اس میں زیر بحث لا یا جائے ۔اس خیال سے سب تخلیق کار متفق تھے اس
لیے یہ طے کیا گیا کہ ”مجلس افسانہ گویاں “کو نیا نام دیا جائے ۔محمد فاضل
نے یہ مشکل حل کر دی اور کہا نام ”حلقہءاربا ب ذوق “مناسب رہے گا ۔سب ارکان
نے اسے منظور کر لیا اور یہ نام آج تک مقبول ہے ۔(3)ڈاکٹر محمد باقر کا
کہنا ہے کہ ”مجلس افسانہ گویاں “کا نیا نام ”حلقہءارباب ذوق “تجویز کرنے
والے وہ تھے ۔(4) حلقہ ءارباب ذوق کا نام تجویز کرے کے سلسلے میں ڈاکٹر
محمد باقر کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے تابش صدیقی نے اپنا موقف بیان
کرتے ہوئے لکھا ہے :
”حلقہ ءارباب ذوق کی بنیاد وغیرہ کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر کا
ایک مضمون مخزن کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا ،جس میں انھوں نے حلقے کے
نام کا مجوز ہونے کا دعویٰ کیا تھا جو صحیح نہیں ہے ۔یہ سب کچھ ان کی
انگلستان سے مراجعت سے قبل ہو چکا تھا ۔(5)
ترقی پسندتحریک کے بر عکس حلقہ ءاربا ب ذوق کے کوئی سیاسی مقاصد نہ تھے ۔حلقہءارباب
ذوق نے علم و ادب کے فروغ کوہمیشہ اولیت دی ۔یکم اکتوبر 1939کو حلقہ ءارباب
ذوق کے ایک جلسہ میں اس کے قیام کے اغراض و مقاصد،اصول و ضوابط اور مسقبل
کے لائحہ ءعمل کا تعین کیا گیا ۔حلقہ ءارباب ذوق کو کامیاب اور مقبول بنانے
اور اس کے اراکین کی تعداد میں معتد بہ اضافہ کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر
اتفاق ہو گیا ۔(6)اپریل 1940کے وسط میں حلقہ ءارباب ذوق کا پہلا سالانہ
اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت میاں بشیر احمد ایڈیٹر ”ہمایوں “ نے کی
۔(7)میراجی (محمد ثنااللہ ڈار ) (25-5-1912تا 4-11-1949)اور راجندر سنگھ
بیدی نے(1915تا 1984) پہلی بار اس سالانہ جلسے میں شرکت کی ۔اس سالانہ
اجلاس میں کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک نے بھی شرکت کی ۔یہ دونوں ممتاز
تخلیق کار حلقہ ءارباب ذوق کے معمول کے جلسوں میں با قاعدگی سے شرکت کرتے
تھے ۔پہلے سالانہ اجلاس کے بعد میراجی نے جب حلقہءاربا ب ذوق میں با قاعدہ
شمولیت کر لی تو اس سے حلقے کو بہت فائدہ پہنچا ۔میراجی کی تخلیقی فعالیت ،تنقیدی
بصیرت اور تبحر علمی کا ایک عالم معترف تھا ۔میراجی کی مستعد ،فعال اور
مستحکم شخصیت کی آمد سے دلوں کو ایک ولولہ ءتازہ نصیب ہوا ۔تخلیق ادب کے
ساتھ میراجی کی قلبی وابستگی،خلوص ،دردمندی ،محبت اور جذبہ ءانسانیت نوازی
کی بنا پر ان کی شخصیت تخلیق ادب کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئی ۔میراجی
کا اسلوب قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر پتھروں کو بھی موم کر نے
کی صلاحیت سے متمتع تھا ۔انھوں نے آزاد نظم کے تجربے کو لائق صد رشک و
تحسین معیار تک پہنچایا۔حلقہ ءارباب ذوق کا مطمح نظر یہ تھا کہ مغرب نے
تخلیق ادب کی جو روایت پروان چڑھائی ہے اسے پیش نظر رکھا جائے ۔جدیدادب میں
مسائل عصر کی تمازت اور عصری آگہی کا عنصر شامل کرنا وقت کااہم ترین تقاضا
ہے ۔حلقہءارباب ذوق نے اسالیب کی ندرت ،موضوعات کے تنوع اور جذبے کو کلید ی
اہمیت کا حامل قرار دیا۔میراجی نے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کا ر لاتے
ہوئے جس سلیقے اور خلوص کے ساتھ تخلیق فن کے لمحوں میں منتشر اجزا کو مجتمع
کرنے کی راہ دکھائی وہ اپنی ،مثال آپ ہے ۔ان کے اسلوب میںجذبات و احساسات
کی صداقت کا جادو قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔حلقہءارباب ذوق نے
1940تا1943کے عرصے میں کامیابی کے نئے باب رقم کیے ۔اس عرصے میں اردو کے جو
ممتازتخلیق کار حلقہءارباب ذوق سے وابستہ ہوئے ان میں قیو م نظر ،یوسف ظفر
،مختار صدیقی ،ضیا جالندھری،الطاف گوہر اور محمد صفدر کے نام قابل ذکر ہیں
۔یہ سب تخلیق کار میراجی کے ساتھ مل کر تخلیق ادب میں نت نئے تجربات ،درخشاں
اقدار و روایات کو پروان چڑھانے کے لیے مصروف عمل تھے ۔1942میں حلقہءارباب
ذوق کے منشور کی منظوری دی گئی ۔ (8)اس اعتبار سے اس سال کو حلقہءارباب ذوق
کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔
حلقہءارباب ذوق نے 1945کے بعد اپنی تنظیم پر توجہ مرکوز کر دی۔پورے بر صغیر
میں اس کی شاخیں قائم کرنے کے لیے کا م کا آغاز کر دیا گیا ۔سب سے پہلے
لکھنومیںحلقہ ءارباب ذوق کی شاخ قائم ہوئی اس کے بعد 1946میں حلقہءارباب
ذوق کی شاخ دہلی میںقائم ہو گئی۔حلقہءارباب ذوق کی مقبولیت میں بتدریج
اضافہ ہو تا چلا گیا جالندھر اور فیروز پور میں بھی حلقہءارباب ذوق کی
شاخیں قائم ہو گئیں ۔قیام پاکستان کے بعد حلقہءارباب ذوق کی مقبولیت کا
سلسلہ برقرار رہا اور پاکستان کے جن شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں ان
میں راول پنڈی ،کراچی ،چٹا گانگ ،منٹگمری(ساہیوال)اور پشاور شامل ہیں۔اس کے
بعد پاکستان کے ہر شہر میں حلقہءارباب ذوق کی شاخ قائم ہو گئی ۔حلقہ ءارباب
ذوق کی تحریک نے جن رہنما اصولوں اور جن بنیادی نظریات کو اپنا مطمح نظر
بنایا ان کے اہم نکات کے بارے میں تابش صدیقی نے لکھا ہے :
1”۔اچھا ادب وہ ہے جو اپنے ماحول سے آشنا ہوتے ہوئے ہمہ گیر تاثر کا حامل
ہو۔
2۔ادب اگر ادب نہیں تو پھر جدید ہو یا قدیم ہو سوختنی ہے ۔
3۔ہماری بغاوت جمود کے خلاف ہے ،روایت کے خلاف نہیں ۔
4۔غزل بہ طور صنف ادب بڑی وقعت رکھتی ہے لیکن اس میں اتنی لچک ہونی چاہیے
کہ وقت کے تاثرات کو قبول کرتے ہوئے صحیح رنگوں میں ڈھلتی جائے ۔
5۔پابند نظم ،نظم معرا ،نظم آزاد وقت کے تقاضوں کے مطابق مغربی ادب کے ا
ثرات میں پروان چڑھتی ہوئی ہماری روایات کی مختلف شکلیں ہیں ۔
6۔شاعر کا واحد مقصد اپنے شدید طور پر محسوس کیے ہوئے تجربے کا مکمل اظہار
ہے ۔“(9)
حلقہ ءارباب ذوق نے تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات پر توجہ دی تخلیق فن
کے لمحوں میں تخلیق کار کو ہر قسم کی پابندی ،قدغن اور مصلحت سے نجات دلانے
کی سعی کی ۔حلقہ ءارباب ذوق نے تخلیق کار کو حق گوئی اور بے باکی کی راہ پر
چلنے کی تلقین کی ۔ایک زیرک تخلیق کار جب پرورش لوح وقلم کی کٹھن ذمہ داری
سنبھالتا ہے تو جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک
کہتے ہوئے ان تمام حقائق کوصفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے جو کہ اس کے قلبی
جذبات احساسات ،تجربات اور مشاہدات کے آئینہ دار ہوں ۔بر عظیم میں بیسویں
صدی کی تیسری دہائی اس لحاظ سے ہمیشہ یادرکھی جائے گی کہ اس عرصے میںنئے
احساسات کو نمو ملی ۔ تخلیق ادب کے حوالے سے یہ عرصہ اپنے متنوع اور ہمہ
گیر نظام افکار و اقدار کی بدولت دور رس اثرات کا حامل ثابت ہوا اور نئے
خیالات کی ترویج نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔اس عرصے میں جمود کے خاتمے
اور زندگی کی برق رفتاریوں نے زندگی کے تمام پہلوﺅں کو اپنی لپیٹ میں لے
لیا۔اقتضائے وقت کے مطابق زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے پر توجہ دی
گئی اور زندگی کی نئی صور ت گری کی تمنا پیدا ہوئی۔مجبور انسانیت جو پہلے
ہی اپنے مصائب و آلام کے بوجھ کے نیچے سسک رہی ہے زینہ ءایام پر عصا رکھتے
ہوئے وقت کی تہہ میں اتر جاتی ہے مگر ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں ۔مجبوروں
،محروموں اور فقیروں کی حالت بدستور ابتر ہے جب کہ بے ضمیروں کے ہر دور میں
وارے نیارے رہتے ہیں ۔اس کائنات کا نظام مسلسل تغیر کی زد میں رہتا ہے ۔یہ
صدائے کن فیکون جو دمادم سنائی دیتی ہے اس حقیقت کی نقیب ہے کہ قدرت کے اس
عظیم کارخانے میں سکون محال ہے ۔حلقہ ءارباب ذوق نے مادیت میں لوگوں کی
بڑھتی ہوئی دلچسپی پر گرفت کی ۔انھوں نے روحانیت اور داخلیت کو اپنے فکر
وفن کی اساس بنایا۔ترقی پسند تحریک نے خارجیت اور مادیت کو کلیدی اہمیت کا
حامل قرار دیا اس کے برعکس حلقہءارباب ذوق نے داخلیت اور روحانیت کو اپنا
زاد راہ قرار دیا۔بادی النظر میں یہی وہ حد فاصل ہے جو ان دو ادبی تحریکوں
کے درمیان ایک واضح فرق کا تعین کرتی ہے ۔ترقی پسند تحریک نے جہاں ادب کے
ذریعے میکانکی افادیت کی جستجو کی وہاں حلقہءارباب ذوق نے روحانیت اور
جمالیا ت سے سوز و سرور کے وسیلے سے سکون قلب کی تلاش کو اپنا مطمح نظر
قرار دیا ۔
حلقہءارباب ذوق سے وا بستہ ا دیب اس بات کے داعی تھے کہ انھوںنے ادب کی
درخشاں اقدار و روایات کو آگے بڑھایا ہے اور اپنے رجحان ساز تخلیقی کام سے
ادب کو عصری آگہی کو پروان چڑھانے کے لیے ایک اہم وسیلے کی حیثیت سے متعارف
کرایاہے۔حلقہ ءارباب ذوق نے روایت اور جدت کے امتزاج سے فکر و خیال کی جو
شمع فروزاں کی اس کے اعجاز سے معاشرتی زندگی سے ظلمتوں کو کافور کرنے میں
مدد ملی ۔اردو ادب میں ترقی پسند تحریک نے 1936میں اپنے سفر کا آغاز
کیا۔ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو تخلیقی ادب منصہءشہود پر آیااس
میںمعاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں،فرد کے استحصال ،شقاوت آمیز نا انصافیوں
،سماجی زندگی کے نشیب و فراز اور فرد کے معاشی ،مادی اور دیگر مسائل کو بلا
واسطہ انداز میں توجہ کا مرکز بنا یا گیااور فرد کی زندگی کے مصائب وآلام
کے موضوعات پر براہ راست کھل کر لکھنے کی روش اپنائی۔ترقی پسند تحریک نے
ادب برائے زندگی کو اپنا نصب العین بنایا ۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے و
الی قباحتوں کے بارے میں ان کے اسلوب میں شدت اور غصے کا عنصر نمایاںرہا۔اس
کے بر عکس حلقہ ءارباب ذوق نے دھیمے لہجے کو اپناتے ہوئے عرض نوائے حیات کو
اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔ان کا خیال تھاکہ اپنے من کی غواصی کرنے سے فرد
کونہ صرف سراغ زندگی مل سکتا ہے بل کہ زندگی کے متعدد حقائق کے گہر ہائے آب
دار بھی اسے میسر آتے ہیں۔حلقہ ءارباب ذوق نے مغربی ادبیات کی خوشہ چینی کر
کے تعلیم و تہذیب کی سطح پر متعدد نئے عوامل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی
۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ مغربی تخلیق کاروں کے اسالیب سے مستعار اشارات اور
علامات کے استعمال سے حلقہءارباب ذوق سے وابستہ ادیبوں کی تخلیقات میں
بالعموم ابہام کا عنصر شامل ہو گیا ۔ترقی پسند تحریک نے ما فی الضمیر کے
اظہار و ابلاغ کے لیے جو طرز فغاں منتخب کی اس میں وقتی اور ہنگامی نوعیت
کے مسائل کا غلبہ رہا ۔اپنی اصلیت کے اعتبار سے ان کا انداز فکر زندگی کے
خارجی حقائق کا مظہر تھا۔اس کے برعکس حلقہءارباب ذوق سے وابستہ ادیبوں نے
داخلیت کی راہ اپنائی ان کی یہ خواہش تھی وہ بالواسطہ اندازمیں مسائل زیست
پر توجہ دیں ۔ان کے اسلوب میں سینے پر درد کی سل رکھ کر قاری سے ہم کلام
ہونے کی صورت سامنے آئی۔حلقہءارباب ذوق نے ادب برائے ادب کی اساس پر اپنے
افکار کا قصرعالی شان تعمیر کیا ۔حلقہءارباب ذوق کا اصرار تھا کہ محض مادی
مسائل کے گمبھیر اثرات پر انحصار کرکے ادیب اور تخلیق کار اظہار وابلاغ کے
تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔اس کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ روحانیت
اور داخلیت کو اولین ترجیح سمجھا جائے ۔اردو زبان ادب کے متعدد اہم تخلیق
کار جو ادب میں اپنا الگ انداز فکر اور اپنی منفر دسوچ رکھتے تھے وہ سب ادب
برائے ادب کے تصور کو شرف قبولیت بخش کر ایک متحد ہ لائحہ عمل اپنا نے کے
متمنی تھے ۔ان سب کو حلقہءارباب ذوق کی صور ت میں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر
آیا جس کے ذریعے وہ اپنی تخلیقات کو ذوق ادب اور جمالیات کے شعور سے متمتع
کر سکیں ۔اربن (Urban)نے اپنی کتاب ”زبان اور حقیقت “(Language and
reality) میں متخیلہ، وجدان اور اظہار کے معائر کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے
لکھا ہے:
”وجدان اور اظہار کے ایک دوسرے سے لازم طور پر مربوط ہونے کا جو عام اصول
ہے ،وہ جمالیاتی وجدان پر با لخصوص منطبق ہوتا ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ
ہیئت اور مضمون اور اسلوب ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیے جا سکتے ،یہ نہیں
کہ فن کار کو پہلے کسی چیز کا وجدان ہوتا ہے اور وہ پھر اس کے لیے مناسب
اسلوب اظہار ڈھونڈتا ہے بل کہ وہ اپنے اسلوب اظہار کے ذریعے چیزوں کا وجدان
حاصل کرتا ہے ۔وہ روابط جو زیادہ کلی اور مثالی ہوتے ہیں ،ان کا براہ راست
اظہار نہیں کیا جا سکتاعین اس وجہ سے ان کا اظہار وجدانی اسالیب سے کیا
جاتا ہے ۔“(10)
حلقہ ءارباب ذوق کو میرا جی کی صور ت میں ایک زیرک اور معاملہ فہم تخلیق
کار میسر آ گیا جس نے عالمی ادبیات کے مطالعہ کو افادیت کا حامل قرار
دیا۔میراجی نے انگریزی اور فرانسیسی ادب کا وسیع مطالعہ کیا اور ان زبانوں
کے ممتاز شعرا کی تخلیقات سے استفادہ کیا ۔میراجی نے فرانسیسی شعرا بودلئیر
(Charles Baudlier )اور میلارمے (Mallarme)کے علاوہ امریکہ کے ممتاز شاعر
اور ادیب ایڈگر ایلن پو(Edgar Allan Poe)کے اسلوب پر جو تجزیاتی مضامین
تحریر کیے انھیں قارئین ادب نے بہت سراہا ۔میراجی نے حلقہءارباب ذوق کو
تخلیق ادب کے حوالے سے عالمی ادبیات کے معائر کواپنانے کی راہ دکھائی تاکہ
عصری آگہی کوپروان چڑھایا جا سکے ۔ان کا استدلا یہ تھا کہ عالمی ادبیات کے
وسیع مطالعے سے ایک تخلیق کار اس ذوق سلیم سے متمتع ہوتا ہے جو تخلیق فن کے
لیے ہمیشہ نا گزیر خیا ل کیا جاتا ہے ۔اردو زبان و ادب کے ساتھ میراجی کی
والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے اعجاز سے حلقہ ءارباب ذوق کو مقبول بنانے
میں مدد ملی ۔تخلیق ادب کے لیے میرا جی نے ہمیشہ وسعت نظر اور وسیع مطالعہ
کی ضرورت پر زور دیا ۔وہ تخلیق ادب کو سیاسی نظریات کا آلہ ءکار بنانے کے
بجائے تزکیہ نفس کی ایک صورت سمجھتے تھے ۔میراجی نے ترجمہ نگاری ،کالم
نگاری تنقید ،صحافت اور ابلاغیات جیسے اہم ترین شعبوں میں حلقہءارباب ذوق
کے لیے ایک واضح نصب العین کا تعین کیا ۔میراجی نے حال اور ماضی پر اپنی
توجہ مرکوز کر دی ۔جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے اس کے بارے میں وہ کسی تشو یش
میں مبتلا نہیں ہوتے ۔انھوں نے حلقہءارباب ذوق کو ایک ٹھوس اور موثر لائحہ
ءعمل کے تحت فعال کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ادب سے انھیں یہ توقع تھی کے
اس کے ذریعے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت پر توجہ دی جائے تاکہ نوجوان
نسل کو تہذیبی و ثقافتی میراث کے بارے حقیقی شعور مل سکے اور اس طرح ان کے
لیے تزکیہ نفس ،تعلیم ،تفریح اور تربیت کے مواقع پیدا کیے جائیں ۔حلقہءارباب
ذوق نے تخلیق کاروں کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے پر مائل کیا تاکہ وہ اپنے
حقوق کے حصول کے لیے مثبت جد و جہد کر سکیں ۔حلقہءارباب ذوق نے تنقید ادب
میں خلوص ،دیانت ،توازن اور بے تکلفی پر مبنی فضا پید ا کرنے کے لیے اہم
خدمات انجام دیں ۔اردو صحافت کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی
ہے حلقہءارباب ذوق نے صحافت کو ایک مناسب ماحول فراہم کرنے کی اہمیت پر
توجہ دی ۔میراجی کی شاعری میں ان کے تخلیقی تجربات کا واضح پرتو دکھائی
دیتا ہے :ذیل میں میرا جی کی شاعری کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:
لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا
ہاتھ آلودہ ہے ،نم دار ہے ،دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو نہیں پو نچھے تھے (لب جوئبار )
آپ ہی آپ کوئی بات کبھی بن نہ سکی
اب سمجھتا ہوں کہ یوں بات نہیں بنتی ہے
آپ ہی آپ میں شرمندہ ہوا کرتا ہوں (رخصت )
ہنسو گے تو ساتھ ہنسے گی دنیا،بیٹھ اکیلے رونا ہو گا
چپکے چپکے بہا کر آنسو دل کے دکھ کو دھونا ہوگا
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے
نگری نگری پھر امسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
حلقہءارباب ذوق نے نو عمر تخلیق کاروں کی تربیت اسی انداز میں کی جیسے ہو
نہار بچہ آغوش مادر میں سکون و راحت کی کیفیت سے سرشار ہو کر نشوو نما کے
مدارج طے کرتا چلا جاتا ہے ۔ذیل میں ان اہم شعرا کے منتخب اشعار پیش کیے
جاتے ہیں جن کے اسلوب پر حلقہءارباب ذوق کے اثرات کا واضح پرتو دکھائی دیتا
ہے :۔ان کے اسلوب میں زندگی کی تمام حرکت و حرارت جس آب و تاب کے ساتھ جلوہ
گر ہے ،اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے تخلیق فن کے سوتے زندگی کے
مسائل ہی سے پھوٹتے ہیں۔
سید عابد علی عابد
واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
یہی بندے کی خطا ہے مجھے معلوم نہ تھا
شب ہجراں کی درازی سے پریشاں تھا میں
یہ تیری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا
ن۔م ۔راشد
تھا عجیب راشد بے نوا وہ سرور دولت بے بہا
ہوا ہم پہ جب گزر جنوں پڑی ہم پہ جب نظر جنوں
انجم رومانی
یکتائے روزگار گراں جانیوں میں ہم
اپنی مثال آپ تن آسانیوں میں ہم
ضیا جالندھری
کہاں کا صبر سو سو بار دیوانوں کے دل ٹوٹے
شکست دل کے خدشے ہی سے دیوانوں کے دل ٹوٹے
باقی صدیقی
کیا دور جہاں سے ڈر گئے ہم
کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم
وہ دور بھی زندگی میں آئے
محسوس ہوا کہ مر گئے ہم
مختار صدیقی
غنچے دل تنگ قباسے تیری
پھول لب بستہ حیا سے تیری
اس زمانے میں وفا کی باتیں
خیر مانگیں گے خدا سے تیری
مجید امجد
اور اب یہ کہتا ہوں ،یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیب زینہءایام پر عصا رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا مری کوشش میں انتہا رکھتا
سجا کے ہونٹوں پہ اک جشن زہر خند چلو
چھپا کے سینے میں صد موج آہ و نالہ پھرو
تابش دہلوی
بے تابی ءدل تسکین طلب
طوفان سے ساحل یاد آیا
ہر خواب جنوں کی اک تعبیر
پھر خاک بہ سر یاد آیا
الطاف گوہر
ڈوب گئیں سب یادیں ا س کی ،رنگ کھلے اور شام ہوئی
دل نے جو بھی بزم سجائی،بکھری اور ناکام ہوئی
جسم و جاں میں درد بسا ہے ،درد ہی جسم و جان بنا
برسوں رہے ہم جس کوشش میں آخر کار تمام ہوئی
تابش صدیقی
دل دھڑکنے کا سبب کیا کہیے
اور پھر آخر شب کیا کہیے
ہم نے کیا کچھ نہ جہاں میں دیکھا
دل کی وحشت کے سبب کیا کہیے
شہرت بخاری
نقد ترتیب چمن ہے ہم تک
قصہ ءدار و رسن ہے ہم تک
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ زندگی کی بو قلمونی ،رنگینی ،ندرت اور رعنائی کا
احساس صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دل زندہ کو کسی نہ کسی تصور حیات سے
وابستہ کر لیاجائے ۔اسی طرح تخلیق کے لیے بھی کسی واضح نصب العین ،تصور
حیات یا ادبی مسلک کی احتیاج رہتی ہے ۔ایک زیرک تخلیق کار کے لیے اپنے لیے
منتخب کردہ نظریہ پر وفاداری بہ شرط استوری کواصل ایمان سمجھنا ہی اس کی
کامیابی کی دلیل ہے ۔فنون لطیفہ کا کوئی بھی شعبہ اس وقت تک ترقی کے مدارج
طے نہیں کر سکتا جب تک اس کی اساس واضح نصب العین ،نظریہ یا تصور حیات پر
استوار نہ ہو۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہر عظیم تخلیق کار کی عظمت کے پس
پردہ اس کی وہ استقامت کار فرما ہوتی ہے جو اس نے اپنے تصور ات کے ساتھ روا
رکھی ۔یہ ارفع تصورات اور نظریات ہی ہوتے ہیں جو مس خام کو کندن بنانے کی
صلاحیت رکھتے ہیں ۔ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل
بہ تخلیق ہوتا ہے تو تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کر رگ سنگ میں اترنے
کی مقدور بھر سعی کرتا ہے ۔زندگی کے بارے میں اس کے مشاہدات ،تجربات اور
احساسات رفتہ رفتہ اس کے مزاج اور شخصیت کے امتیازی اوصاف بن جاتے ہیں ۔سچ
تو یہ ہے کہ تخلیق کار جس خلوص اور درمندی کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو
صفحہءقرطاس پر منتقل کرتا ہے وہ اس کے انھی لا شعوری محرکات کے آئینہ دار
ہوتے ہیںجن کے سوتے زندگی کے بارے میں اس کے تصورات سے پھوٹتے ہیں ۔
اکیسویں صدی کی دستک یہ ہے کہ جہد للبقا کے موجودہ زمانے میںجمہوری اقدار و
روایات کی پاسداری کی جائے ۔حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھاجائے اور زندگی
کے ہر شعبے میں صبر و تحمل ،برداشت اور روادی کو شعار بنایا جائے ۔انسانیت
کے وقار اور سر بلندی کو ہر حال میں مقدم سمجھا جائے ۔زندگی کے ہر شعبے میں
اختلاف رائے کے امکانات بہ ہر حال موجود ہوتے ہیں،ادب بھی اس سے مثتثنیٰ
نہیں۔ادبی اقدار ،روایات اور نظریات میں تغیر و تبدل تاریخ کے مسلسل عمل کا
مظہر ہے ۔زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو پروان چڑھانا ادیب کا نصب
العین ہونا چاہیے ۔اس نصب العین کے حصول کے لیے ہر ادیب کو اپنے نظریات پر
عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے ۔ادب کے شعبے میں نظریات کا تنوع
اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ہر عہد میں ادیبوں نے افکار تازہ کی مشعل فرزاں
رکھی اور جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنانے کی سعی میں اپنی
صلاحیتیں صرف کیں ۔اس طرز عمل نے ادب میں نظریات و تصورات کے تنوع کی اہمیت
کو اجاگر کیا ۔تاریخ ادب کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے عالمی ادب میں کئی
نظریات اور تحریکیں اٹھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اپنی چکا چوند کھو بیٹھیں
اور پھر تاریخ کے طوماروں میں دب کر رہ گئیں۔اس لیے ادب میں صحت مند مسابقت
اور مثبت اقدار کے فروغ کے لیے نظریات کا تنوع نا گزیر ہے ۔ایسے ادب پارے
جو اپنے وجود کا اثبات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ لوح جہاں پر اپنا دوام
ثبت کر دیتے ہیں۔وقت ہر قسم کے نظریات اور تحریکوں کے بارے میں خود اپنا
فیصلہ صادر کر دیتا ہے ۔سیل زماں کے تھپیڑے فرسودہ نظریات کو بہا لے جاتے
ہیں ۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
مآخذ
(1)تابش صدیقی :” حلقہ ءارباب ذوق “،مضمون مشمولہ ماہنامہ نورنگ ،کراچی
سالنامہ ،جنوری ۔مارچ ،1953 ،صفحہ 27۔
(2) ایضاً ،صفحہ27۔
(3) ایضاً ،صفحہ 27۔
(4)محمد باقر ڈاکٹر :یاداشت،حلقہ ءارباب ذوق ،مخزن ،لاہور ،اگست 1950 ،
صفحہ 95۔
(5)تابش صدیقی:حلقہ ءارباب ذوق ، ،صفحہ 27۔
( 6)یونس جاوید :حلقہ ءارباب ذوق ،مجلس ترقی ادب ،لاہور ، صفحہ 35
(7)تابش صدیقی :حلقہءارباب ذوق ، ،صفحہ 27۔
(8 ایضاً صفحہ 28۔
(9) ایضاً صفحہ 43۔
(10) بہ حوالہ محمد ہادی حسین :شاعری اورتخیل ،مجلس ترقی ادب ،لاہور ،1966،
صفحہ 147۔ |