ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

بات زیادہ پرانی نہیں۔ چند عشرے ہی تو گزرے ہیں۔ کبھی یہ شہر حکومت کی مَسند تھا۔ تب سب کچھ توازن میں اور اعتدال پر تھا۔ اجتماعی طرز عمل میں ٹھہراؤ اور انفرادی رویّوں میں سنجیدگی تھی۔ سمندر کے کنارے بسے ہوئے شہروں کو ڈوبنے سے بچنے کے لیے حد میں رہنا پڑتا ہے۔ کراچی بھی حد میں رہتا تھا اور اِس کے متنوع مکین بھی اپنی حدود پہچانتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دِل خوف سے آشنا نہ ہوئے تھے۔ محبتیں جولانی پر تھیں۔ ایک دوسرے کو قبول کرنے کا جذبہ توانا تھا۔ زبان، رنگ، نسل، ثقافت، مسلک، مذہب یا کسی اور بنیاد پر اجنبیت نے اخلاص اور فراخ دِلی کی راہ میں دیوار بننا نہیں سیکھا تھا۔ طبقاتی فرق بھی تھا مگر خُوں خوار نہ تھا۔

ایسا نہیں ہے کہ تیس پینتیس سال پہلے کا کراچی جنت تھا۔ ہاں، جنت نشان ضرور تھا۔ لوگوں میں خرابیاں تو تھیں مگر اُنہیں دور کرنے کا شعور و ارادہ بھی تھا۔ گناہ کرکے اُس پر فخر کرنے کو فیشن کا درجہ حاصل نہ ہوا تھا۔ اگر گناہ سرزد ہوتے تھے تو ساتھ ہی ضمیر کی خلش اور چُبھن بھی برقرار تھی۔ غلط کام کر گزرنے والے نادِم بھی ہو لیتے تھے کہ غلطی کا اِعادہ نہ ہو۔

پھر یہ ہوا کہ ملک بھر میں بہتر امکانات کے سُکڑاؤ سے کراچی بے ہنگم طور پر پھیلنے لگا۔ شہر کا صرف جغرافیہ ہی نہیں بدلا، معاشرتی ڈھانچا بھی کچھ کا کچھ ہوتا چلا گیا۔ شہروں کو پھیلنا ضرور چاہیے کہ یہ فِطری امر ہے مگر کوئی ڈھب تو ہو، کوئی سلیقہ تو دکھائی دے۔ جب شہروں اور معاشروں کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو صرف آبادی اور جغرافیہ نہیں بڑھتے، آبادی کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ اِس کُلیے سے کراچی بھی مستثنٰی تھا نہ ہے۔

شہر بھی ذی تنفس اور ذی روح ہوتے ہیں۔ اِنہیں مویشیوں کی طرح آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا کہ جہاں چاہیں، جو چاہیں چَرتے پھریں۔ پالتو جانوروں کے معمولات پر بھی تھوڑی بہت نظر رکھی جاتی ہے مگر سِتم دیکھیے کہ ایک بڑے اور اچھے خاصے جیتے جاگتے شہر کا پَٹّا کھول دیا گیا ہے اور اِس سے کِسی کو بظاہر کچھ غرض نہیں کہ وہ کِس طرف کو لپکتا ہے، کِسے کاٹ کھاتا ہے۔

ہر چیز ایک خاص مدت کے بعد تجدید مانگتی ہے۔ ہم اپنے گھروں کو بھی ہر چار چھ سال بعد تزئین نو کے مرحلے سے گزارتے ہیں۔ اور ہم خود روزانہ تجدید کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ گاڑی بھی صرف ایندھن سے نہیں چلتی، وقتاً فوقتاً نگہداشت لازم ہوتی ہے۔ ایندھن کی فراہمی اور معقول وقفے سے نگہداشت یعنی مینٹیننس ہی کافی نہیں۔ ڈرائیور بھی ہوش مند ہونا چاہیے۔ کراچی کے کیس میں شاید یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ صرف ایندھن فراہم کرتے رہنا کافی ہوگا۔ تلخ تر حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے عاقبت نا اندیش تو ایندھن کی فراہمی بھی ضروری نہیں سمجھتے!

طیاروں میں آٹو پائلٹ سسٹم شاید بعد میں آیا ہوگا، کراچی بہت پہلے سے آٹو سسٹم پر ہے۔ شہر کو چلایا نہیں جارہا، چلنے دیا جارہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور کماؤ شہر کو یوں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے جیسے اِس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا قدرت نے ہم پر فرض کیا ہی نہیں۔ جس طرح جنگل میں درندے معصوم چرندوں کو گھیر کر بھنبھوڑتے ہیں بالکل اُسی طرح کراچی کو بھی مفاد پرستوں کی ٹولیوں نے گھیر کر اپنے مفادات کے دانت اِس کے نازک جسم میں گاڑ رکھے ہیں۔ اور سادگی کی انتہا دیکھیے کہ ہم گھبرا کر اِس صورتِ حال کے تدارک کے لیے اُنہی کی طرف دیکھتے ہیں جو اِن درندوں کے ماسٹر مائند اور پیٹرن انچیف ہیں!

کراچی کوئی منفرد مثال نہیں۔ کسی بھی ملک میں اگر صرف ایک بڑا اور ساحلی شہر ہو تو اُس پر مُلکی معیشت کا مدار اور انفرادی معاشی امکانات کا دباؤ ہوتا ہے۔ ملک بھر سے لوگ تاب ناک مستقبل کی تلاش میں اُسی کا رُخ کرتے ہیں۔ کراچی کا بھی یہی کیس ہے۔ مگر صاحب! یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ایک شہر میں کئی شہروں کو بسنے دیا جائے اور یہ ذیلی شہر بھی باہم ایسے گڈمڈ ہوں کہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھٹکنے اور ایک دوسرے کی پَسلیوں میں چُبھنے لگیں؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن دارالحکومت برلن کو دیوار کھڑی کرکے دو لخت کردیا گیا تھا۔ کراچی میں ایسی کوئی دیوار تو نہیں اُٹھائی گئی مگر ہاں دِلوں میں دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ شہر میں کہنے کو صرف ایک کٹی پہاڑی ہے مگر لاکھوں دِل ہیں کہ جنہیں حالات کی خرابی نے بُری طرح چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سڑکیں تو چوڑی ہوگئیں مگر ظرف سُکڑ کر فٹ پاتھ سے بھی چھوٹا رہ گیا۔ زبان، نسل، ثقافت، مسلک یا مذہب کی بنیاد پر لوگوں نے الگ بستیاں قائم کرلی ہیں۔ دُنیا بھر میں ghettos کا سُنتے آئے تھے، اُنہیں دیکھ بھی لیا۔ خود فریبی کی انتہا یہ ہے کہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ سے یکسر بیگانی بستیوں کے مجموعے کو ہم میگا سِٹی کہہ کر خوش ہو رہے ہیں!
شہر جل رہا ہے مگر اِس کے مکینوں کو بظاہر پروا نہیں۔ اب تک اپنے پرائے کی بحث ہو رہی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک سے آئے ہوئے جو لوگ چھ سات عشروں سے شہر میں آباد ہیں اور اپنے مُردے یہیں دفناتے ہیں وہ بھی مائی کولاچی کی نگری کو گلے لگانے کے روادار نہں۔ شہر سے کمانے کی سب کو پڑی ہے مگر اِس شہر کو اپنانے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ معاشرت کے نام پر چھچھورپن اور معیشت کے نام پر مکر و فریب چلن بن گیا ہے۔ علم کو زندہ گاڑا جاچکا ہے۔ عمل کی لاش بے گور و کفن پڑی ہے۔ دانش کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ نِیّتوں میں اخلاص، رویّوں میں تحمل نہیں۔ قدم قدم بے حِسی، گام گام بے دِلی۔ ایک بیزاری ہے کہ شہر پر محیط اور شہریوں پر مسلّط ہے۔ فضا مسموم بھی ہے، مغموم بھی۔

قتل و غارت کی وباءنے شہر میں خیمہ گاڑ رکھا ہے۔ جنہیں اِس وباءکے تدارک پر مامور کیا گیا ہے وہ اپنی تجوریاں بھرنے کے سفّاک مرض میں مبتلا ہیں۔ لوگ بلا سبب موت کے گھاٹ اُتارے جارہے ہیں۔ جو قاتلوں کی زد میں آنے سے محفوظ رہتے ہیں وہ ہلاکتوں پر پَل بھر کو تاسف کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے معمولات میں گم ہو جاتے ہیں۔ مصروف زندگی کا یہی سب سے بڑا ”مُعجزہ“ ہے۔ شہر اِتنا پھیل گیا ہے کہ ایک علاقے کے حالات دوسرے علاقوں پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی ایک علاقہ بھی اپنے سنگین واقعات کے تمام اثرات قبول نہیں کرتا، یعنی زندگی کا سرکس اپنے ہر کرتب اور تماشے کے ساتھ جاری رہتا ہے۔

لوگ اِس بات پر نازاں ہیں کہ سب کچھ جھیل کر بھی کراچی زندہ ہے، سانس لے رہا ہے اور متحرک ہے۔ اچھی بات ہے۔ مگر اِسے کیا کہا جائے؟ زندہ دِلی یا بے حِسی؟ سب کچھ برداشت کرکے زندہ رہنا اچھا وصف ہے، شجاعت کا نشان ہے مگر سب کچھ دیکھتے ہوئے آنکھیں بند کرکے اپنے کام سے کام رکھنا کون سے درجے کی زندگی ہے؟ سب کے دُکھ محسوس کرتے ہوئے پورے عزم کے ساتھ زندگی بسر کرنے اور دوسروں کا درد محسوس کرنے سے یکسر گریز کرتے ہوئے محض جیے جانے میں تو بہت فرق ہے! پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص یہ فرق بُھلا دیا گیا ہے۔

حکمرانوں اور ذمہ داروں کو رحم سے کچھ غرض ہے نہ کرم سے۔ شاید اِسی لیے کراچی جیسے وسیع و عریض اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے شہر کو شر پسندوں اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اِتنے بڑے شہر میں امن ہے نہ امان۔ ہاں، امن و امان کی صورتِ حال برقرار و توانا ہے۔

تین عشروں کے دوران کراچی کے مکینوں نے سیلف بیلینسنگ کا فن سیکھ لیا ہے۔ لوگ خود کو حالات کے مطابق بدلتے جاتے ہیں۔ شہر نے کئی رنگ بدلے ہیں اور اِس کے مکین ہر رنگ میں رنگتے گئے ہیں۔ زندہ رہنے کا عمل تو خیر جاری ہے مگر زندگی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

جس کسی کے دل میں کراچی سمیت پورے پاکستان کا درد ہو وہ اتنا تو ضرور سوچے گا کہ اگر اب بھی ہوش کے ناخن لینے کا وقت نہیں آیا ہے تو پھر کب آئے گا؟
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524450 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More