پُرانے شکاری اور نِت نئے جال

مملکتِ خدا داد میں سلطنتِ زرداری اب اختتامی مدت کی طرف رواں دواں ہے اور قریب ہے کہ کیئر ٹیکر سیٹ اپ اپنی مختصر مدت کے لئے اقتدار کے مزے لوٹنے کی تیاری میں ہو۔ اختتام ہوتے دور میں جمہوریت ، انسانی حقوق، احترامِ آدمیت اور درخشاں تہذیبی اقدار تابندہ علامت نہیں رہی ، جس کی دانش گاہوں سے پھوٹتی روشن خیالی دنیا بھر کے در و دیوار کو منور نہیں کر سکی، اور جس کے شہنشاہِ عالم پناہ نے سوائے مفاہمتی سیاست کے ملکِ عالم کو تہذیب و تمدن کا سلیقہ سکھانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیا۔ امن و امان غارت ہوگیا، سکون ناپید ہوگیا، روزگار مہیا نہیں کیا سکا، مہنگائی قابو سے باہر ہی ہے، ڈالر 100 روپیہ تک پہنچا دیا گیا، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے تمام دعوے ٰ دھرے رہ گئے، لاشیں مسلسل گرائی جا رہی ہیں جس کی وجہ کر بے گناہوں کے خون سے ملک کی زمین سرخ ہو رہی ہے۔ملک کے نوجوان ہنر مندوں کی ہنر مندی کو زنگ آلود کر دیا گیا ہے۔ دشمن ملک کے طول و عرض میں سَر اٹھائے کھڑا ہے، ایسے میں احتجاج کی راہ میں شہنشاہِ عالم کے سپہ سالار بھی عوام پر واٹر کینن، آنسو گیس سے استقبال کیا کرتے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں Bad Governanceکا راج ہے۔ہر روز بیان دیا جاتا ہے کہ امن و امان کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا مگر وہ صرف بیان کی حد تک ہی محدود رہتا ہے ۔ اگر حکومت جرائم پیشہ افراد کو گرفتار بھی کر لے تو عدم ثبوت کی بناءپر عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اور یہ سب تماشہ آج تک عوام کے ساتھ جاری و ساری ہے۔کل ہی کوئٹہ شہر میں ایک بار پھر دھماکے میں لگ بھگ90افراد موت کی وادی میں چلے گئے اور200سے زائد زخمی ہیں۔ خدا اس ملک کے حالات پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے۔

دوسری طرف میڈیا کہتی ہے کہ ایک گروپ خاموش معاہدے کے تحت اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ ویسے تو عوام ان تمام کھلاڑیوں کو آزما چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے انتخابات میں وہ واقعی تبدیلی چاہتے ہیں یا اپنے اوپر پھر سے آزمائے ہوئے سیاسی کھلاڑیوں کو مسلط کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ تو لازمی امر ہے کہ عوام نے ہی کرنا ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آبادی اتنی زیادہ نہیں مگر سیاسی جماعتوں کی اس قدر بہتات ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشانات کم پڑ گئے ہیں۔ کئی کئی جماعتیں ایک ہی نشان مانگ رہی ہیں۔ہر نئی جماعت ملک کے سیدھے سادھے عوام کو نِت نئے خواب دکھا نے میں محو ہیں، میں آگیا تو ایسا ہو جائے گا ، ہم آگئے تو ویسا کر دیں گے۔ کیا یہ سب اتنا آسان امر ہے۔ یہ سب کچھ اقتدار سے دوری کے وقت تک اچھا بیان ثابت ہو سکتا ہے وگرنہ جب اقتدار کی کرسی میں بیٹھیں گے اور معیشت سمیت ہر معاملہ کو دیکھیں گے تو عوام سے کئے گئے تمام وعدے خام خیالی ہی ہو جائیں گے کیونکہ اُس وقت شاید کسی کے لئے وعدوں کی تکمیل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن یہاں میں ایک جملہ ضرور کہوں گا کہ ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا ، دلجمعی اور لگن ہو تو جلدی نہ سہی کچھ عرصے بعد ضرور تمام مسئلوں کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
خِرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

ستم ظریفی یہ ہے کہ کس کس اور کیسے کیسے کرپشن کو بندہ روئے۔ بڑے کرپشن کی بات تو چھوڑیں میں اپنے ہی مضمون کا ذکر کئے دیتا ہوں کہ میرا مضمون ایک حاجی صاحب نے اپنے نام سے اخبار میں چھپوا دیا کیا یہ کرپشن کی ایک قسم نہیں ہے۔ اخبار کے دفتر رابطہ کرنے پر انہوں نے بجائے اپنی اس فاش غلطی پر شرمندہ ہونے کے رسمی جملہ کہہ دیا کہ غلطی سے چھپ گیا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ورتِ حیرت کا پہاڑ راقم پر ٹوٹ پڑا کہ اب تو الفاظوں کو بھی چوری کر لیا جاتا ہے ، یہ کیسی ترقی ہمارے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے۔ صحافی قلم اور الفاظوں کا علمبردار ہوتا ہے تو کیا ان کے ساتھ بھی ایسا ہونا چاہیئے جو کالم کے ذریعے اربابِ اقتدار کو صرف آئینہ دکھانے کی جستجو کرتا ہے اس کے علاوہ تو اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ ”شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات“

حکومت کا یہ اعلان تو واقعی داد طلب ہے کہ انتخابات وقتِ مقررہ پر ہونگے اور شفاف ہونگے۔ خدا کرے کہ خوش اسلوبی سے یہ انتخابات اپنے انجام کو پہنچے۔ ویسے سیاسی جماعتوں کو اب یہ سمجھ اور جان لینا چاہیئے کہ اب پرانے ووٹر کے ساتھ ساتھ جو ہماری نئی پود جوان ہوئی ہے اور وہ بھی ووٹر کی فہرست میں شامل ہیں انہیں اب وعدوں اور کھلونوں سے بہلانا ناممکن ہے۔ اس لئے جو بھی وعدے کئے جائیں خالصتاً عوامی ہونے چاہئیں اور اسے پورا کرنے کا فن بھی آئندہ ارباب اقتدار کو آنا چاہیئے ورنہ پھر یہ نئی نسل کے جوان پود آپ کے اقتدار کے جہاز میں سوراخ کرنے کا فن سیکھنے پر مجبور ہونگے۔پھر آپ کو حکومت کی نیّا پار لگانے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔کیونکہ عوام لٹیروں اور ٹھگوں سے عاجز آ چکے ہیں اور قریب ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے تمام کرپٹ افراد کو چاہے وہ نئے ہوں یا پرانے آﺅٹ کلاس کرنے والے ہیں۔

ہمارے ملک کے لیڈران، اعلیٰ افسران آئے دن کسی نہ کسی بد عنوانی کے معاملے میں ملوث قرار پائے جا رہے ہیں ایک کے بعد ایک اہم نام بدعنوانی کے خانے میں داخل ہو جاتا ہے اور ملک کے عوام ہکّا بکّا رہ جاتے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر ہمارے ملک کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ اور پھر اپنی رائے اس طرح قائم کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں چپڑاسی لیکر ملک کے وزیراعظم تک کسی نہ کسی صورت سے بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جس کا ثبوت عدالتی فیصلے ہیں۔اس ملک میں حج پر کرپشن ہو رہا ہو تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ! اور اس کے بعد بھی متعدد بدعنوانی کے کیسیز کھلتے ہی جا رہے ہیں۔ کئی معاملو ں میں میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی کام کروانا مقصود ہو تو یا تو سفارش آپ کے پاس ہونا چاہیئے ورنہ پیسہ تو لازمی ہونا چاہیئے کیونکہ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی اور ذرائع سے آپ کا کام ہونے والا نہیں۔لہٰذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جو بھی لوگ اقتدار میں آنے والے ہیں انہیں اس مسئلے کو ختم کرنے میں کافی دقت کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ بدعنوان کریسی بہت مضبوط نظر آ رہی ہے۔

درج بالا حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عوام کی ترجمانی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ ایسے تمام واقعات جمہوریت کو شرمسار کرنے کے لئے کافی ہیں، ایسے میں جمہوریت پسندی کا نعرہ ایک چھلاوہ نظر آتا ہے ، ویسے تو جمہوریت ہمارے خون میں شامل نہیں اور نہ ہی ہمارے خمیر میں شامل ہے اس لئے اس ملک کو حقیقی جمہوریہ بنانے کے لئے مثبت فکر کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسیاں اور قوانین، آسانیاں پیدا کرنے کیلئے بنائے جائیں نہ کہ دشواریاں پیدا کرنے کے لئے۔ قانون کا احترام دلوں میں اور جمہوری قدروں کو فروغ دیا جائے تبھی ان اداروں کا وقار پھر سے بحال ہو سکے گا ورنہ جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ بے معنی ثابت ہوگا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کا تصور ایک کواب ہی ہوگا اور تعصب کا عفریت نہ جانے کب تک ملک کے عوام کا خون پیتے رہیں گے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ ہم پر، ہمارے ملک پر اپنا خاص فضل و کرم فرمائے۔ آمین
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.