12 فٹ گہرا ،6 فٹ چوڑا اور 48 گھنٹے

ملکی تاریخ کا سب سے بڑا خودکش دہماکہ کوئٹہ ہزاہ ٹاﺅن میں ہوا اور 173 زخمیوں کےساتھ 80کے قریب معصوم عوام دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ایک ماہ قبل بھی ہزارہ برادری نے چار دن تک لاشوں کےساتھ دھرنا دیکر ارباب اختیار کو بھنگ کے نشے سے اٹھانے کی کوشش کی تھی تو اس کے نتیجے میں صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا ۔ ہزارہ برادری جس جذباتی کیفیت کا شکار تھے ، انھیں ٹھنڈا کرنے کےلئے انتہائی اقدام کی ضرورت تھی لیکن ، صرف گورنر راج لگانے پر اکتفا کیا گیا ، جبکہ بلوچستان حکومت میں شامل حکمران جماعتوں نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، صوبے میں گورنر راج لگانے کےخلاف احتجاج کیا ۔ گورنربلوچستان کے اس بیان پر کہ "ادارے ، دہشت گردوں سے خوفزدہ ہیں یا وہ کاروائی نہیں کرنا چاہتے اور واقعات روکنے میں ناکامی کی ذمے دار ایجنسیاں ہیں۔"،بلوچستان میں گورنر راج کے مخالفوں کو وجہ جواز بھی فراہم کردی ہے کہ حکومت کا سابقہ فیصلہ درست نہیں تھا ،تاہم ہزارہ برادری کیجانب سے دہشت گردوں کےخلاف آپریشن اور فوج کی حوالگی کا مظاہرہ ایک صائب مطالبہ تھا اگر اس پر عمل کیا جائے تو کم ازکم کوئٹہ میں دہشت گرد، آزادنہ کاروائیاں کرنے میں محتاط ہوجائیں گے۔گو کہ ،ایف سی کوئٹہ میں موجود ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایف سی کی موجودگی کے باوجود کوئٹہ، امن سے محروم ہے۔کوئٹہ میں واٹر ٹینکر میں لائے گئے ہزار کلو دہماکہ خیز مواد کے ساتھ خودکش حملے کے بعد موقع واردات پر 12فٹ گہرا اور 6فٹ چوڑا گھڑا بن گیا ، یہ کوئٹہ میں حکومتی رٹ کی شرمناک قبر کشائی ہے، جس میں بے گناہوں کے تحفظ میں ناکامی کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

بلوچستان پہلے ہی قوم پرستی کے رجحان کی وجہ سے خانہ جنگی میں الجھا ہوا ہے اور اس میں خطرناک طور پر فرقہ واریت کا رنگ ڈالنے کےلئے ہزارہ برادری کو نشانہ بنانے کا، نہ رکنے والاسلسلہ جاری ہے ۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ شیعہ برادری کو مذموم سازش کے تحت اس لئے بھی نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ ، بین الاقوامی طور پر انھیں مسلک کے اعتبار سے پاکستان میںا قلیتی فرقہ تصور کیا جاتا ہے ، اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم پہلے ہی ، اس مفروضے پر پاک فوج کے کردار کو بھی نشانہ بنا چکی ہے، گذشتہ دنوں عالمی انسانی حقوق کی تنظیم نے شیعہ برادری کو نشانہ بنائے جانے پربراہ راست اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا ، جس پر آئی ایس پی آر نے سختی کےساتھ تردید کرتے ہوئے اس الزام کو رد کیا کہ پاک فوج ،دہشت گردی کےخلاف سنجیدہ اور قیمتی جانوں کی قربانیاں بھی دے رہی ہیں۔بادی النظر یہی ظاہر ہورہا تھا کہ تنظیم کیجانب سے متنازعہ بیان کا مقصد پاک فوج کے کردار کو داغداربنانا اور فرقہ وارےت کو مزید ہوا دینا تھا۔ ایک طرف پاکستان اور پاک فوج کا امیج پوری دنیا میں داغدار بنایا جارہا ہے اور دوسری جانب ، فرقہ وارنہ دہشت گردی کی منظم واقعات تسلسل کےساتھ ہونے کی وجہ سے ثابت ہوجاتا ہے کہ کوئٹہ میں سوچی سمجھی سازش کے تحت دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ، کسی بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے شواہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ، ملک کے عسکری اداروں کو موردالزام بھی ، بین الاقوامی سازش کے تحت قرار دے رہی ہیں،اس موقع پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ پیدا کرنا بھی قیام امن کےلئے مشکلات پیدا کرتا ہے اور شیعہ برادری کیجانب سے ملک گیر احتجاج کے باعث صورتحال کا رخ دوسری جانب ہوجاتا ہے۔شیعہ تنظیموں کی جانب سے دوران احتجاج انتخابات کے انعقاد پر تحفظات بھی سوچ کو منتشر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پاکستان میں ہونے والے تمام دہشت گردی کے واقعات ، بین الاقوامی سازش کے تحت ، ملک دشمن عناصر پاکستان کے زرخرید غلاموں کو استعمال کرکے کرائے جا رہے ہیں ،حکومت کے پاس دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کا کوئی حل نہیں ہے ، حکومت ماسوائے ،شارٹ پالیسی کے تحت ، زیادہ سے زیادہ ، مالی معاونت کے اعلانات ، موبائل فون اور ڈبل سواری کی بندش کرنے کی لانگ ٹرم پالیسی بناکر ، دہشت گردوں کی سرکوبی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔کوئٹہ میں ہونے والے واقعات بہت ہولناک اور وحشت ناک ہیں ، جس کا اثر پورے پاکستان میں پڑتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلیج پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ، جس کے اثرات ملک کی بقا کےلئے حوصلہ افزا نہیں ہیں، گورنر راج کی ناکامی ایک مسلمہ حقیقت تھی ، کیونکہ یہ دہشت گردی کےخلاف کسی بھی قسم کی موثر کاروائی کے بجائے محض روایتی بے حسی کی علامت ہے۔ایک ماہ بعد نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آئےگا لیکن اس سے پہلے اس آئینی خلا کو پُر کرنا ہوگا کہ پہلے بلوچستان اسمبلی بحال ہو ،تاکہ متفقہ طور پر نگران سیٹ اپ آسکے ،۔چونکہ بلوچستان کے بلوچ آبادی والے ، مخصوص سورش زدہ علاقوں میں انتخابات کرانا ، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا ، اس لئے بلوچ باغی رہنماﺅں کو متوقع انتخابات میں شامل اور ہزارہ برادری میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کےلئے، انھیں نگران سیٹ اپ میں اہم کردار دینے کی ضرورت ہے ، جس سے بلوچستان قومی دھارے میں شامل ہوجائے ،اگر انھیں ملکی بھاگ دوڑ میں مستقبل کے لئے کوئی کردار نہیں دیا گیاتو نہ صرف بلوچستان قومی دھارے سے دور ہوجائے گا بلکہ شفاف انتخابات کا انعقاد مشکوک ہوجائےگا۔حالیہ فرقہ وارنہ دہشت گردی کے بلوچستان علیحدگی پسندوں اور ملک دشمن عناصر کے گٹھ جوڑ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ، مملکت کی جڑیں سوچی سمجھی سازش کے تحت کمزور کیں جارہی ہیں تاکہ ایک موقع ایسا آئے کہ عدم تحفظ کے پیش نظر مسلک کے اعتبار سے اقلیت قرار دئےے جانے والے فرقے ، بھی اپنے لئے ایک الگ خطے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوجائیں ، چونکہ پوری دنیا میں یہ تاثر پہلے ہی موجودہے کہ مخصوص فرقوں کو مسلک کے اعتبار سے نشانہ بنایا جارہا ہے ، اس لئے ان کے مطالبات کو بین الاقوامی قوتوں کی حمایت با آسانی حاصل ہونے میں بھی کوئی رکاﺅٹ نہیں ہوگی ،مناسب یہی ہے کہ48گھنٹے کے الٹی میٹم پورا ہونے سے قبل 12فٹ گہرے اور 6فٹ چوڑا گھڑے میںارباب اختیار ، حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی بے حسی کو دفن کردیں اوراس گھڑے میں ملکی یکجہتی کو دبانے سے گریز کریں۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 265792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.