مودی وزارت عظمی کے دعویدار

مودی وزارت عظمی کے دعویدار: بہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی

لابنگ یعنی کسی کے حق میں مہم چلانے کی ہر دور میں اہمیت رہی ہے۔ اس کا صدق و کذب سے کوئی تعلق نہیں ہوتااس کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ عوام ، حکومت ، معاشرہ اس چیز کو تسلیم کرلے جس کی مہم چلائی جارہی ہے۔ اسی زمرے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ کسی بات کو اتنی بار بولا جائے کہ یہ فضا میں گردش کرتی رہے اور معاشرہ میں کسی نہ کسی طور پر اس پر تذکرہ و تبصرہ ہوتی رہے۔مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر اچھالنے کی پیچھے یہی منطق کام کررہی ہے۔ ایک طرف قومی جمہوری اتحادی کی حیثیت سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بعدمیں طے کیا جائے گا لیکن دوسری طرف بی جے پی کی طرف سے نریندر مودی کا نام اچھال دیا جاتا ہے۔ پارٹی صدر پارٹی کے اپنے لیڈروں کو کسی کا نام نہ اچھالنے کی نصیحت کرتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ کسی نہ کسی موقع پر نریندر مودی کا نام اچھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ قومی جمہوری اتحاد کے سب سے بڑے حلیف جنتادل یونائٹیڈ کی طرف سے جب اعتراض کیا جاتا ہے تو فوراً صفائی پیش کی جاتی ہے کہ یہ پارٹی کا موقف نہیں بلکہ ان کی ذاتی رائے تھی۔ اس طرح کی باتیں کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مقصد نریندر مودی کے نام کو ہمیشہ سرخیوں میں رکھنا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ لوک سبھا کے عام انتخابات تک چلے گا۔ایسا نہیں ہے کہ نریندرمودی کو پڑھے لکھے لوگ پسند نہیں کرتے۔ مودی کے مداحوں میں ، بڑے بڑے تجارتی گھرانے، ڈاکٹرز، انجنےئرز،پروفیسرز،وکلاء، صحافی ادیب اور دیگر شعبہائے حیات سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ خصوصاً مڈل کلاس ہندؤں کے نریندر مودی ہیرو اور چہیتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ کو ہر بات چیت کی جگہ خواہ وہ بس میں ہو یا ٹرین میں، ہوائی جہاز میںیا چائے خانے میں ہر جگہ مودی کے قصیدہ خواں نظر آئیں گے۔ مودی کی مخالفت وہی کرتے ہیں جو نظریاتی طور پر بایاں محاذ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بایاں محاذ کے کارکنوں کا جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بی جے پی امیدوار کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ اس لئے نریندر مودی کے حق میں فضا سازگار کرنے کی پوری تیاری ہورہی ہے اور سارے بساط پچھادئے گئے ہیں۔ چالیں چلی جارہی ہیں۔ مہرے اور پیادے بھی تیار ہیں۔ راہل بمقابلہ نریندر مودی کا منظر پیش کرنے کے لئے میڈیا کی ٹولی نے کمر کس لی ہے۔ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کو استعمال کرنا خوب جانتی ہے اور ہر بری چیزکو اچھی چیز میں بدلنے کا ہنر اور بد کو بہتر میں تبدیل کرنے کاانہیں ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ نریندر مودی کے تئیں یوروپی یونین یا امریکی کانگریس کے ممبر میں جو تبدیلی آئی ہے یہ ایوینٹ منیجمنٹ، میڈیا اور لابنگ کا کمال ہے۔گجرات میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے جس کے لئے مودی کی ستائش کی جائے اس جگہ کوئی بھی ہوتا تو شاید گجرات زیادہ ترقی کرتااور ہندوستان سمیت باہری دنیامیں اس کی مقبولیت بھی زیادہ ہوتی کیوں کہ گجرات دسویں بارہویں صدی سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے۔وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نریندر مودی کے نام کا اچھالا جانااور یوروپی یونین کے ایک رکن کا گجرات الیکشن سے قبل نریندر مودی سے ملاقات کرنا اور الیکشن میں فتح کے بعد امریکی کانگریس کے رکن کا مودی کی قصیدہ خوانی کرنا اسی لابنگ کا حصہ ہے جو لوک سبھا کے عام انتخابات آتے آتے شدید ہوجائے گی اور شاید ایک بڑا طبقہ مودی کے رنگ میں رنگ جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گجرات میں نریندر مودی کو مسلسل تیسری بار اسمبلی انتخابات میں فتح نصیب ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے بی جے پی کی طرف سے انہیں وزیر اعظم کے عہدے کا مضبوط دعویدار سمجھا جاتاہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی میں ان کے علاوہ کئی امیدوار ہیں جو وزیر اعظم کے عہدے کے ریس میں شامل ہیں اور اس کی وجہ سے اس پارٹی میں رسہ کشی بھی تیز ہوگئی ہے۔ مودی کو میڈیا اور ایونٹ منیجمنٹ میں مہارت تامہ حاصل ہے اس لئے انہوں نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ جہاں انہیں بیرون ملک سے حمایت حاصل ہو وہیں اندرون ملک ان کے نام کو اچھالنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہ ہو۔ نریندر مودی کو پھالے اوماویگا کی شکل میں ایک نئی امریکی مسیحا مل گیا ہے جس کے سہارے نریندر مودی اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کریں گے۔ پھالے اوماویگا نے امریکی پارلیمنٹ میں نریندر مودی کی جم کر ستائش کی ہے۔ امریکی رکن پارلیمنٹ پھالیوماویگا نے ہاؤس آف ریپرزیٹیٹوز میں کہا کہ مودی کی غیر معمولی قیادت سے ان کی ریاست گجرات اب ہندوستان کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ لہذا، امریکی حکومت کو ان کے وژن اور خیالات کی کھل کرحمایت کرنی چاہئے۔اپنی تقریر کے دوران پھالے اوماویگا نے کہا، مجھے امید ہے کہ امریکہ گجرات کو نئی نظر سے دیکھے گا اور وزیر اعلی مودی کا ساتھ دے گا، کیونکہ وہ اپنی ریاست اور بیرونی ممالک میں روزگار پیدا کرکے لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے اور عالمی معیشت کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں۔ پھالے اوماویگا اکلوتے پارلیمنٹ ممبر ہیں جو 113 ویں کانگریس میں مودی کے کھلا حمایت کرنے کے لئے آگے آئے ہیں۔ ان سے پہلے 112 ویں کانگریس میں النائس سے ری پبلکن رکن پارلیمنٹ نے نریندر مودی کی ستائش کی تھی۔انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ فورڈ اورجنرل موٹرس جیسی کمپنیاں گجرات میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔پھالے اوماویگا کا یہ بیان گجرات فسادات پر خاموشی اختیار کرنے والے مودی کی طرف سے 2002 کے فسادات کو بدقسمتی کی بات تسلیم کرنے کے کچھ دن بعد آیا ہے۔مودی کے اسی بیان کے بعد یورپی یونین کے ملکوں نے مودی کو لے کر اپنا ایک دہائی پرانا بائیکاٹ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔گجرات فسادات کے بعد سے ناراض یورپی یونین بھی اب نریندر مودی کی حمایت میں کھڑا نظر آ رہے ہیں۔جرمن سفیر مائیکل سٹینر کی قیادت میں ایک وفد نے مودی کا ساتھ لنچ کر یورپی یونین کی ناراضگی ختم ہونے کا اشارہ دیاتھا۔ مودی نے 7 جنوری کو چانکیہ پوری میں یورپی یونین کے نمائندوں کے ساتھ لنچ کیا تھا۔ مودی نے سٹینر اور یورپی یونین سے وابستہ ممالک کے سفیروں کے ساتھ دو گھنٹے سے بھی زیادہ وقت گذراتھا۔ اس دوران انہوں نے گجرات فسادات سے متعلق سوالات کا جواب دئے تھے اور ہندوستان پراپنے خیالات اور منصوبوں پر بھی بات کی تھی۔یہ 11 سال کے بعد ان کی یوروپین وفد کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ اسی اجلاس کے ساتھ ہی یورپی یونین کی طرف سے جاری مودی کا بائیکاٹ بھی ختم ہو گیا۔یوروپی یونین نے برطانوی شہری کے گجرات کے 2002کے فسادات کے دوران قتل کی وجہ سے بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ نریندر مودی نے یورپی یونین کو یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ 2002 کے گجرات فسادات کی طرح مستقبل میں کبھی بھی وہ گجرات میں فساد نہیں ہونے دیں گے۔

اس کے باوجود نریندر مودی کی راہ آسان نہیں ہے۔ نریندر مودی کچھ بھی کرلیں۔ امریکہ اور یوروپی یونین کومنالیں لیکن گجرات قتل عام کبھی بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ ادھر جب وہ دہلی کے ایک کالج میں اپنے حق میں زمین ہموار کر رہے تھے اور ہندوستان کو سپیروں کا ملک نہیں بلکہ ماؤس کا ملک قرار دیکر نوجوانوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کر رہے تھے وہیں سپریم کورٹ نے مودی کو زبردست جھٹکا دیتے ہوئے انہیں کلین چٹ دینے کے ایس آئی ٹی کے فیصلے کے خلاف ذکیہ جعفری کی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے تمام ثبوت اور دستاویزات ذکیہ جعفری کو مہیا کرانے کا حکم صادر کردیا۔ گجرات کے گلبرگ سوسائٹی کیس میں سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کو پھٹکار لگاتے ہوئے ہدایات جاری کی کہ وہ گلبرگ سوسائٹی فساد معاملے کی رپورٹ مہیا کرائے۔ اپنے حکم میں عدالت نے کہا کہ ذکیہ جعفری 2002 میں گودھرا سانحہ کے بعد ہونے والے گلبرگ سوسائٹی فسادات کے سلسلے میں خصوصی تفتیشی ٹیم کے سربراہ کے تبصروں کے علاوہ پوری رپورٹ کی حقدار ہیں۔ احمد آباد عدالت نے ذکیہ جعفری کو تفتیش سے متعلق رپورٹ فراہم نہیں کرائی تھی۔ سپریم کورٹ نے احمد آباد کی عدالت کے دونوں حکم کو رد کرتے ہوئے انہیں رپورٹ سونپنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ کورٹ کے اس حکم کے بعد اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات اب درخواست گزارکو سونپی جائے گی۔ اس سے پہلے ذکیہ جعفری نے مطالبہ کیا تھا کہ اسے ایس آئی ٹی کی مکمل رپورٹ سونپی جائے جسے گجرات کی نچلی عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مودی کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں اور وزارت عظمی کی ان کی دعویداری کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ 2002 میں گجرات فسادات کی جانچ کرنے والے جسٹس ناناوتی مہتہ کمیشن کے سامنے دیے گئے اپنے بیان میں سنجیو بھٹ نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیاتھاکہ 27 فروری 2002 میں گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس کے ایس 6 ڈبے کو جلائے جانے کے بعد وزیر اعلی کی صدارت میں ہوئی پہلی ملاقات میں مودی نے پولس کو حکم دیا کہ ہندوؤں کو اپنے غصے کا اظہار کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے اور مسلمانوں کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ اس میٹنگ میں ریاست کے پولس ڈائریکٹر جنرل کے چکرورتی بھی موجود تھے۔بھٹ کا کہنا تھا کہ گودھرا واقعہ کے بعد شہر کے گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری اور دیگر لوگوں کوفسادیوں کی بھیڑ سے جان کا خطرہ ہونے کی اطلاع انہیں وقت پر مل گئی تھی اور 28 فروری 2002 کو وزیر اعلی کی صدارت میں ہوئے دوسرے اجلاس کے دوران انہوں نے مودی کو یہ اطلاع دے دی تھی۔ بھٹ نے کہا کہ مودی کے پاس تمام معلومات ہونے کے باوجود انہوں نے گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والوں کی جان کی حفاظت کے لئے کوئی حکم نہیں دیا۔یہ ایسا حکم ہے جس سے نریندر مودی کی امیدیں خاک میں ملتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

مودی کے بارے میں ہندوستانی میڈیا سب سے زیادہ شور مچاتا ہے کہ مودی اور ترقی لازم و ملزوم (وکاس پرُش) ہیں۔گجرات نے اتنی ترقی کی ہے کہ وہاں سبھی لوگ بہت ہی خوش حال ہیں۔ 2010۔2011 کے اقتصادی سروے میڈیا کے توسط سے بتائی گئی ترقی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے۔ انسانی ترقی کے اعداد و شمار میں کچھ حقائق اس طرح ہیں۔بھوک انڈیکس (2009) کو دیکھیں تو ملک میں سب سے اعلی درجے کی سترہ ریاستوں میں گجرات تیرہویں نمبر پرتھا۔ دو، عورتوں میں خون کی کمی کے لحاظ سے ہندوستان کے20 اہم ریاستوں میں گجرات کا نمبر پہلا ہے-تین، بچوں میں انیمیا یا خون کی کمی کے لحاظ سے گجرات کا نمبر سولہواں ہے۔ یعنی صرف چار ریاستوں کی حالت گجرات سے بدتر ہے۔ چار، بچوں میں مکمل غذا کی دستیابی کے اعتبار سے گجرات کا نمبر پندرہواں ہے۔ پانچ، صحت، تعلیم، دیہی ترقی پر خرچ کے معاملے میں گجرات کا نمبر پندرہواں ہے۔2009 کے اعداد و شمار کے مطابق کیرالا میں ہر ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں صرف بارہ مرتے ہیں، وہیں گجرات میں یہ تعداد پچاس ہے۔ اسی طرح 2009 میں زچگی کے دوران عورتوں کی موت کے واقعات کیرل کے مقابلے میں گجرات میں تین گنا زیادہ ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کے مطابق 2007۔08 میں کیرالہ میں داخل ہوئے بچوں (کی عمر چھ سے سولہ سال) میں کوئی بھی اسکول چھوڑ کر نہیں گیا، وہیں گجرات میں 59.11 فیصد بچے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔اس کے علاوہ گجرات حکومت اپنے شہریوں کو پینے کے قابل پانی مہیا کرانے میں ناکام رہی ہے۔ ریاست میں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس کے نتیجے میں صفائی ستھرائی کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔گاؤں میں پینسٹھ (65) فیصد خاندان کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لئے تقریبا ستر فیصد دیہاتوں میں کوئی انتظام نہیں ہے۔ اٹھہتر فیصد گاوں میں سیور کا انتظام نہیں ہے۔ اس طرح کی گندگی کا نتیجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں یرقان، ملیریا، ہیضہ، گردے کی پتھری، جلد وغیرہ کی بیماریاں عام ہیں. یہ کیسی ترقی ہے، کیسا نظام اور کیسا صنعتی ماحول ہے جس کی تعریف ٹاٹا سے لے کر برطانوی ہائی کمشنر، یوروپی یونین اور امریکی کانگریس کے رکن تک کر رہے ہیں۔پریس کونسل آف انڈیا چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے حالیہ مضمون میں گجرات کی نام نہاد ترقی پر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا تھا جس پر بی جے پی اور اس کے لیڈر چراغ پا ہیں۔ یہ کسی جمہوریت ہے جہاں سچ بولنے پر استعفی کامطالبہ کیا جاتا ہے۔ جسٹس کاٹجو نے مودی کی ترقی کے دعوے کو بھی مسترد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ گجرات میں 48 فیصد بچے مکمل غذائیت سے محروم ہیں اور بچے موت کی شرح بہت زیادہ ہے۔

ہندوستان میں صرف مسلمان یا سیکولر طبقہ ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور سادھو سنت بھی مودی کے وزیر اعظم بننے کی مخالفت کر رہے ہیں بی جے پی کا ایک بڑا خیمہ نریندر مودی کو پسند نہیں کرتا اور وہ کسی بھی حالت میں مودی کو وزیراعظم کے عہدے کاامیدوار نامزد کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ سوامی ادھوکشجانند نے بھی مودی کی زبردست مخالفت کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں کنبھ کا اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔ سوامی ادھوکشجانند نے کہا تھا کہ مودی کو پہلے گجرات قتل عام کے لئے معافی مانگی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں اگر کانگریس کے تئیں عوام میں زبردست ناراضگی ہے تو بی جے پی کی طرف بھی کوئی لگاؤ نہیں ہے کیوں کہ بی جے پی نے عوام کو مہنگائی اور دیگر مصیبتوں سے نجات دلانے کے لئے کانگریس کو مجبور نہیں کیا۔ غیر عوامی موضوع پر تو انہوں نے پارلیمنٹ کی کاررورائی ٹھپ کی لیکن عوامی مسائل کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاست میں عوام کو وہی پریشانیاں درپیش ہیں جو کانگریس یا دیگر پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ہیں ۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاست مدھیہ پردیش میں تو جہاں آئی پی ایس افسر کی جان محفوظ نہیں ہے وہیں بدعنوانی نئی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے وہاں صرف لیڈر ہی نہیں افسران اور یہاں تک کلرک اور چپراسی تک کے پاس کروڑوں اور اربوں کی جائداد یں ہیں۔ کانگریس نے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ اس نے مکمل طور پر بازار کے بھروسے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس مودی کا خوف دلاکر سیکولر طاقتوں اور خصوصاً مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مودی نے گجرات میں ایسا کچھ نہیں کیا ہے جس سے پورے ہندوستان کے عوام انہیں ووٹ دیں ۔ جس طرح بہار میں گڈ گورننس میڈیا کے سہارے جاری ہے اسی طرح گجرات کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہے گاؤں میں بجلی دستیاب نہیں ہے۔ کسانوں کو وہ سہولت حاصل نہیں کہ وہ کاشتکاری کو بہتر ڈھنگ سے کر سکیں۔ مسلمانوں کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دینے کے لئے مجبور ہیں۔ ترقی کے معاملے میں جتنا دعوی کیا گیا ہے وہ سچ نہیں ہے ۔ نریندر مودی جتنی سرمایہ کاری کی بات کرتے ہیں اس کا ایک تہائی حصہ بھی گجرات میں سرمایہ نہیں آرہاہے اس کے باوجود میڈیا کے سہارے میں وہ ترقی کے رتھ پر سوار ہیں۔ ویسے آئندہ ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی امید کم ہے لیکن اگر ایسا ہوگیا تویہ ہندوستان کی بہت بڑی بد نصیبی ہوگی اور ہندوستان کو متحد رکھنا ان کے لئے بہت مشکل ہوجائے گا۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.