پالش کروانے والے تو ہیں لیکن

جوتے پالش تو نہیں کرنے یہ آواز ایک چھوٹے سے کم عمر بچے نے میرے سامنے آکر کہا-میں اس وقت پشاور یونیورسٹی کے کیفے ٹیریامیں بیٹھا ہوا تھا اور اپنے صحافی دوستوں کا انتظار کررہا تھا چونکہ رات کو ڈیوٹی کی تھی اور دفتر سے سیدھے یونیورسٹی آیا تھا سو میں نے اپنے لئے چائے اور پکوڑوں کی پلیٹ کا آرڈر دیا تھا اور اس کا انتظار کررہا تھا کہ وہ آٹھ سالہ بچہ میرے سامنے آیا اور اس نے مجھے کہا کہ جوتے پالش تو نہیں کرنے- میں نے انکار کیا اور کہا کہ نہیں بیٹا میں نے پالش نہیں کرنی - وہ معصوم لڑکامیرے انکار کے بعد دوسرے طلباء کی طرف چلا گیا جو وہاں پر چائے پی رہے تھے اور اس نے کئی طلباء کو کہا کہ جوتے پالش کرنا ہے تو میں کروں لیکن کسی نے بھی اسے ہاں میں جواب نہیں دیا اور وہ لڑکا میرے سامنے سے چلا گیا-

کچھ دیر بعد وہی بچہ میرے پاس دوبارہ آیا اور اس نے پوچھا کہ جوتے پالش کروں اس وقت میں نے غور سے اس بچے کو دیکھا صبح ساڑھے نو بجے کا وقت تھا اس معصوم بچے نے منہ بھی صحیح طریقے سے نہیں دھویا تھا لیکن اس کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھا اور وہ بڑے معصوم نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا میں نے اسے دیکھا تو مجھے اپنا چھوٹا بچہ اور اپنا بچپن یاد آیا اور میں نے جلدی سے ہاں کہہ دیا لیکن ساتھ میں اسے کہ دیا کہ میرے نزدیک بیٹھ کر جوتے پالش کرو کیونکہ میں نے کچھ گپ شپ کرنی ہے-مجھے افسوس بھی ہورہا تھا کہ میں اس معصوم بچے سے جوتے پالش کروا رہا تھا لیکن میں اس بچے کی مدد بھی کرنا چاہتا تھا اور اس کی حالت بھی جاننا چاہتا تھا اس لئے میں اسے اپنے ساتھ بٹھانا چاہتا تھا اگر میں اسے پیسے ایسے دے دیتا تو اسے مفت کی عادت پڑ جاتی اور میں اس کمسن بچے کو برباد نہیں کرنا چاہتا- سو میں نے جوتے اتارکر اسے دئیے اور اس سے گپ شپ شروع کردی -

آٹھ سال کے معصوم عبدالمتین پلوسئی کے علاقہ کا رہائشی تھا اور روزانہ صبح آٹھ بجے اپنے والد اور بڑے بھائی کیساتھ پشاور یونیورسٹی آیا اور شام پانچ بجے تک یہاں پر لوگوں کے جوتے پالش کرتا اس نے دسمبر 2012سے لوگوں کے جوتے پالش کرنا شروع کردئیے تھے اور اس کے کام کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھابقول اس بچے کے روزانہ وہ پچاس روپے تک کما تا تھا جو وہ اپنے والد کو دیتا تھا اس کا والد پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل کیساتھ طلباء اور وہاں پر آنیوالے لوگوں کے جوتے پالش کرتا تھا - اس معصوم بچے کا کہنا تھا کہ اس سے بڑا بھائی بھی جوتے پالش کرتا ہے اور دونوں بھائی اسی جگہ پر لوگوں کی جوتے پالش کرتے ہیں- میں نے اس سے سوال کیا کہ بیٹا تمھیں کیا سکول جانے کی خواہش نہیں کیا پڑھنا نہیں چاہتے یا پھر تمھارے والد تمھیں بھیجنا نہیں چاہتے اس دوران اس بچے کی تصاویر میں لے رہا تھا اور وہ حیران نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا اس نے مجھے جواب دیا کہ جب لوگ صاف کپڑے پہنتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے اور میری بھی خواہش ہوتی ہے کہ میں صاف کپڑے پہنوں اور سکول جائوں لیکن پالش کا کام ایسا ہے کہ ہاتھ تک گندے ہو جاتے ہیں-اس دوران اس نے شاپنگ بیگ کھول کر اپنی معصوم ہاتھوں سے میرے جوتوں کی صفائی شروع کردی-میرے لمبے پائوں کی جوتے اس کے ہاتھ میں آتی بھی نہیں تھی لیکن وہ اپنی مقدور بھر کوششوں سے اسے صاف کرنے کی کوشش کررہا تھا-

میں نے اس بچے سے سوال کیا کہ بھوک لگنے کی صورت میں تم کیا کرتے ہو تو وہ بچے مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ میں صبح سویرے اپنے داجی کیساتھ ناشتہ کرتا ہوں اور پھر اس وقت کھانا کھاتا ہوں جب یہاں یہاں پر اذان ہوتی ہے کیونکہ والد نے کہا ہے کہ جس وقت اذان سنو تو یہی وقت کھانے کا ہوتا ہے تو پھر میں نے اپنے لئے روٹی اور پکوڑے لیکر کھاتا ہوں معصوم نے ساتھ ہی کہا کہ کب کبھار مجھے بھوک بہت پہلے بھی لگتی ہے لیکن مجھے والد سے ڈر لگتا ہے اس لئے میں پہلے کھانا نہیں لیتا -کیونکہ پھر داجی غصہ کرتا ہے اور میں اپنے وقت پر کھانا کھاتا ہوں-سخت سردی میں اس معصوم نے کوئی سویٹر نہیں پہنا تھا اور اس نے عام سے چپل پہنے تھے اور کوئی جراب بھی اس کی نہیں تھی-جسے دیکھ کر میرے دل کو کچھ ہورہا تھاکہ پتہ نہیں اس کا والدین کے دل کی جگہ پتھر ہے جو اس معصوم کو یونیورسٹی میں مزدوری کرنے بھیج دیا-میں نے پھراسے سوال کیا کہ بیٹا کیا تمھیں ماں کچھ نہیں کہتی تواس معصوم نے آنکھیں نیچی کیں اور جواب نہیں دیا اور پھر میں نے دوبارہ اس سے سوال کیا تو اس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ میری ماں نہیں کیونکہ میری ماں بہت پہلے مر گئی تھی اس وقت میں بہت چھوٹا تھا اور مجھے اپنی ماں کا چہرہ اور پیار بھرا لہجہ ہروقت یاد آتا ہے-اور اس نے سر نیچی کرکے جوتے پالش کرنا شروع کردئیے اور سسکیاں لینا شروع کردی-مجھے اس وقت اپنے آپ سے اور اپنی صحافت سے نفرت ہوگئی کہ میں نے اس معصوم بچے کے دل کو دکھ دیا اور میں خاموش ہوگیا - جلدی سے میں نے اس معصوم سے پوچھا کہ کتنے پیسے ہوگئے اس نے بیس روپے مانگے جو اسے میں نے دیدئیے اور وہ شاپنگ بیگ میںبرش پالش کے ڈبے ڈالکر جانے کی تیاری کرنے لگا اور اس دوران میرے صحافی دوست وہاں پہنچ گئے اس معصوم بچے نے اس سے بھی پوچھا کہ پالش تو نہیں کرنا لیکن اس نے انکار کیا اور پھر وہ بچہ خاموشی سے پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل کی طرف چلا گیا اور میں اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا-

اس آٹھ سالہ بچے کا قصور کیا ہے اور کو ن اس کے حالت کا ذمہ دار ہے اور ہمارے ارد گرد کتنے معصوم ہیں جو اس وقت مزدوری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کی طرف ہم لوگ توجہ ہی نہیں دیتے- یہ وہ سوال تھا جو میںنے اپنے صحافی دوستوں سے پوچھا جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کیا یہ معصوم بچہ پاکستان کا مستقبل نہیں کیا اس کی ذمہ داری صرف اس کے والدین کی ہے میری نہیں آپ کی نہیں یونیورسٹی میں پڑھنے پڑھانے کیلئے آنیوالے طلباء و طالبات اساتذہ صرف اپنے آپ کیلئے جواب دہ ہے کیا ریاست اور اس کے اس بچے کی ذمہ دار نہیں-شائد نہیں کیونکہ ہم سب لوگوں کو صرف اپنے آپ نظر آتا ہے حکمرانوں کو صرف اپنا بلاول حمزہ وغیرہ وغیرہ نظر آتے ہیں جن کیلئے یہ لوگ کیاسے کیا نہیں کرتے-میں اس وقت اسلام کی بات نہیں کررہا اللہ کے ہاں جب جائیں گے تب وہ پوچھے گا لیکن کیا یہی بچہ یونیورسٹی میں پالش کرتے کرتے کیا بنے گا اگر یہ کسی کے ہتھے چڑھ گیا اور انہوں نے اس معصوم کواپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جو ہمارے ہاںاب ایک نیا سلسلہ ہے اگر کسی نے اسے جیکٹ پہنادی اور کہا کہ جا کر اللہ اکبر کہہ کر اپنے آپ کو اڑا دو تو پھر ہر کوئی دہشت گردی کی گردان کرے گا لیکن اصل وجوہات کی طرف کوئی توجہ نہیں دے گا کہ کیوں اس حال میں لوگ پہنچتے ہیں اور کون انہیں پہنچاتا ہے کیا اسکا جواب ابھی کوئی دے سکتا ہے شائد کوئی نہیں کیونکہ جوتے پالش کروانے والے تو بہت ہیں لیکن جوتے پالش کرنے والے کی حالت پر توجہ دینا شائد ہماری فطرت ہی نہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499114 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More