پریوں کا تحفہ

کسی زما نے میں ایک بڑے ملک کے دور دراز علا قے میں ایک چھوٹا سا گا ﺅں تھا اس گا ﺅں لے لوگ بہت غریب تھے جن کے پاس اپنی زمینیں تھیں وہ تو تھوڑی بہت کھیتی باڑی سے اپنی گذر اوقات کر لیا کر تے تھے مگر جو بے زمین تھے ان کو اپنے علا قوں سے دور روز گا ر کے لئے جانا پڑتا تھا اسی گا ﺅں کے ایک چھوٹے سے جھو نپڑے میں اعجاز اپنی دادی کے ساتھ رہتا تھا اعجاز اور اس کی دادی کی گزر واوقات گا وں کے دیئے ہو ئے تھو ڑے بہت اناج پر تھی جب وہ تھو ڑا بڑا ہو ا تو اس نے اپنی دا دی سے دوسرے گا ﺅں جا کر کما نے کی اجا زت چا ہی اس کی دا دی نے اعجاز کی بڑی منت سما جت کر نے پر اجا زت دے دی دوسرے دن جب وہ تیا ر ہو کر گھر سے نکلا تو دا دی نے سات میٹھی روٹیا ں پکا کر رومال میں با ندھدی وہ روٹیاں لے کر اپنی دادی کی دعا ﺅں کے ساتھ گھر سے روانہ ہوا پیدل چلتے چلتے جب وہ گا ﺅں سے بہت دور نکل آیا تو اسے ایک کنواں نظر آیا اس نے سو چا کہ کیوں نہ تھوڑی دیر ٹہر کر کھا نا کھا لوں اور کنویں کا ٹھنڈا پا نی بھی پی لوں پھر آگے بڑھو ں گا اس نے روٹی روما ل سے نکال کر سامنے رکھی اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کون سی رو ٹی کھاﺅں وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑا نے لگا ” اس کو کھاﺅں،کہ اس کو کھا ﺅں کہ سا توں کو کھا ﺅں ،، اتفا ق سے اس کنویں میں سات پریا ں رہےتی تھیں انھوں نے اعجاز کی با ت سنی تو ڈر گئیں وہ سمجھیں کہ یہ کو ئی بہت بڑا جن جو انسانوں کے بھیس میں ہمیں کھا نا چا ہتا ہے وہ سا توں کنویں سے با ہر آئیں اور ادب سے ہا تھ با ندھ کر عر ض کر نے لگیں’ ’ اے رحم دل انسان تم ہمیں نہ کھا ﺅ ہم نے تمھا را کیا بگاڑا ہے اس کے بدلے ہم تمھیں ایک جا دو کی ہنڈیاتحفے میں دیں گے تم اسے چولھے پر رکھو گے اور جس کھا نے کی فر ما ئش کر و گے وہ اس ہنڈیا میں پکا ملے گا ،، اعجا ز پہلے تو پر یوں کو دیکھ کر بہت گھبرایا مگر جب انھوں نے جا دو ئی ہنڈیا اس کے ھوالے کی تو وہ بہت خوش ہو ا اور خو شی خوشی گھر کی جانب چل دیا چلتے چلتے راستے میں شام اور پھر رات ہو گئی چا روں طرف گھپ اندھیرا ہو گیا بس دور ایک چھوٹی سی کٹیا میں ایک چرا غ جلتا ہوا نظر آیا تو اس نے سوچا کیوں نہ رات اس کٹیا میں گزاری جا ئے صبح ہو تے ہی گھر روانہ ہو جا ﺅں گا وہ کٹیا ایک بوڑھی لا لچی عورت کی تھی جو آنے والے مسا فروں سے منہ ما نگے دام وصول لیا کر تی تھی اعجاز کٹیا میں دا خل ہوا اور بوڑھی عورت کو ادب سے سلام کر کے کٹیا میں ایک رات ٹہرنے کی اجا زت ما نگی ، بڑھیا نے بڑی نخوت سےایک نظر اس کے پھٹے پرانے کپڑوں پر ڈا لی اس غریب لڑکے سے لچھ وصول نہ ہو نے کی امید پر اس نے ڈپٹ کر اسے کہا ” یہا ں سے فو را چلے جا ﺅ میرے پا س تمھیں کھلا نے کے لیے کچھ نہیں ،،اعجاز نے اپنی معصومیت سے کہا” نہیں مجھے آپ سے کچھ کھا نا وانا نہیں چا ہیئے میر ے پا س یہ جا دو کی ہنڈیا ہے اس میں جو کہو وہ پک جا تا ہے میں ابھی آپ کے لئے اورا پنے لیے اس سے لذیذ کھانا پکو اتا ہوں،، یہ کہ کر اعجاز نے ہنڈیا چولھے پر رکھ دی اور کہا”ہنڈیا رے ہنڈیا جلدی سے ہمیں مزے دار پلا ﺅ کھلا، ، اعجاز نے جب ڈھکن کھو لا تو مزے دار پلا ﺅ تیا ر تھا دو نوں نے مل کر خوب پیٹ بھر کھا یا اعجاز نے ہنڈیا اپنے سرہا نے رکھی اور سوگیا لا لچی عور ت نے سوچا کسی طرح اس ہنڈیا کو حا صل کیا جا ئے اس نے اسی طرح کی ایک ہنڈیا اعجاز کے سر ہا نے رکھ دی اور وہ ہنڈیا اپنے پاس چھپا لی صبح سویر ے اعجاز خوشی خوشی اٹھا اور اپنے گا ﺅں روانہ ہو گیا گھر پہنچنے پر سا قصہ اس نے دادی کو سنا یا اور ہنڈیا پکا نے کے لیے چھولے پر رکھی کھانے کی فر ما ئش کی جب ہنڈیا کھو لی تو خالی نکلی اب اس نے بہت کو شش کی حتیٰ کہ ہنڈیا چو لھے پر رکھی رکھی جل گئی وہ غمگین ہو کر ایک طرف بھیٹھ گیا ۔دادی نے اسے تسلی دی تم فکر نہ کرو تم اپنی محنت کے بل پر اس سے زیا دہ کما سکتے ہو کل تم کام پر چلے جانا ۔دوسرے دن اعجا ز تیار ہو ادادی نے دوبارہ روٹیاں با ندھ کر اعجا زکو دیں وہ گھر سے نکل پڑا چلتے چلتے دو بارہ اسی کنویں کے پا س پہنچا اور سستانے کے لیے بیٹھ گیار و ٹیا ں کھو لی اسی طرح کہا” اس کو کھا ﺅں کہ اس کو کھا وں کون سی روٹی کھا ﺅ ں ،، کنو یں میں رہنے وا لی ساتوں پر یا ں پھر خوف زدہ ہو کر با ہر آئیں اور اعجاز کو تحفہ میں ایک بکری دیتے ہو ئے کہا ”یہ جا دوئی بکری ہے جب تم اسے گھا س کھلا ﺅ گے اور سر پر ہا تھ پھیرو گے تو یہ سو نے چا ندی کے سکے دے گی اعجاز خوشی خو شی بکری لے کر چل پڑا راستے میں رات ہوئی اسے وہی کٹیا نظر آئی وہ کٹیا میں دا خل ہوا تو لا لچی عورت نے اس کے سا منے اپنی غریبی کا رونا رویا۔ اعجاز نے کہا فکر مت کرو میں تمھیںبہت سارے سونے کے سکے دوں گا ، اعجاز نے بکری کو گھاس کھلا نا شروع کی اور سر پر ہا تھ پھیرا تو بکری سو نے چا ندی کے بہت سارے دینے لگی بو ڑھی عورت دیکھ کر خو شی سے دیوانی ہو گئی اس نے جلد ی جلدی سارے سکے سمیٹ لئے اور جلدی جلدی اعجاز کے لیے آرام دہ بستر بچھا دیا بکری اس کے قریب با ندھ دی رات کو عورت نے بکری پھر بدل دی ۔صبح اٹھ کر اعجاز بکری لے کراپنے گا ﺅںچل پڑا دادی اعجا ز کے ساتھ بکری دیکھ کر خوش ہوئیں اعجاز نے دادی کو جا دوئی بکری کی خوبی بتا ئی بکری کو گھاس کھلا کر اس کے سر پر ہا تھ پھیرا لیکن بکری ٹس سے مس نہ ہو ئی اب اس نے بہت کو شش کی کہ بکری سونے چا ندی کے سکے دینا شروع کر دے مگر وہ اصلی بکری ہو تی تب نا! آخر وہ ناکام و اداس ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا دادی خامو شی سے یہ تما شہ دیکھ رہی تھیں انھوں نے قریب آکر پیا ر سے سمجھا یا کو ئی بات نہیں تم کل پھر کام پر جا ﺅ مجھے یقین ہے کہ تم ضرور کا میاب ہو گے ۔ تیسرے دن اعجاز پھر اٹھا اوردادی سے سات روٹیا ں لے کر کام کے لیے روانہ ہو گیا چلتے چلتے اسی کنویں پر پہنچا اور اسیطر ح رومال کھول کر روٹیا ں نکا لی اور کہنے لگا کون سی کھا ﺅ ں ،پریاں لڑکے کی آواز سن کر پریشان اور حیران بھی تھیں اپس میں کہنے لگیں ” یہ لڑکا بہت معصوم اور سیدھا ہے ہم نے اسے اتنے قیمتی تحفے دیئے مگر یہ پھر کا م پر نکلا ہے اس کا مطلب ہے اس سے وہ تحائف کسی نے چرا لئے ہیں اب ہمیں کو ئی ایسا تحفہ دینا چا ئیے کہ اس چور کو مزا چھکا یا جا سکے،، انھوں نے کنویں سے با ہر آکر اعجاز کو ایک ڈنڈا دیا اور کہا اس ڈنڈے کی خا صیت ہم تمھیں نہیں بتا ئیں گے بس تم جہاں پہلے دو دن اپنے تحفے لے کر گئے تھے وہیں اسے بھی لے کرٹہر جا نا اور کہنا ، چل رے ڈنڈے ہو جا شروع ،جس نے کی چوری اس کو ٹھیک کر ضرور، اعجاز نے مہربان پر یوں کا شکریہ ادا کیا اور اسی لا لچی بڑھیا کی کٹیا پہنچ گیا بوڑھی عورت نے اس کی بڑی آﺅ بھگت کی اس کے ہا تھ میں ایک خوبصورت ڈنڈا دیکھ کر پو چھا یہ کہاںسے لیا اعجاز نے کہا اس کی بڑی خوبی ہے” تمھیں ابھی دکھا تا ہوں یہ کہ اعجاز نے ڈنڈے سے کہا ۔چل رے ڈنڈے ہو جا شروع جس نے کی چوری اس کو ٹھیک کر ضرور، ڈنڈا ہوا میں لہر ایا اور بوڑھی عورت پر بر سنے لگا کبھی سر پر ،ٹانگ پراور کبھی کمر پر ، غرض جا دوئی ڈنڈے نے بڑھیا کی خوب ٹھکا ئی کی بڑھیا چلا نے لگی ”بیٹا اسے روکو مجھے معاف کر دو میں تمھاری چیزیں لو ٹا دوں گی ِ،، اعجاز نے اس سے وعدہ لیا اور ڈنڈے کو روک لیا بڑھیا نے اعجا ز کی ہنڈیا اور بکری وا پس کر دی وہ سارا سامان لے کر خوشی خوشی گھر پہنچا دادی کو سارا قصہ سنا یا دادی نے خدا کا شکر ادا کیا پھر انھوں نے ہنڈیا سے مزے دار کھانے کی فرما ئش کی اور بکری کو گھاس کھلا کر بہت سارے سونے چا ندی کے سکے جمع کئے اور ایک خوشحا ل زندگی ہنسی خوشی رہنے لگے ۔۔۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148132 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.