صد شکر کہ حکومتی وفد اور ہزارہ
عمائدین کے مابین کوئٹہ کی صورتحال کے تناظر میں مذاکرات کامیات ہو گئے، جس
کے نتیجے میں مجلس وحدت المسلین نے ملک بھر میں سانحہ کوئٹہ کی مذمت میں
جاری دھرنے ختم کرنے کا اعلان کر دیا، ہزارہ برادری کے سربراہ نے بھی دھرنے
ختم کرنے کا اعلان کر دیا، انہوں نے یہ اعلان کوئٹہ میں پارلیمانی وفد کی
موجودگی میں نیوز کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان
کائرہ، گورنر بلوچستان ذوالقفار مگسی اور وزیر اعظم کے پارلیمانی وفد کے
ارکان موجود تھے،مولانا امین شہید ی نے کہاکہ حکومت نے تمام مطالبات پورے
کرنے کی گارنٹی دی ہے، انہوں نے دھرنوں کے شرکا سے پرامن منتشر ہونے کے لئے
درخواست کی اور کہا کہ کوئٹہ میں ٹارگٹڈ اپریشن اب تک ملٹری کے جوان ہی کر
رہے ہیں ،لیکن اگر خدانخواستہ اگر دوبارہ ایسا واقعہ ہوا تو ملک بھر میں
دوبا رہ دھرنے دینگے، اس موقع پر مجلس وحدت المسلمین نے میتوں کی تدفین کا
بھی اعلان کر دیا جس کے مطابق سانحہ کوئٹہ کے شہدا کی تدفین آج رات یا کل
صبح تک کردی جائے گی جبکہ ہزارہ کمیونٹی کے رہنما سردار سعادت ہزارہ نے کہا
کہ منگل کی رات تدفین کی کوشش کی جائیگی۔ حکومتی ترجمان نے کہا کہ مظاہرین
کے تمام مطالبات مان لئے گئے ہیں، پائیدار امن کے لئے اقدامات اٹھائے
جائینگے، ٹارگٹڈ افراد کی گرفتاری تک آپریشن جاری رہے گا ،کوئٹہ میں ٹارگٹڈ
آپریشن جاری ہے جس میں چار افراد ہلاک اور170 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
جب ہم سارے پاکستانی ہیں تو پھر یہ ذات پات،سنی،شیعہ،وہابی،دیوبندی،بریلوی
اور اہل حدیث کیا ،سب کو اپنے اپنے طور پر رہنے کا اور جینے کا حق حاصل
ہونا چاہیئے۔سب کا حساب کتاب اللہ تعالیٰ کی ذات کرے گی،ہم کون ہیں کہ کسی
کے خلاف اپنا فیصلہ دیں اوراس کو قتل کر دیں یا کسی بے گناہ کوبم دھماکے کی
نذر کردیں۔اگر کسی کا فرقہ یا طریقہ ہائے رہن سہن غلط ہے تو اس کو اللہ
تعالیٰ کی طرف سزا یاجزا ضرور ملے گی۔آپس میں لڑ مرنے یا مار دینے کیا ملے
گا۔اگر کوئی شیعہ کسی سنی کو اپنے نشانے پر رکھے یا کوئی سنی کسی شیعہ کو
تو دونوں برابرکے گناہ گار ہیں اور میرے نظریہ کے مطابق دونوں کی پکڑ اللہ
تعالیٰ کے دربار میں ضرور ہوگی۔آپ کو جو پسند نہیںاس سے لا تعلق ہو جا ﺅ
اور جو پسند ہے اس سے تعلق بنا لو،زندگی گزارنے کا یہی تو بہترین او ر
مختصر فلسفہ ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ بحث مباحثہ کرنے یا ایک دو سرے کو موت کے
گھاٹ گزارنے یا letdownکرنے سے کوئی مسئلہ کبھی حل نہیںہوتا۔اچھی زندگی
گزارنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ آپ ہر انسان سے سلام دعا رکھو اور
معاشرتی حیوان ہونے کا بہترین ثبوت دو۔اہل تشیع اگر ناراض نہ ہوں تو ان کے
لئے ایک اچھا مشورہ ہے کہ وہ اپنا مذہبی اجتماع کسی شہر یا علاقے کے بڑے
سٹیدیم میں کر لیا کریں تو اس سے انہیں اور عوام کو دوبڑے فوائد حاصل ہونگے
،ایک یہ کہ سیکورٹی والے اپنا کام بہترین کر لیںگے اور دوسرا یہ کہ شہر یا
علاقے کی ٹریفک ڈسٹرب نہیں ہوگی یوں نظام زندگی معطل نہیں ہوگا۔
ملک دشمن یا معاشرہ دشمن عناصر لوگوں میں پھوٹ ڈلواتے ہیں اور خود راج کرتے
ہیں۔"Divide and rule"والا فارمولا تو انگریز سرکار ہے جو ہم لوگوں نے خواہ
مخواہ اپنا رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ او ر اس کے پیارے نبی آخر الزمان رسولﷺ کے
دین سے یہی سبق ملتا ہے کہ مسلمان مسلمان بھائی بھائی ہیں اور سب کو اتفاق
سے رہنا چاہیئے۔جب ہم مسلمان ہی آپس میں اتفاق نہیں کریں تو خدانخواستہ ملک
دشمن تو اس نا اتفاقی کا فائدہ ضرور اٹھائے گا اور ہم سب کو اٹھا باہر کرے
گا۔کوئٹہ ،کراچی ہو یا سرحد ،بلوچستان یہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی تفرقہ بازی
ہے اس کے بعد کچھ جگہ سیاسی مسائل ہیں اور باقی جگہ ملک دشمن یا دہشت گرد
اپنا جال بُنے ہوئے ہیں جن کا خاتمہ ہمارے اتفاق سے ممکن ہے۔
ہمارے گاﺅں میں ہر روز لڑائی ہو جاتی اور ہر روز کوئی نہ کوئی تھانے یا
ہسپتال پہنچ جاتا۔ہر شام لوگ گھروں میں پریشان بیٹھ کر گاﺅں کی جہالت کو
ڈسکس کرتے۔ایک شام کو میرے والد محترم جب زمینداری کے بعد گھر لوٹے تو احقر
نے ان سے یہی سوال کیا کہ ”ابو جان ہمارے گاﺅں میں حالات نارمل کیسے ہو
سکتے ہیں؟“ اس پر انہوں نے بہت ہی زبر دست جواب دیا کہ ”بیٹا یہی کی لڑائی
صرف میں پرہے کہ میں بڑا ہوں،جہاں میں میں کی آواز آئے وہاں جاہل لوگ زیادہ
ہوتے ہیں اور یہاں کے وڈیرے عوام کو لڑا کر اپنی دھونس دھاندلی کا بازار
جماتے ہیں،جب یہاں کے لوگ آپس میں اتفا ق کرنا اور قانون پر رہنا سیکھ
جائیں گے تو کبھی لڑائی نہیں ہوگی،بیٹا قانون پر عمل داری اوراتفاق ہی امن
کی نشانی ہے“
ہمارے ملک میں آج ہمارے گاﺅں جیسے خستہ حالات ہیں ،کراچی میں سیاسی جماعتیں
اور مذہبی جماعتیں اتفاق نہیں کرتیں جس کا فائدہ دہشت گرد اور ملک دشمن
اٹھاتے ہیں۔کوئٹہ میں سیاسی بد امنی اور مذہبی تفرقہ بازی عروج پرہے جس سے
عوام نشانے پر ہے۔ہمارے پورے ملک میں عوامی امنگوں پرپٹرول چھڑکنے کا کام
ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کاہے۔ہماری فوج ،پولیس اور خفیہ ادارے اتفاق
سے اور براثر رابطے سے ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکتے
ہیں۔حکومت اور اپوزیشن ملکر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں اتفاق رائے
پیدا کریں تو یہ ملک جنت نظیر بن سکتا ہے۔ہمیں نہ تو اقوام متحدہ اور نہ ہی
امریکہ جیسے ثالث کی ضرورت ہے۔ہمارا دین اور ہم سب کا مذہبی اتحاد سب سے
طاقتور ہے مگر اس کے لئے سچے ایمان اور سچے اتفاق کی ضرورت ہے۔یقین کریں
دنیا کے ہر حصے میں قانون پر عمل داری اوراتفاق ہی امن کی نشانی ہے۔ |