مُبالغہ بھی چلے گا، مگر سوچ سمجھ کر

ایک طرف ہم جیسے ہیں جنہیں ذرا سی کالم نگاری پر خدا جانے کیا کیا ناز ہے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں کہ بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں مگر غرور نہیں کرتے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ایس ایم صادق چالیس ہزار گیت لکھ چکے ہیں مگر مجال ہے جو اہل وطن کو معلوم بھی ہوا ہو کہ ایس ایم صادق نام کا کوئی گیت نگار بھی اُن کے درمیان ہے! ”عظمت“ اِسی میں ہے کہ چپ چاپ کام کرتے جائیے اور شہرت کے بارے میں سوچیے بھی مت۔ اگر شہرت کا تعاقب کیا جائے تو معاملہ بدنامی پر ختم ہونے کا احتمال رہتا ہے!

ہمارے ہاں سبھی کو کارکردگی پندرہ بیس گنا کرکے بیان کرنے کا شوق، بلکہ ہَوکا ہے۔ ایک بار کسی ٹی وی پروگرام میں مشہور گلوکار مجیب عالم سے میزبان نے فلمی کیریئر کے بارے میں پوچھا تو مرحوم نے خاصی سادگی سے کہا کہ فلمی دنیا میں آٹھ دس سال گزارے اور ڈھائی تین ہزار گانے گائے! مجیب عالم نے 1964 میں فلم ”نرگس“ کے لیے ایک گیت گاکر فلمی دُنیا میں قدم رکھا۔ پھر ناشاد کی موسیقی میں اُنہوں نے 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ”جلوہ“ میں ”وہ نقاب رُخ اُلٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں“ گایا اور شہرت کی بلندی پر پہنچ گئے۔ فلمی دُنیا میں مجیب عالم 1986 تک کسی نہ کسی طرح فعال رہے۔ مگر اِن 20 برسوں میں اُُن کے گائے ہوئے فلمی گانے 100 سے کم ہیں!

شہنشاہِ غزل مہدی حسن مرحوم ہی کی مثال لیجیے۔ کئی بار اُنہوں نے سر محفل اپنے گائے ہوئے آئٹمز کی تعداد 54 ہزار بتائی! حقیقت یہ ہے کہ اُن کے اُردو، پنجابی اور دیگر زبانوں کے فلمی نغمات کی مجموعی تعداد تقریباً 650 ہے! ریڈیو اور ٹی وی کے لیے گائی ہوئی غزلوں اور گیتوں کی مجموعی تعداد بھی اِتنی ہی یا اِس سے تھوڑی سی زیادہ ہوسکتی ہے۔ مہدی حسن مرحوم نے درجنوں پرائیویٹ البم بھی گائے۔ مگر وہ تمام آئٹمز بھی 300 تا 500 ہیں۔ یعنی شہنشاہِ غزل کے گائے ہوئے آئٹمز کی مجموعی تعداد پونے دو ہزار تک ہے! اب کہاں 54 ہزار اور کہاں دو ہزار! واضح رہے کہ ہم مقدار کی بات کر رہے ہیں، معیار کی نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ خاں صاحب کے گائے ہوئے بہت سے آئٹمز موتیوں میں تولے جانے کے لائق ہیں۔

حال ہی میں مہناز بیگم کا انتقال ہوا ہے۔ اِتنی کامیاب اور مقبول گلوکارہ کے گائے ہوئے فلمی گانوں کی تعداد 195 ہے! ہم یہ تعداد احتیاطاً درج کر رہے ہیں تاکہ مہناز بیگم کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت کوئی جذباتی ہوکر یہ نہ کہہ دے کہ مرحومہ نے ہزاروں فلمی نغمے ریکارڈ کرائے!

فن کے معاملے میں ملکہ ترنم نور جہاں کی عظمت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ زندگی بھر اردو اور پنجابی فلموں میں گاتے گاتے ملکہ ترنم کی آواز ہی نہیں، گلا بھی گِھس گیا مگر اُن کے (انڈین اور پاکستانی) فلمی گانوں کی تعداد بھی ڈیڑھ پونے دو ہزار سے زائد نہیں!

اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھاکر بیان کرنے کا مقابلہ محمد رفیع مرحوم اور لتا منگیشکر کے درمیان بھی ہوا۔ ایک بار لتا جی نے کہا کہ وہ 22 ہزار سے زائد گانے گاچکی ہیں۔ اِس کے جواب میں محمد رفیع مرحوم نے اپنے گائے ہوئے نغمات کی تعداد 26 ہزار بتائی! تحقیق، بلکہ تحقیقات پر رفیع صاحب کے فلمی گانوں کی تعداد 5700 نکلی۔ تب تک لتا جی بھی تقریباً 5 ہزار آئٹمز ریکارڈ کراچکی تھیں۔ غنیمت ہے کہ محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے اپنی کارکردگی کو صرف 500 فیصد بڑھاکر یعنی پانچ گنا کرکے بتایا۔ ہمارے ہاں تو کارکردگی میں دو ڈھائی ہزار فیصد کا اضافہ کوئی بات ہی نہیں۔ ہمارے کئی گلوکار ایسے ہیں جن کا ایک آدھ گانا ہی ہٹ ہوسکا اور پھر وہ زندگی بھر اُسی کی کمائی کھاتے رہے۔ ایس بی جان نے 1959 میں ماسٹر منظور حسین کی موسیقی میں فلم ”سویرا“ کے لیے فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا گیت ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے“ گایا اور راتوں رات ملک گیر شہرت پائی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے فلموں کے لیے کچھ خاص نہ گایا، ٹی وی کے لیے البتہ چند آئٹمز گائے۔ اِس ایک گیت کی بنیاد پر بھی اُنہیں پرائڈ آف پرفامنس سے نوازا گیا۔ پچاس سال قبل فضل حسین نے فلم ”طوفان“ کیلئے ”آج یہ کِس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں“ گاکر شہرت پائی مگر اِس کے بعد کچھ نہ گاسکے۔

اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھاکر بیان کرنا ہمارے ہاں فیشن سے بڑھ کر عادت بن چکا ہے اور پھر لوگ بھی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ اِنسان کا دماغ قابو میں نہیں رہتا۔ عام سا فنکار بھی مرجائے تو خراج عقیدت پیش کرنے والے کہتے ہیں کہ ایسی عظیم ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں! ہر ایک کو افسانوی شہرت کی حامل (لیجینڈری) شخصیت قرار دینے کی وباءبھی پاکستان میں عام ہے! ایسے میں ہر فنکار خود کو لیجینڈ کیوں نہ سمجھے۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جُنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں!

ایس ایم صادق صاحب کا دعوٰی ہے کہ وہ ایک رات میں 100 گیت لکھ سکتے ہیں! ہم سُوئے ظن نہیں رکھ سکتے۔ وہ صادق ہیں، سچ ہی کہا ہوگا۔ ساتھ ہی اُن کا شِکوہ ہے کہ صدر نے اُنہیں اب تک پرائڈ آف پرفارمنس کے قابل نہیں سمجھا۔ اُن کا شِکوہ بے جا نہیں۔ جب چند نغمات کی بنیاد پر ایس بی جان پرائڈ آف پرفارمنس لے سکتے ہیں تو پھر ایس ایم صادق نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے کہ اُنہیں اِس اعزاز سے محروم رکھا جائے! ویسے ہمیں بھی حیرت ہے کہ صدر صاحب کی نظر سے ایس ایم صادق کیسے چُوک گئے۔ وہ تو پانچ سال سے چُن چُن کر پرائڈ آف پرفارمنس بانٹ رہے ہیں! جب ہما شُما کو اعزازات بانٹنا ہی ٹھہرا تو ایس ایم صادق پر بھی کرم کی نظر ہو جائے! جو کام ہمارے ہاں چالیس پچاس شُعراءمل کر نہ کر پائیں وہ ایس ایم صادق نے تنہا کر دِکھایا ہے۔ والیوم کے لحاظ سے دیکھیے تو وہ اپنی ذات میں ادارہ، بلکہ پورا مُشاعرہ ہیں!

روزنامہ دنیا سے ایس ایم صادق کی گفتگو نے ہمارے اِس خیال کو مزید پُختہ کردیا کہ شاعری اب اداریہ نویسی جیسی ہوکر رہ گئی ہے یعنی جو کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے وہ ضبطِ تحریر میں لے آئیے۔ اب اِسے آپ جو بھی چاہیں وہ نام دے لیں۔ گیت، غزل، نثری نظم، آزاد نظم۔ یاد رکھیے کہ آج کی شاعری کے لیے سوچنا زہر ہے یعنی ذہن کسی بھی مرحلے پر استعمال نہیں ہونا چاہیے! بے ذہنی کی حالت میں آپ ایک رات میں سو کیا، ہزار گیت بھی لکھ سکتے ہیں۔ اور اگر ذہن کو زحمت دی تو ایک ماہ میں بھی ایک گیت مکمل نہ ہوسکے گا! ویسے بھی شاعری دِل کا کام ہے، دِماغ کا نہیں! اور آج کی شاعری کو برداشت یا ہضم کرنے کے لیے اہل ذوق کے دِل، دِماغ، گُردے اور جگر سب بہترین حالت میں ہونے چاہئیں!

ہمیں تو اُن پر ترس آتا ہے جو رات رات بھر کروٹ بدل بدل کر ڈھنگ سے ایک غزل بھی نہیں کہہ پاتے۔ ادھوری غزل کا عذاب اُنہیں دائمی قبض میں جکڑے رہتا ہے! کیا ہی اچھا ہو کہ ایس ایم صادق کچھ راہ نُمائی فرمائیں۔ وہ تو خیر سے چالیس ہزار گیت لکھ چکے ہیں۔ کچھ تو بتائیں کہ اِس بسیار گوئی کے باوجود اُن کے دِل و دماغ کِس طور سلامت ہیں! اچھا ہے، دوسرے بھی کچھ سیکھ لیں اور شعر کہنے کے نام پر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نہ رہ جائیں!

سچی بات تو یہ ہے کہ جب ہم نے ایس ایم صادق کی گفتگو پڑھی تو اپنا سا مُنہ لیکر رہ گئے۔ احباب نے بھی طعنے دیئے کہ چند کالم کیا لکھ مارے، خود کو طُرّم خاں سمجھنے لگے ہو۔ ذرا ایس ایم صادق صاحب کو دیکھو۔
اِس طرح سے کہتے ہیں سُخن ور سہرا!

اگر ہم یومیہ کالم بھی لکھیں تو سال بھر میں 365 کالموں سے زیادہ کیا لکھ پائیں گے؟ اور اگر معاملہ اِسلامی کیلینڈر کا ہو تو اِن میں سے بھی 11 کالم گھٹا دیجیے! ہم نے کم و بیش اٹھائیس سال قلم گِھسا ہے مگر کیا تیر مار لیا؟ یہی کوئی ہزار بارہ سو کالم اور آرٹیکلز لکھے ہوں گے۔ ہاں، مختلف اخبارات کی نیوز ڈیسک کے لیے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ہمارئی بنائی ہوئی خبریں پچیس تیس ہزار ضرور ہوں گی۔ اِن خبروں کو ہم ایس ایم صادق کے گیتوں کی ٹکّر پر رکھ سکتے ہیں کیونکہ اِن کی تیاری میں ذہن کچھ خاص استعمال یا خرچ نہیں ہوا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483411 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More