گیارہ تاریخ کی نسبت سے اا علما
کے اقوال
از:محمد انورقادری کاملی
قدوۃُالواصلین، زبدۃُالعارفین، سیدی و سندی، پیرانِ پیر، غوث اعظم سیّدنا
شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی (رضی اﷲ عنہ)کے عرس کے موقع پر منعقد ہونے
والی تقریب ہے جس میں آپ کے حوالے سے اﷲ و رسول اور وِلایت اولیا کا ذِکر
کیا جاتا ہے تاکہ اﷲپاک اِن اولیا کی محبت لوگوں کے دِلوں میں پیدا فرمائے،
آپ کے عِلمی و عَملی کارناموں سے اُمت آگاہ ہو۔ اس سے ایک طرف اﷲتعالیٰ اور
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے بلکہ اولیاء اﷲسے
بھی اُنس پیدا ہوتا ہے، اﷲوالوں کی صحبت میسر آتی ہے، روحانیت، فیض اور
ذہنی آسودگی ملتی ہے، اﷲتعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے
اﷲوالوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورنیکی کی ترویج اور برائی
کے مٹانے میں مدد ملتی ہے۔کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در
حقیقت یہ اﷲو رسول کی بزم ہوتی ہے جہاں اﷲو رسول کا ذکر ہوتا ہے۔نذرانوں کی
صورت میں کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں جو حاضرین، زائرین، بھوکے ،مسافر،بے
بسوں کے کام آتی ہیں۔ دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی
ملتی ہے۔ اس صدقے سے زبانوں اور دِلوں سے نکلتی دعاؤں، تلاوتوں، اذکار کا
ثواب زائرین، ان کے آباو و امہات، ان کے اساتذہ، مشائخ اور تمام مسلمانانِ
عالم، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو پہنچایاجاتا ہے، ان
دعاؤں کو سننے والا اﷲتعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے یقین ہے کہ یہ پر خلوص
دعائیں قبول کرتاہے،مشکلات حل ہوتی ہے، خالی جھولیاں بھرتی ہے، خشک ہونٹوں
پر تری آتی ہے، پریشاں دِلوں کو سکون اور بہتی آنکھوں کو خنکی ملتی ہے،
زخمی دِلوں کو مرہم اور دھتکارے ہُووں کو ٹھکانا مِلتا ہے۔ذیل میں گیارہویں
شریف کے متعلق اہل علم کے تأ ثرات قلمبند کئے جارہے ہیں۔
(۱)محدث اعظم ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی:
حضرت غوث اعظم(رضی اﷲعنہ )کے روضۂ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ
شہر کے اکابر جمع ہوتے، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے
اور حضرت غوث اعظم(رضی اﷲعنہ)کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے، مغرب کے
بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اِردگرد مریدین اور
حلقہ بگوش بیٹھ کر ذِکر بالجہر(باآوازِ بلندذِکر)کرتے۔ اسی حالت میں بعض
پروجدانی کیفیت طاری ہوجاتی۔ اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی،
تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رُخصت ہوجاتے۔ (ملفوظات
عزیزی،فارسی: ص۶۲)
(۲) شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ:
میرے پیرومرشد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مہاجر مکی (علیہ الرحمہ)۹ ربیع
الثانی کو حضرت غوث اعظم (رضی اﷲعنہ)کا عرس کرتے تھے۔بے شک ہمارے ملک میں
آج کل گیارہویں تاریخ مشہورہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ
(ہندو پاک)میں متعارف ہے۔(ماثبت من السنۃ: ص۱۶۷)حضرت شیخ امان اﷲپانی پتی
(علیہ الرحمۃ)(المتوفی 997ھ) ۱۱ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم کا عرس کرتے
تھے۔(اخبار الاخیار(اردو ترجمہ): ص۴۹۸)
(۳)مرزا مظہرجانِ جاناں(علیہ الرحمہ):
میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سے اولیاے کرام حلقہ
باندھ کر مراقبے میں ہیں۔ اور ان کے درمیان حضرت خواجہ (بہاوالدین)نقشبند
دوزانو اور حضرت جنیدبغدادی تکیہ لگاکر بیٹھے ہیں۔ اِستغناماسواء اﷲ اور
کیفیاتِ فنا آپ میں جلوہ نما ہیں۔ پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دیے،
میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ تو اُن میں سے کسی نے بتایا کہ
امیر المومنین حضرت علی المرتضٰی (رضی اﷲ عنہ )کے استقبال کے لیے جا رہے
ہیں۔ پس حضرت علی المرتضٰی شیر خدا (کرم اﷲ وجہہ الکریم ) تشریف لائے۔ آپ
کے ساتھ ایک گلیم پوش ہیں جو سر اور پاوں سے برہنہ ذولیدہ بال ہیں۔ حضرت
علی المرتضٰی (کرم اﷲ وجہہ الکریم ) ان کے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے
ساتھ اپنے مبارک ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو جواب
ملا کہ یہ خیرالتابعین حضرت اویس قرنی(رضی اﷲ تعالی عنہ)ہیں پھر ایک حجرہ
شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی۔یہ
تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک
شخص نے کہا آج حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی کا عُرس ہے۔ہم سب عرس
پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں۔(کلمات طیبات ،فارسی: صفحہ۷۷،۷۸)
(۴)علامہ فیض عالم بن مُلّا جیون صاحب علیہ الرحمہ:
عاشورہ کے روز امامین شہیدین سیدنا شباب اہل الجنۃ ابو محمد حسن اور ابو
عبداﷲ حسین (رضی اﷲ تعالی عنہما )کے لیے کھانا (نیاز)تیار کرتے ہیں۔ خدا ے
تعالیٰ کی بارگاہ میں اس نیاز کا ثواب ان کی روح کو پہنچاتے ہیں اور اِسی
قسم سے گیارہویں شریف کا کھانا ہے جو کہ حضرت غوث الثقلین کریم الطرفین قرۃ
العین الحسنین محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا و مولانا فردالافراد ابو محمد
شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی(رضی اﷲ تعالی عنہ)کا عرس مبارک ہے۔ دیگر
مشائخ کا عرس سال کے بعد ہوتا ہے۔ حضرت غوث پاک(رضی اﷲ تعالی عنہ)کا عرس
مبارک (ہمارے یہاں)ہر ماہ ہوتا ہے۔ (وجنیر القراط:فارسی،ص۸۲)
(۵)علامہ برخوردار نبراس علیہ الرحمہ:
ممالکِ ہندو سندھ وغیرہ میں آپ کاعرس
۱۱ربیع الثانی کو ہوا کرتاہے۔ اس میں
انواع و اقسام کے طعام وتحائف کہ حاضرین علما و اہل تصوف، فقرا درویشاں کو
پیش کیے جاتے ہیں۔ وعظ اور بعض نعتیہ نظمیں بھی بیان ہوتی ہیں۔ اس عرس شریف
میں ارواحِ کاملین کا بھی حضور ہوتاہے خصوصاً آپ کے جد امجد حضرت علی
المرتضی(کرم اﷲ وجہہ الکریم)بھی تشریف لاتے ہیں۔ کماثبت عند ارباب
المکاشفۃ(سیرت غوث اعظم: ص۲۷۵) پیر عبدالرحمٰن نے اس (گیارہویں تاریخ)کی
وجہ یہ لکھی ہے کہ پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم ہر گیارہویں کو نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم کا عرس کیا کرتے تھے۔(کلیات جدولیہ فی احوال اولیاء اﷲ،
المعروف بتحفۃ الابرار، بحوالہ تکملہ ذکرالاصفیاء :ص۲۹) غوث اعظم چونکہ
گیارہویں کرتے ہیں لہٰذا بطریق(تسبیح فاطمہ)گیارہویں حضرت پیرانِ پیر مشہور
ہوئی۔ (حاشیہ سیرت غوث الاعظم: ص۲۷۶)
(۶) حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی علیہ الرحمہ:
پس بہیئت مروجہ ایصال ثواب(ایصال ثواب کا موجودہ طریقہ ) کسی قوم کے ساتھ
مخصوص نہیں اور گیارہویں حضرت غوث پاک (قدس سرہ )کی ،دسویں، بیسویں، چہلم،
ششماہی، سالانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی (رحمۃ اﷲ
تعالی علیہ)کااور سہ منی (تین ماہ کی)حضرت شاہ بو علی قلندری (رحمۃ اﷲ
تعالی علیہ)کی و حلواے شب برات اور دیگر طریق ایصالِ ثواب کے اسی(جواز
کے)قاعدے پر مبنی ہیں اور مشرب فقیر (حاجی امداد اﷲ)کا اس مسئلے میں یہ ہے
کہ فقیر پابند اس ہیئت(طریقہ، انداز)کا نہیں ہے مگر کرنے والوں کاانکار بھی
نہیں کرتا۔(کلیاتِ امدادیہ: باب فیصلہ ہفت مسئلہ،ص۸۲، مطبوعہ:دیوبند)
(۷)مولوی خر م علی بلہوری:
حاضری حضرت عباس کی ، صحنک حضرت فاطمہ کی، گیارھویں عبدالقادر جیلانی کی،
مالیدہ شاہ مدار کا، سہ منی بوعلی قلندر کی، تو شہ شاہ عبدا لحق کا، اگر
مَنّت نہیں ہے صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہے تو درست (جائز)ہے۔
اس نیت سے ہر گز منع نہیں۔(نصیحۃ المسلمین :چند شرکیہ رسمیں ،ص:۴۱)
(۸)شاہ اسمعٰیل دہلوی صاحب :
رسوم میں فاتحہ پڑھنے، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر و نیاز کرنے کی رسموں
کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ۔(صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵)طالب کو چاہیے کہ
پہلے وہ با وضو دو زانوں بطور نماز(التحیات)میں بیٹھ کر اس طریقے کے بزرگوں
حضرت معین الدین سجزی اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی(علیہما الرحمۃ)وغیرہ
حضرات کے نام کا فاتحہ پڑھ کر بارگاہِ خداوندی میں ان بزرگوں کے
توسط(واسطے) اوروسیلہ سے التجا کرے۔(صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵)
(۹)مولوی اشرف علی تھانوی صاحب :
(بوقت مجلس)جب مثنوی (مولانا روم)ختم ہوگئی۔ بعد ختم کہ شربت بنانے کاحکم
دیا اور ارشاد ہوا کہ اس (شربت)پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی۔
گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا۔ آپ
(حاجی امداد اﷲ صاحب)نے فرمایاکہ نیاز کے دو معنی ہیں، ایک عجز و بندگی اور
سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائز و شرک ہے، دوسری خدا کی
نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا۔یہ جائز ہے لوگ انکار کرتے ہیں، اس
میں کیا خرابی ہے۔(شمائم امدادیہ:(ملفوظات حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی)ص:۶۸)ہر
شخص کو اختیار ہے کہ (نیک)عمل کا ثواب مردے کو یا زندہ کو کردے۔ جس طرح
مردے کو ثواب پہنچتا ہے اسی طرح زندہ کو بھی ثواب پہنچ جاتا ہے۔(التذکیر:
ج۳، ص۵۵)
(۱۰)مولوی رشیداحمد گنگوہی صاحب:
ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ (نیاز)کرنا درست ہے مگر تعیّن یوم و
تعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں
جانتا مگر دیگر عوام کو موجبِ ضلالت ہوتا ہے لہٰذا تبدیل یوم و طعام
(نیاز)کیاکرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں۔(فتاویٰ رشیدیہ:ص۱۶۴)
(۱۱)مولوی قاضی ثناء اﷲ امرتسری(غیر مقلد):
(نذر و نیاز )غیراﷲ کے لیے جائز نہیں ہے ۔نذر اﷲ کی اور ثواب میں دوسرے کو
پہنچانا جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔(فتاویٰ ثنائیہ: باب:عقائد ،ج
۱،ص۱۰۸)
اﷲ پاک تاحیات بزرگوں کے دامن سے وابستہ رکھے۔آمین |