پاکستان میں عرصہ دراز سے نظام
کو تبدیل کرنے کی بات چل رہی ہے عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے کے دعویٰ کئے
جارہے ہیں فرسودہ اور روایتی سسٹم کوختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ عوام میں
بھی چینج کی کی لہر ہے جو دوڑنے کو تیار ہے لیکن ہر مرتبہ وہ پاکستانی بجلی
کی طرح آتے ہی غائب ہوجاتی ہے اور پھر لمبے عرصے کے بعد دکھائی دیی ہے ور
پھر غائب ہو جاتی ہے۔ جس طرح سے ہم بجلی کی ’’آنیاں اور جانیاں‘‘ پر قابو
نہ پاسکے اسی طرح پاکستان میں تبدیلی نظام ایک نہایت ہی مشکل اور صبر آزما
کام ہے جو کہ بہت زیادہ توجہ، خلوص،صائم اور جذبہ کی قربانی مانگتا ہے لیکن
یہ کام کرنے کو کوئی تیار نہیں اور چوری کھانے والے مجنوں بننے پر تلے ہوئے
ہیں اور ا لیکشن کیلئے سب ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں جو کہ ناممکن
امر ہے-
وطن عزیز میں عمران خان ہو کہ طاہر القادری جنہوں نے نظام کو تبدیل کرنے کی
بات کی اور اس سلسلے میں ملک گیر جلسے جلوس اور مارچوں کا سلسلہ شروع کیا ۔اور
یہ بات بھی روز روشن کی طرح کلئیر ہوگئی کہ ہر پہلے جلسے کی نسبت ہرمرتبہ
دوسرا جلسہ تعداد اور مقبولیت کی کمی کا شکار رہا۔ چاہے وہ عمران خان کا
جلسہ ہو کہ شیخ الاسلام طاہرالقادری کا۔جلسوں کی عوامی کمی اور غیر دلچسپی
کی وجوہات کیا ہیں کہ ہم جلسوں میں جن لوگوں کو نظام بدلنے کیلئے تیار کرتے
ہیں انہیں بلاتے ہیں اور تیار ہوجاتے ہیں اور آجاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو
واقعی نظام کی تبدیلی کے دلی طور پر خواہاں ہیں لیکن بدقسمتی سے 30 فیصد
لوگ ہیں جنہیں ہم شہری پڑھا لکھا اور سمجھ بوجھ رکھنے والے خواندہ کہہ سکتے
ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ سب لوگ ووٹ دے کر پارٹی کو کامیاب بھی
کروائیں گے۔ مگر باقی کے ستر فیصد لوگ جو کہ دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھنے
والے ہیں ان پڑھ اور نا خواندہ ہیں آخر انکا بھی تو ووٹ ہے جو کہ ہمیشہ کی
طرح خان ازم، شاہ ازم، مخدوم ازم، لغاری و کھوسہ ازم، بھٹو ازم، قبیلہ ازم
شریف ا زم برادری ازم اور وڈیرہ ازم کے جابرانہ اور سفاکانہ شکنجوں میں
جکڑا ہوا ہے اور اس سے باہر نہیں نکل سکتااور انہوں نے اپنے ووٹ بھی بغیر
کسی نظریے، کسی تصور کسی سوچ اور بغیر کسی تبدیلی کی خواہش کے کاسٹ کرنے
ہیں اور ان تمام ازموں میں سے کسی ایک یا چند کو تمام عوام کی زندگی
اورمقدر کا فیصلہ کرنے کیلئے ہمارے سروں پر مسلط کروادینا ہے۔تو پھر تبدیلی
کیسے آئے گی؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ان ستر فیصد ہجوم کے لیڈرز کو ان کی معمولات
زندگی سے بے دخل کیا جائے کیسے چند لوگوں کو ستر فیصد کی زندگی کے فیصلے
کرنے سے روکا جائے تو اس کیلئے محنت اور شدید محنت کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ ان لوگوں تک رسائی حاصل کی جائے ان کے معاملات کو دیکھ پرکھ
کر ان کے حل کی یقین دہانی کرائی جائے ان کے تھانے کچہری کے معاملات کو
دیکھا جائے ان کی ضروریات روزمرہ کو پورا کیا جائے ۔ بالخصوص انہیں انکے
اپنے حقوق سے آگاہی دلائی جائے ان کی ذمہ داریوں او رفرائض کو سمجھایا جائے
لیکن یہ سب کچھ دنوں میں ہونے والا نہیں۔
شہر وں میں پڑھے لکھے لوگوں میں جلسے اور مارچ کرنے سے ہونے والا نہیں۔ ٹی
وی شوز ٹاک شوز میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے تبدیلی نہیں آنے
والی کیونکہ میرا سوال پھر وہیں کھڑا ہے کہ یہ 30 فیصد لوگ تو ٹی وی
چیلنزدیکھتے ہوں گے آپ کی آواز اور سچائی سنتے اور دیکھتے ہونگے لیکن ان
ستر فیصد کے گھروں میں تو کیبل نہی آتی ناور اگر کسی کے ہاں آتی ہے تو اسے
ان ٹاک شوز سے کوئی دلچسپی نہیں اسے تو صرف زی ٹی وی سٹار پلس کلر ٹی وی
اور سونی ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے اور فلمیں دیکھنا زیادہ مرغوب ہے۔ انہیں
نہیں معلوم آئین کیا ہوتا ہے اور اس کی شق کیا ہوتی ہے آئین انہیں کیا حقوق
دیتا ہے اور ان سے کن فرائض کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ لہذا تبدیلی کیلئے ان ستر
فیصد لوگوں کی سوچ ذہنیت رویے اور اقدار کو بدلنا ہوگا پھر ہی تبدیلی آئی
گی اور پھر اسے کوئی نہیں روک سکے گا فی الوقت آنے والی الیکشن اس تبدیلی
سے مبرا ہونگے - |