آجکل فحاشی اور عریانی کے ہر
مظہر کو ملفوف بنا کر مارکیٹ کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔عورت کو حیا اور
پاکیزگی کے ماحول سے نکالنے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوگئے ہیں۔بدقسمت عورتیں
ہیں جو اپنی ناسمجھی یا کسی مجبوری کے سبب ابلیسی دماغوں کے پھیلائے ہوئے
جال میں پھنس جاتی ہیں اور پھر ”پبلک پراپرٹی“ بن کر اپنے تقدس کو چند ٹکوں
کے عوض دربدر نیلام کرتی پھرتی ہیں۔ پاک دامن بچیوں اور بیبیوں کو چکا چوند
کردینے والے مناظر کے پیچھے چھپے غلیظ کاروبار سے آگا ہ کرنا جہاں والدین
کا فرض اولین ہے وہیں قلم کار وں اور دانشوروں کو بھی اس پھیلے ناسور کا
ادراک ہونا چاہیے۔ خوبصورت لباس زیب تن کرنا ہر ذی روح کی قدرتی خواہش ہے
اور زیورات اور بناﺅ سنگھار عورت کی شدید ترین آرزو ہوتی ہے ۔بوتیک پر بکنے
والے لباس کے ساتھ اگر کسی ہیروئن یا ماڈل کی تصویر ہو تو کاروبار خوب چمک
جاتا ہے ۔درزی یا فیشن ڈیزائنر‘شوز بنانے والے زیورات اور میک اپ بیچنے
والے اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لئے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے
ماڈلنگ‘کیٹ واک اور فوٹو سیشن کے ذریعے عورتوں کوکاروباری مقاصد کےلئے
استعمال کرتے ہیں۔
”یہ تو ماڈلنگ ہے “ یہ کہہ کر بے روزگار اور بے مہار لڑکیوں کو فوٹو سیشن
سے گزارا جاتا ہے اور پھر وہ ایک انجانی منزل کی طرف ‘بلکہ دوزخ کی آگ کی
طرف لپکتی چلی جاتی ہیں۔مجھے آج کی اس نشست میں خالصتاً قرآن وحدیث کی
روشنی میں اپنی مسلمان بہنوں‘ بیٹیوں کو ”ماڈلنگ“ جیسی بے حیائی کے حوالے
سے بعض ضروری پہلوﺅں سے آگاہ کرنا ہے۔قرآن کریم سورہ الاحزاب (۲۲) میں
عورتوں کو حکم دیتا ہے”اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں جس بناﺅ سنگھار
کی نمائش کرتی پھرتی تھیں وہ اب نہ کرو“سورہ النور(21) میں ارشاد ربانی ہے۔
”اور وہ اپنے پاﺅں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا
رکھی ہے (یعنی زیور وغیرہ) اس کا حال معلوم ہو(یعنی جھنکار سنائی دے ) اسی
آیت میں ذرا آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے ”اے نبی! مومن عورتوں سے بھی کہہ دو
کہ وہ اپنی نگاہوں کو (غیر مردوں کی دید سے) باز رکھیں اور اپنی شرمگاہوں
کی حفاظت کریں‘اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھینوں کے بُکل مار لیا
کریں۔سورہ الاحزاب (۲۲) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”اگر تمہارے دل میں خدا کا
خوف ہے تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں بدنیتی کی بیماری ہو
وہ تم سے کچھ امیدیں وابستہ کرلے گا۔ بات کرو تو سیدھے سادے طریقے سے
کرو“(جس طرح انسان انسان سے بات کیا کرتا ہے)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔”جو عورتیں کپڑے پہن
کر بھی ننگی ہی رہیں وہ دوسروں کو رجھائیں اور خود دوسروں پر رنجھیں اور
بختی اونٹ کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کرکے چلیں‘وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں
گی اور نہ ہی اس کی خوشبوپائیں گی“۔ نماز باجماعت میں اگر امام غلطی کرے یا
اس کو کسی حادثہ پر متنبہ کرنا ہو تو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے
مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ صرف دستک دیں اور زبان سے کچھ نہ
بولیں(ابوداﺅد)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کو فرمایا۔”اپنی عورتوں کو
لباس زینت اور نازواندازکے ساتھ مساجد میں جانے سے روکو“ عورتوں کی نماز
باجماعت میں مونث امام کو اندرون صف کھڑا ہونے کی ہدایت ہے (تاکہ وہ نمایاں
ہو کر بے حجاب نہ ہوجائے)(ہدایہ جلد اول) ۔انفرادی نماز میں عورتوں کے لئے
حکم ہے کہ وہ سجدے میں اپنے سینے اور پیٹ کو رانوں سے ملائیں تاکہ بدن کے
پھیلاﺅ اور تفاصل میں سینہ لٹک کر بے حجاب نہ ہوجائے ۔قعدے میں میرین پر
بیٹھ کر پیروں کو ایک طرف نکالیں تاکہ پیروں پر بیٹھ کر رانیں ابھری ہوئی
اور اوپر کا دھڑ بلند نہ دکھائی دے۔ قیام میں ہاتھ سینے پر باندھیں تاکہ
سینے کا ابھار نمایاں ہو کر بے پردہ نہ ہوجائے۔شریعت درحقیقت ماں ‘ بہن‘
بھائیوں کو ایک دوسرے کے برابر کھڑا ہو کر نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں
دیتی۔
غزوات (وہ جنگیں جن میں حضور نے شرکت فرمائی) میں مسلمان عورتیں اپنا جسم
حتی الوسع زخمی مجاہدین سے مس نہیں ہونے دیتی تھیں اور اکثر ان کا دائرہ
خدمت اپنے نزدیک ترین رشتے داروں تک محدود ہوا کرتا تھا۔
حضور کا ارشاد ہے ”جو شخص کسی عورت کا ہاتھ چھوئے گا جس کے ساتھ اس کا جائز
تعلق نہ ہو ‘ اس ہتھیلی پر قیامت کے روزانگارہ رکھا جائے گا“۔حضرت عائشہؓ
کا بیان ہے کہ نبی اکرم عورتوں سے صرف زبانی اقرار لے کر بیعت کیا کرتے
تھے۔ ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تھے۔ آپ نے کبھی ایسی عورت کے ہاتھ
کو مس نہیں کیا جو آپ کے نکاح میں نہ ہو۔(بخاری‘باب بیعتیہ لنسائ‘مسلم باب
کیفیة‘بیعةالنسائ) مرنے کے بعد بھی عورت کے مردہ جسم کو صرف اس کے محرم مرد
ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔شریعت نے عورت کی پردہ داری کا اس حد تک خیال رکھا ہے
کہ (مرد کے مقابلے میں) اس کے کفن میں سر اور سینے کو خصوصاً ڈھکنے کے لئے
ایک کپڑا زائد ہوتا ہے اور اس کا مردہ جسم کو قبر میں اتارتے وقت بھی پردے
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔شرم و حیا کے ضمن میں ہماری ملی روایات بھی ہمیشہ سے
انتہائی شاندار اور قابل فخر رہی ہیں اور پاکیزہ خیال ہزاروں گھرانوں میں
آج بھی ان پر عمل ہوتا ہے۔ ان دیندار اور خداترس خاندانوں کی کنواری لڑکیاں
شادی سے پہلے کسی قسم کا سنگار نہیں کرتیں۔ بزرگوں کے سامنے ان کے سروں پر
سے کبھی دوپٹہ نہیں اترتا۔ دولہا اور دلہن اپنے والدین کی موجودگی میں ایک
دوسرے کے قریب یا برابر لگ کر نہیں بیٹھتے۔ خود والدین بھی جو ان اولاد کے
سامنے ایسی ہی شرم و حیا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔منگنی کے بعد لڑکی کا لڑکے سے
(لڑکا خواہ کتنی ہی قریبی عزیز ہو) پردہ کروا دیا جاتاہے۔نکاح کے وقت لڑکی
کی طرف سے خاموشی اختیار کرنا یا محض گردن ہلا کر ”ہاں“ کر دینا ہی ایجاب و
قبول کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکی بن سنور کر سٹوڈیو میں جا کر
اپنی تصویر اتروانے کا سوچ بھی نہیں سکتی(ہماری اس ملی روایت کا انگریز
حکمرانوں تک نے احترام کیا اور انہوں نے مسلمان خواتین کو مختلف نوعیت کے
فارموں و دیگردستاویزات پر اپنی تصویر چسپاں کرنے سے مستثنیٰ قرار دے رکھا
تھا)۔
قیام پاکستان سے قبل مسلمان لڑکیاں نرس کا پیشہ اختیار نہیں کیا کرتی تھیں(
اس لئے کہ ان کا واسطہ نا محرم مرد مریضوں سے پڑتا تھا)سکول کالج میں
تھیٹریکل کمپنیوں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ڈراموں میں عورتوں کا
کردار بھی مرد ہی ادا کیا کرتے تھے۔عورتوں کا درزیوں کی دکانوں پر جا کر
اپنے جسم کا ماپ دینا حرام سمجھا جاتا تھا۔بال ترشوانا ابروئیں باریک کرنا
بعیدازقیاس تھا۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خدا جو نمائش حسن کو ”تبرج الجاھلیہ “ قرار
دیتا ہے۔وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فریضہ امامت اور نماز کی
ادائیگی کے دوران بھی عورت کی پردہ پوشی کا پورا اہتمام فرماتے ہیں اور
مسلمان معاشرہ کی اعلیٰ روایات جو ایک جوان بیٹی کو اپنے والد کے سامنے بھی
برہنہ سر دیکھنا گوارا نہیں کرتیں‘ بھلا موجودہ دور کی حیاسوز اور شرمناک
”ماڈلنگ“ کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ قرآنی معاشرہ میں ایک خوش اندام‘چھیل
چھبیلی‘الھڑدوشیزہ کے سٹائلش‘ ننگے شانوں پر بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ
بھڑکیلے‘نیم عریاں اور چست لباس میں سیگرٹوں کے کش لگانے‘دریا اور سمندر کے
پانی میں غوطے لگانے اچھلنے کودنے ‘ قہقے لگانے اورمکمل دلربائی کے انداز
میں ڈائیلاگ ادا کرنے وغیرہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ان خرافات کو
صرف مغرب کا جنس زد بدتہذیب اور عورت کی عصمت و عفت کی اہمیت سے
ناآشنا‘مادرپدر آزاد معاشرہ ہی برداشت کرسکتا ہے۔مسلمان سوسائٹی کبھی کسی
تاجر کو اس امر کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ اپنی دکانداری چمکانے کی غرض
سے عورت کے جسم کا سہارا لے۔یہ نسوانیت کا کھلا استحصال ہے ۔اسلامی قوانین
میں عورت کی معاشی پوزیشن مرد سے بھی زیادہ مستحکم رکھی گئی ہے تاہم بہ امر
مجبوری اسلام عورت کو کسب رزق سے نہیں روکتا۔ اضطراری حالت میں وہ تعلیم
وتدریس‘طب صنعت وحرفت‘تجارت‘تصنیف و تالیف ‘ادب و صحافت‘غرض زندگی کے اکثر
شعبوں کے دروازے اس پر کھول دیتا ہے لیکن اس کڑی پابندی کے ساتھ کہ وہ اپنے
پیٹ کی آگ بجھاتے بجھاتے دوزخ کی آگ سے غافل نہ ہوجائے اور اپنی تمام تر
معاشی سرگرمیوں میں پاکیزگی نفس اور شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے نہ
چھوڑے!۔قرآن وسنت کی واضح ہدایات اور شاندار اسلامی تہذیب کے حوالوں کے بعد
والدین پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو دوزخ کی آگ کی طرف جانے
سے فوراً روک لیں۔اللہ تمام بہنوں ‘بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت فرمائے(آمین)۔ |