(۱) جنّات کا بادشاہ
ابوسَعد عبداﷲ بن احمد کا بیان ہے ، ایک بار میری لڑکی فاطمہ گھر کی چھت پر
سے یکایک غائب ہوگئی ۔ میں نے پریشان ہوکر سرکارِ بغداد حُضُورسَیِّدُنا
غوثِ پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوکر فریاد کی ۔ آ
پ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا ، کَرخ جاکر وہاں کے ویرانے میں رات
کے وقت ایک ٹیلے پر اپنے ارد گرد حِصار(یعنی دائرہ)باندھ کر بیٹھ جاؤ ۔
وہاں میرا تصوُّرباندھ لینا اوربِسمِ اللّٰہکہہ لینا۔ رات کے اندھیرے میں
تمہارے اِردگرد جنّات کے لشکر گُزریں گے ، ان کی شکلیں عجیب وغریب ہوں گی،
انہیں دیکھ کر ڈرنا نہیں ، سَحَری کے وقت جنّات کا بادشاہ تمہارے پاس حاضر
ہوگا اورتم سے تمہاری حاجت دریافْتْ کرے گا ۔ اُس سے کہنا، ’’مجھے شیخ
عبدالقادِر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبّانی نے بغدادسے بھیجا ہے تم میری
لڑکی کو تلاش کرو۔‘‘چنانچہ کَرخ کے ویرانے میں جاکر میں نے حُضُور غوثِ
اعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا۔ رات کے سَنّاٹے
میں خوفناک جِنّات میرے حِصار کے باہَر گزرتے رہے ۔ جِنّات کی شکلیں اس
قَدَر ہَیبت ناک تھیں کہ مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھیں۔ سَحَری کے وقت جنا ت
کا بادشاہ گھوڑے پر سُوار آیا، اس کے اِردگردبھی جِنّات کا ہُجُوم تھا ۔حِصار
کے باہَر ہی سے اُس نے میر ی حاجت دریافْتْ کی ۔ میں نے بتایا کہ مجھے حضور
غوثُ الاعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم نے تمہارے پاس بھیجا ہے ۔ اِتنا سننا تھا
کہ ایک دَم وہ گھوڑے سے اترآیا اورزمین پربیٹھ گیا، دوسرے سارے جِنّ بھی
دائرے کے باہَر بیٹھ گئے ۔ میں نے اپنی لڑکی کی گُمشُدگی کا واقِعہ سُنایا
۔ اس نے تمام جِنّات میں اعلان کیا کہ لڑکی کو کون لے گیا ہے؟چند ہی لمحوں
میں جِنّات نے ایک چِینی جِنّ کو پکڑ کر بطور ِمجرِم حاضر کردیا۔ جِنّات کے
بادشاہ نے اس سے پوچھا ، قُطبِ وقت حضرتِ غوثُ الاعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم
کے شہر سے تم نے لڑکی کیوں اٹھائی ؟وہ کانپتے ہوئے بولا ، عالی جاہ!میں
دیکھتے ہی اُس پر عاشق ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے اس چِینی جنّ کی گردن اُڑانے
کا حکم صادِر کیا اورمیری پیاری بیٹی میرے سِپُرد کردی۔ میں نے جِنّات کے
بادشاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ،ماشآء اﷲ عَزَّوَجَلَّ! آپ سیِّدُنا
غوث الاعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم کے بے حد چاہنے والے ہیں ۔ اس پر وہ
بولا،خدا کی قسم! جب حضور ِغوثُ الاعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم ہماری طرف نظر
فرماتے ہیں تو تمام جِنّات تھر تھر کانپنے لگتے ہیں ۔ جب اﷲ تبارَک وتعالیٰ
کسی قطبِ وقت کا تعیُّن فرماتاہے تو تمام جن وانس اس کے تابِع کردئیے جاتے
ہیں ۔
(بہجۃ الاسرارومعدن الانوار،ص۱۴۰،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
تھرتھراتے ہیں سبھی جِنّات تیرے نام سے
ہے ترا وہ دَبْدَبہ یا غوثِ اعظم دسْتْ گیر
(۲) عذابِ قبر سے رِھائی
ایک غمگین نوجوان نے آکر بارگاہ غَوثِیّت مآب علیہ رحمۃُ التّوّاب میں فریا
د کی ، یاسیِّدی !میں نے اپنے والدِ مرحوم کو رات خواب میں دیکھا ، وہ کہہ
رہے تھے ، ’’بیٹا!میں عذابِ قبر میں مبتلا ہوں ، تُو سیِّدُنا شیخ
عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سرُّہُالرَّباّنیکی بارگاہ میں حاضر ہوکر میرے
لیے دُعا کی درخواست کر۔ ‘‘یہ سن کرسرکارِ بغداد حُضورِغوثِ اعظم علیہ رحمۃ
اﷲ الاکرم نے اِستفسار فرمایا ، کیا تمہارے ابّاجان میرے مدرَسے سے کبھی
گزرے ہیں؟ اُس نے عرض کی ، جی ہاں ۔بس آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ خاموش ہوگئے
۔وہ نوجوان چلا گیا۔ دوسرے روز خوش خوش حاضِر خدمت ہوا اورکہنے لگا، یا
مرشِد!آج رات والدِ مرحوم سبزحُلَّہ (یعنی سبز لباس ) زیب تن کئے خواب میں
تشریف لائے وہ بے حد خوش تھے ، کہہ رہے تھے ،’’بیٹا ! سیِّدُنا شیخ
عبدُالقادر جیلانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّباّنی کی برکت سے مجھ سے عذاب دُور
کردیا گیاہے اوریہ سبز حُلَّہ بھی ملا ہے ۔میرے پیارے بیٹے !تُوان کی خدمت
میں رہاکر۔‘‘یہ سن کر آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ،میرے ربّ
عَزَّوَجَلنے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے،’’ کہ جو مسلمان تیرے مدرَسے سے گزرے
گا اس کے عذاب میں تخفیف ( یعنی کمی )کی جائے گی۔ ( ایضاً،ص۴ ۱۹)
نزع میں ، گورمیں، میزاں پہ سرِ پُل پہ کہیں
نہ چھُٹے ہاتھ سے دامانِ مُعلّٰی تیرا
(۳) مردے کی چیخ وپکار
ایک بار بارگاہ ِ غوثِیّت مآب علیہ رحمۃُ التّوّاب میں حاضِرہوکر لوگوں نے
عرض کی ، عالی جاہ!’’بابُ الْازج‘‘کے قبرِستان میں ایک قبر سے مردے کی چیخ
وپکار کی آوازیں آرہی ہیں ۔حُضور !کچھ کرم فرمادیجئے کہ بے چارے کاعذاب
دورہوجائے ۔آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا ،کیا اُس نے مجھ سے
خِرقۂ خِلافت پہنا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی، ہمیں معلوم نہیں ۔ فرمایا ، کیا
کبھی وہ میری مجلس میں حاضر ہوا؟لوگوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ فرمایا ،
کیا اس نے کبھی میرا کھانا کھایا؟لوگوں نے پھر لاعلمی کا اظہار کیا ۔ آپ
رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے پوچھا ، کیا اس نے کبھی میرے پیچھے نَماز ادا کی
؟لوگوں نے وُہی جواب دیا۔ آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے سرِاقدس ذرا سا
جُھکایا تو آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ پر جلال ووقار کے آثار ظاہِر ہوئے
اورکچھ دیر کے بعدفرمایا ، مجھے ابھی ابھی فِرِشتوں نے بتایا ، ’’اِس نے آپ
کی زیارت کی ہے اورآپ سے اسے عقیدت بھی تھی لہٰذا اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اس
پر رحم کیا۔‘‘الحمدﷲ عَزَّوَجَلَّ اسکی قبر سے آوازیں آنی بند ہوگئیں۔(
ایضاً ،ص۱۹۴)
بدسہی، چورسہی ، مجرِم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے توکریماتیرا
(۴) غوث پاک کا دیوانہ
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو آپ کے آبائی گاؤں کُتیانہ (گجرات
،الھند)کا ایک واقِعہ کسی نے سنایا تھا کہ وہاں ایک غوث پاک کا دیوانہ رہا
کرتا تھا جوکہ گیار ہو یں شریف نہایت ہی اہتمام سے مناتا تھا۔ ایک خاص بات
اس میں یہ بھی تھی کہ وہ سیِّدوں کی بے حد تعظیم کرتا ،ننّھے مُنّے
سیِّدزادوں پر شفقت کا یہ حال تھا کہ انہیں اُٹھائے اُٹھائے پھرتا اورانہیں
شیرینی وغیرہ خرید کر پیش کرتا ۔ اس دیوانے کا اِنتقال ہوگیا ۔ میّت پر
چادر ڈالی ہوئی تھی ، سوگوار جمع تھے کہ اچانک چادر ہٹا کر وہ غوث پاک کا
دیوانہ اٹھ بیٹھا۔ لوگ گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے ، اُس نے پکار کرکہا ، ڈرو
مت ، سنو تو سہی !لوگ جب قریب آئے تو کہنے لگا ، ’’بات دراصل یہ ہے کہ ابھی
ابھی میرے گیارہویں والے آقا ، پیروں کے پیر ، پیر دستگیر ، روشن ضمیر ،
قطبِ ربَّانی ، محبوب سبحانی، غوثُ الصَّمدانی ، قِندیلِ نورانی، شہبازِ
لامکانی، پیرِ پیراں، میرِمیراں،الشیخ ابو محمّد عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ
سِرُّہُ الرَّبّانی تشریف لائے تھے ،اُنہوں نے مجھے ٹھوکر لگائی اورفرمایا،
ہمارا مرید ہوکر بغیر توبہ کئے مرگیااٹھ اور توبہ کرلے۔لہٰذا مجھ میں روح
لوٹ آئی ہے تاکہ میں توبہ کرلوں ۔اِتنا کہنے کے بعد دیوانے نے اپنے تمام
گناہوں کی توبہ کی اورکلمۂ پاک کا وِرد کرنے لگا ،پھراچانک اس کا سرایک طرف
ڈَھلک گیا اوراس کا اِنتقال ہوگیا۔ ‘‘
رضا کا خاتمہ بالخیر ہوگا
اگررحمت تری شامل ہے یا غوث
سرکارِ بغداد حضور غوث پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے دیوانوں اورمریدوں کو
مبارَک ہوکہ سرکارِبغدادرضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :میرا مرید چاہے کتنا
ہی گنہگار ہو وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک توبہ نہ کرلے
۔(اخبارالاخیار،ص۱۹، فاروق اکیڈمی ضِلْع خِیرپور )
مجھ کو رُسوا بھی اگر کوئی کہے گا تو یُونہی
کہ وُہی ناوہ گدا بندۂ رُسوا تیرا
(۵) دل مُٹّھی میں ہیں
حضرتِ سیِّدُنا عمر بَزّاز رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، ایک بارجُمُعۃ
المُبَارَک کے رو زمیں حضورِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اﷲ الاکرم کے ساتھ جامِع
مسجد کی طرف جا رہا تھا ، میرے دل میں خیال آیا کہ حیرت ہے جب بھی میں
مُرشِد کے ساتھ جمعہ کو مسجد کی طرف آتاہوں تو سلام ومصافَحَہ کرنے والوں
کی بھیڑ بھاڑکے سبب گزرنا مشکل ہوجاتاہے ، مگر آج کوئی نظر تک اُٹھا کر
نہیں دیکھتا! میرے دل میں اس خیال کا آناہی تھا کہ حضور ِغوثِ اعظم علیہ
رحمۃ اﷲ الاکرم میری طرف دیکھ کر مسکرائے اوربس ، پھر کیا تھا!لوگ لپک لپک
کرمصافحہ کرنے کے لیے آنے لگے ۔ یہاں تک کہ میرے اورمرشدِ کریم علیہ رحمۃ
اﷲ الرحیم کے درمیان ایک ہجوم حائل ہوگیا ۔ میرے دل میں آیا کہ اس سے
تووُہی حالت بہتر تھی ۔ دل میں یہ خیال آتے ہی آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے
مجھ سے فرمایا : ’’اے عمر!تم ہی تو ہُجُوم کے طلبگار تھے ، تم جانتے نہیں
کہ لوگوں کے دل میری مٹھی میں ہیں اگر چاہوں تو اپنی طرف مائل کر لوں
اورچاہوں تو دور کردوں۔
(زُبدۃ الآثارمترجم، ص۹۴، مکتبہ نبویہ لاہور)
کُنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبَّت کا خزینہ تیرا
(۶) المد د یا غوثِ اعظم
حضرتِ بشرقرظی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کابیان ہے کہ میں شکر سے لدے ہو ئے
14اونٹوں سمیت ایک تجارتی قافلے کے ساتھ تھا۔ ہم نے رات ایک خوف ناک جنگل
میں پڑاؤ کیا۔ شب کے ابتدائی حصے میں میرے چار لدے ہوئے اونٹ لاپتا ہوگئے
جو تلاش بِسیار کے باوُجُود نہ ملے ۔ قافِلہ بھی کُوچ کرگیا، شُتُربان میرے
ساتھ رُک گیا۔ صبح کے وقت مجھے اچانک یا د آیا کہ میرے پیرومرشد
سرکارِبغداد حضور غوث پاک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا تھا’’ جب
بھی تُو کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو مجھے پکار ان شآء اﷲ عَزَّوَجَلَّ
وہ مصیبت جاتی رہے گی‘‘ چنانچِہ میں نے یوں فریاد کی : ’’یا شیخ عبدالقادر
!میرے اونٹ گم ہوگئے ہیں۔‘‘ یکایک جانبِ مشرِق ٹیلے پر مجھے سفید لباس میں
ملبوس ایک بزُرگ نظر آئے جو اشارے سے مجھے اپنی جانب بُلارہے تھے ۔ میں
اپنے شُتُر بان کو لے کر جُوں ہی وہاں پہنچا کہ یکایک وہ بُزُرگ نگاہوں سے
اوجھل ہوگئے ۔ ہم ادھر اُدھر حیرت سے دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک وہ چاروں
گمشدہ اونٹ ٹیلے کے نیچے بیٹھے ہوئے نظر آئے ۔ پھر کیا تھا ہم نے فوراً
انہیں پکڑ لیا اوراپنے قافلے سے جا ملے ۔
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |