از:مولاناغلام مصطفیٰ قادری رضوی
غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ رحمۃ الباری کی شان وعظمت پر آپ کے
دور سے لے کر آج تک مسلسل لکھا جارہا ہے بلا شبہ آپ کی باکمال شخصیت اہل
بغداد ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے سحاب کرم بن کر جلوہ گر
ہوئی۔ اس قادری چشمۂ علم و عرفاں سے لاکھوں دلوں کی روحانی تشنگی بجھی اور
ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، آپ کے عقیدت مندوں میں نہ صرف عوام بلکہ اولیائے
کاملین اور صوفیا واقطاب وابدال بھی ہیں اور سب نے آپ کی عظمتوں کا خطبہ
پڑھا اور اپنا سید وآقا مانا۔ چنانچہ شیخ ابو الغنائم بطلائحی بیان کرتے
ہیں کہ میں ایک وقت آپ کے دولت خانہ پر حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ چار
شخص آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، جنہیں میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا
تھا میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا جب یہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے تو آپ نے مجھ سے
فرمایا کہ جاؤ تم ان سے اپنے لیے دعائے خیر کراؤ۔ میں مدرسہ کے صحن میں ان
سے آکر ملا اور ان سے اپنے لیے دعا کرنے کا خواستگار ہو ا تو ان میں ایک
بزرگ نے مجھ سے فرمایا: تمہارے لیے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ تم ایسے شخص
کی خدمت میں ہو جس کی برکت سے خدائے تعالیٰ زمین کو قائم رکھے گا اور جس کی
دعا کی برکت سے تمام خلائق پر رحم کرے گا۔ دیگر اولیا کی طرح ہم لوگ بھی ان
کے سایۂ عاطفت میں رہ کر ان کے حکم کے تابعدار ہیں۔ یہ کہہ کر وہ چاروں
بزرگ چلے گئے پھر میں نے نہیں دیکھا۔
میں آپ کے پاس متعجب ہوکر واپس آیا تو قبل اس کے کہ میں آپ سے کچھ کہوں آپ
نے مجھ سے فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے تم سے کہا میری حیات میں تم اس کی کسی
کو خبر نہ کرنا۔ میں نے پوچھا : حضرت یہ کون لوگ تھے؟ آپ نے فرمایا: یہ لوگ
کوہ قاف کے رؤسا تھے اور اب یہ اپنی اپنی جگہ پر پہنچ گئے۔ (رضی اﷲ
عنہم)(قلائد الجواہر اردو ص:۸۸)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ السامی غوث اعظم کے سچے شیدائی تھے، ان
کے فدائی تھے، زندگی بھر ان کی شان وعظمت اور علم وعرفان کے گن گاتے رہے ،
محبت وعقیدت غوثیت آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ کی بارگاہ کا
ادب واحترام کا یہ عالم کہ زندگی بھر آپ نے بغداد شریف کی طرف پاؤں نہیں
پھیلائے۔ آپ کی مجلسوں میں غوث پاک کا تذکرے بڑے والہانہ انداز میں ہوتے
رہتے، آپ نے سرکار بغداد کی عظمت ورفعت کا بیان زبان سے بھی کیا اور قلم کے
ذریعہ بھی، متعدد فتاویٰ اور کتب ورسائل لکھ کر عقیدتوں کا خراج پیش کیا ۔
زندگی بھر ان کی محبت وفدائیت کا چراغ سینے میں جلتا رہا بلکہ ان کی غلامی
پر ناز کرتے رہے،ذرا نسبت قادریت کا یہ انداز دیکھیں
تجھ سے در در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا
امام احمد رضا نے نغمۂ غوثیت کیا چھیڑا کہ ہزاروں قلوب و اذہان مسلمین عش
عش کر اٹھے اور خود بارگاہ غوثیت مآب میں آپ کو یاد کیا گیا بلکہ سرکار غوث
جیلانی نے آپ کو اپنا نائب فرمایا․․․․․․․․امام احمد رضا نے عظمت شاہ بغداد
میں جو گلہائے عقیدت پیش کئے ان کے کچھ نمونے ملاحظہ کریں۔ فرماتے ہیں:اے
مسلمان! اے سنی بھائی! اے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان ارفع واعلیٰ
کے فدائی آفتاب وماہتاب پر ان کا حکم جاری ہونا کیا بات ہے؟ آفتاب طلوع
نہیں کرتا جب تک ان کے نائب ان کے وارث ان کے فرزند ان کے دل بند غوث
الثقلین ،غیث الکونین حضور پرنور سیدنا ومولانا امام ابو محمد شیخ عبد
القادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر سلام عرض نہ کرلے۔(الامن والعلیٰ:ص؍
۱۸۷؍مطبوعہ مالیگاؤں)
آگے ایک مستند کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘کے حوالے سے امام احمد رضا خاں رقمطراز
ہیں: امام اجل حضرت ابو القاسم عمر بن مسعود برادر حضرت ابو حفص عمر کمیاتی
رحمہما اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ہمارے شیخ حضور سیدنا عبد القادر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سے بلند کرۂ ہوا پر مشی فرماتے (چلتے)
اور ارشاد کرتے’’ آفتاب طلوع نہیں کرتا یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرلے، نیا
سال جب آتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں
ہونے والا ہے، نیا ہفتہ جب آتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا
ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے نیا دن جو آتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اور
مجھ پر خبر کردیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے‘‘۔
مجھے اپنے رب کی عزت کی قسم کہ تمام سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں
میری آنکھ لوح محفوظ پر لگی ہے یعنی لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے، میں اﷲ
عزوجل کے علم ومشاہدہ کے دریاؤں میں غوطہ زن ہوں، میں تم سب پر حجت الٰہی
ہوں، میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کا نائب ہوں اور زمین میں حضور
کا وارث ہوں۔(ایضاًص:۱۸۸ )
حضورغوث جیلانی امت مصطفوی میں ایسی روحانی بلندیوں پر فائز ہیں جہاں تک
کسی ولی کی رسائی حاصل نہیں ہوسکی، تمام اولیائے امت کی گردنیں آپ کے فضل
وکمال کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، آپ کا یہ اعلان’’ قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی
اﷲ‘‘ یعنی میرا یہ قدم تمام اولیا اﷲ کی گردن پر ہے، ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
امام احمد رضا سے اس سلسلے میں سوال ہوا کہ اس (ارشاد) سے یہ معلوم ہوتا ہے
کہ جن کی تفصیل قرآن واحادیث سے منصوص نہیں ایسے ماورا متقدمین ومتاخرین سے
ان کو فضیلت ہے اور حضرت شیخ احمد سرہندی کے آخر مکتوبات میں ہے کہ مجدد
ونائب مناب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہیں اصل منبع فیوض حضرت غوث
الثقلین ہیں پس اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت غوث الاعظم ان سب اولیا
سے افضل ہیں اور ان کے بعد خواجہ خواجگاں بہاؤالدین نقشبندی قدس سرہ و حضرت
خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ سب کے سب حضرت غوث الاعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کے نائب ہیں تو یہ عقیدہ بخیال صوفیہ جائز ہے یا جائز نہیں۔
اب امام احمد رضا کا جواب سنئے، فرماتے ہیں ـ’’ عقیدہ وہ چیز ہے جس کا
اعتقادمدار سنیت اور اس کا انکار بلکہ اس میں تردد گمراہی و ضلالت ا س قسم
کے امور ان مسائل سے نہیں ہوتے ہیں وہ مسلک جو ہمارے نزدیک محقق ہے اور
بشہادت اولیا وشہادت سیدنا خضر علیہ السلام مرویات اکابر ائمہ کرام ثابت ہے
یہ ہی ہے کہ باستثنا ان کی جنکی فضیلت منصوص ہے جیسے جملہ صحابہ کرام وبعض
اکابر تابعین عظام کہ والذین اتبعوہم باحسان ہیں اور اپنے ان القاب سے
ممتاز ہیں ولہٰذا اولیا وصوفیہ ومشائخ ان الفاظ سے ان کی طرف ذہن نہیں جاتا
اگر چہ وہ خود سرداران اولیا ہیں۔ وہ کہ ان الفاظ سے مفہوم ہوئے ہیں۔ حضور
سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ہوں جیسے سائر اولیائے عشرہ
کہ احیائے موتٰی فرماتے تھے خواہ حضور سے متقدم ہوں جیسے حضرت معروف کرخی
وبا یزید بسطامی وسید الطائفہ جنید و ابوبکر شبلی وابو سعید خراز اگر چہ وہ
خود حضور کے مشائخ ہیں اور حضور کے بعد ہیں جیسے حضرت خواجہ غریب نواز
سلطان الہند وحضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی وحضرت سیدنا بہاؤ الملۃ
والدین نقشبند اور ان کے اکابر کے خلفا ومشائخ وغیرہم قدس اﷲ اسرارہم وافاض
علینا برکاتہم وانوارہم حضور سرکار غوثیت مدار بلا استثنا ان سب سے اعلیٰ
واکمل وافضل ہیں اور حضور کے بعد جتنے اکابر ہوئے اور تا زمانہ سیدنا امام
مہدی ہوں گے کسی سلسلہ کے ہوں یا سلسلہ سے جدا افراد ہوں غوث قطب امامین
اوتاد اربعہ بدلائے سبعہ ابدال سبعین نقبا نجبا ہر دور کے عظما کبراسب حضور
سے مستفیض اور حضور کے فیض سے کامل ومکمل ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ۱۲؍۲۲۲؍مطبوعہ
رضا اکیڈمی ممبئی)
بحمدہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں خدا ورسول جل جلالہ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کی محبت وعظمت کے ساتھ تمام محبوبان الٰہی کی عقیدت والفت ہے، ان کی شان
وعظمت کے چراغ روشن ہیں ہم ان سب کو ان کے مرتبہ ومقام کے اعتبار سے جانتے
اور مانتے ہیں مگر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں عجیب قسم کے سوالات پیدا ہوجاتے
ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے سوال ہو اکہ امام اعظم ابو حنیفہ افضل ہیں
حضرت غوث اعظم پر یا عکس اس کا؟
جواب میں امام احمد رضا یوں گویا ہوئے:امام عبد الوہاب شعرانی میزان
الشریعہ الکبریٰ میں فرماتے ہیں: الامام ابو حنیفۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سئل
عن الاسود والعطا وعلقمۃ ایہم افضل فقال واﷲ ما نحن باہل ان نذکرہم فکیف
نفاضل بینہم ‘‘یعنی ایک روز امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا امام
علقمہ وامام اسود شاگردان حضرت سیدنا عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہم میں کون
افضل تھا؟ فرمایا ’’ ہم ان کے ذکر کرنے کے قابل نہیں نہ کہ ان میں ایک کو
دوسرے سے افضل بتائیں۔ حضرت امام رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد تواضعاً تھا اور
یہاں قطعاً حقیقت امر ہے، حاشا ﷲ! ہمارے منہ اس قابل نہیں کہ حضور سیدنا
امام اعظم یا حضور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ عنہما کا نام پاک اپنی زبان سے
لیں ،یہ بھی رحمت الٰہیہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوبوں کے ذکر کی اجازت دی
ہے، ہم کس منہ سے ان میں تفاضل بیان کریں وہ ہماری شریعت کے امام اور یہ
ہماری طریقت کے امام۔ (فتاویٰ رضویہ:۱۱؍۳۲)
دیکھا آپ نے ادب واحترام کے موتی ہر ہر سطر میں چمک رہے ہیں، کتنے خوبصورت
پیرایۂ بیان میں مسئلہ کا حل بتادیا۔ عقیدت اکابرین سے لبریز دل ہی سے ایسی
باتیں نکل سکتی ہیں۔
حضور غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اﷲ رب العزت کی عطا سے کئی اختیارات
وتصرفات سے مالامال تھے۔ آپ کی حیات وسیرت کے درخشاں پہلوؤں میں اس کی
متعدد مثالیں ملتی ہیں، آپ کی کرامتوں سے کتب سیرت غوث اعظم بھری ہوئی ہیں۔
آپ اپنے چاہنے والوں کی دستگیری اور فریاد رسی فرماتے ہیں اور مصیبتوں کو
ٹالتے ہیں، دورونزدیک جہاں سے آپ کو پکارا گیا فوراً مدد کو آپہنچے۔خود
فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنی مصیبت میں میری مدد چاہے گا تو اس کی مصیبت رفع کردی جائے گی
اور جو شخص شدت کرب میں میرا نام لے کر پکارے گا تو اس کی مصیبت دور ہوجائے
گی۔(شانِ غوث اعظم،ص: ۲۱۹)
امام احمد رضا سے پوچھا گیا کہ غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دستگیر کہنا
جائز ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں خامۂ رضا یوں چلا:
’’حضور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ضرور دستگیر ہیں اور حضرت سلطان
الہند معین الحق والدین ضرور غریب نواز۔
سیدنا امام ابو الحسن نور الدین بہجۃ الاسرار شریف میں سیدنا ابو القاسم
بزاز قدس سرہ سے روایت فرماتے ہیں :
’’یعنی میں نے اپنے مولیٰ حضرت سید شیخ عبد القادر جیلانی رضی اﷲ عنہ کو
بار ہا فرماتے سنا کہ میرے بھائی حسین حلاج کا پاؤں پھسلا ان کے وقت میں
کوئی ایسا نہ تھا کہ ان کی دستگیری کرتا، اس وقت میں ہوتا تو ان کی دستگیری
فرماتا اور میرے اصحاب اور میرے مریدوں اور مجھ سے محبت رکھنے والوں میں
قیامت تک جس سے لغزش ہوگی میں اس کا دستگیر ہوں۔ والحمد ﷲ رب العالمین۔
شاہ ولی اﷲ صاحب اور شاہ عبد العزیز صاحب درکنار خود اسمٰعیل دہلوی نے
جابجا حضور کو سرکار غوث اعظم سے یاد کیا ہے، فریاد رسی ودستگیری نہیں تو
کیا ہے‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ؍۱۱؍۴۴)
اس طرح کی درجنوں مثالیں امام احمد رضا کی کتب ورسائل اور فتاویٰ میں ملتی
ہیں جو غوث پاک رضی المولیٰ عنہ کی عظمت وشان بیان کرتی ہیں ،امام موصوف بے
شک محب غوث اعظم تھے بلکہ فنا فی الغوث تھے ۔ زندگی بھر ان کی محبت کے گن
گاتے رہے اور مسلمانوں کو محبت غوثیت کا جام پلاتے رہے
مرغ سب بولتے ہیں بول کے چپ رہتے ہیں
ہاں اصیل ایک نوا سنج رہے گا تیرا (حدائق بخشش) |