متحدہ قومی موومنٹ کے حکومت سے
علیحدگی کے چھٹے روزآخرکار پیپلز پارٹی نے نئے بلدیاتی قانون سے چھٹکارا
حاصل کرہی لیاجس کی وجہ سے اسے سندھ میں سیاسی مخالفت کا سامنا تھا،سندھ
اسمبلی نے سندھ کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979ءبحال کرنے کا بل کثرت رائے سے
منظور کر لیا۔یہ بل”سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 کی منسوخی اورسندھ
لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کی بحالی کا بل 2013ئ“ کہلائے گا۔ پیپلزپارٹی کے
ساتھ ساتھ مسلم لیگ (فنکشنل)، مسلم لیگ(ہم خیال)، نیشنل پیپلزپارٹی، عوامی
نیشنل پارٹی اورمسلم لیگ (ق)نے حمایت کی، بل کے حامی ارکان بلند آواز میں
”ہاں ہاں“ کے نعرے لگاتے رہے‘ جبکہ ایم کیو ایم کے ارکان ”نو، نو اور،ظلم
کے ضابطے،ہم نہیں مانتے“ کے نعرے لگاتے رہے۔ انھوں نے اسپیکرڈیسک کے سامنے
بھی جاکراحتجاج کیااوربل کی کاپیاں پھاڑکرپھینک دیں۔بل کی منظوری پر
پیپلزپارٹی اوربل کی حامی دیگرپارٹیوں کے ارکان نے ڈیسک بجاکرخوشی کا اظہار
کیااور گلے لگ کرایک دوسرے کو مبارک باددی۔ایم کیوایم کے ارکان نے اس بل کی
منظوری پرسخت احتجاج کیا اوراجلاس سے بائیکاٹ کیا،بل کی منظوری کے بعدایوان
کے اندربھی خوشی سے نعرے بازی ہوتی رہی اورایوان کے باہربھی پیپلز پارٹی کے
کارکنان اور بل کے حامی نعرے بازی کرتے رہے۔ زبردست ہنگامہ آرائی اور شور
شرابے میں بل صرف 11 منٹ میں منظور کر لیا گیا۔
ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈرفیصل سبزواری نے کہا ہے کہ چند ماہ قبل
تک پیپلزپارٹی کے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ نیابلدیاتی قانون ایک نسخہ کیمیا
ہے جس سے سندھ کے عوام کی قسمت جاگ جائے گی اورانہیں نچلی سطح پربنیادی
شہری سہولیات ملیں گی، اب یہ قانون اچانک خراب ہوگیا، کیا یہ تماشہ اورتضاد
بیانی نہیں؟۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2002ءکو اس لیے مسترد کردیاگیا تھا
کہ اسے ایک فوجی آمر پرویزمشرف کا قانون کہا گیالیکن 1979ءکا آرڈیننس کیایہ
ایک اور فوجی جنرل ضیاالحق کا دیا ہوا نہیں ہے؟۔بدقسمتی سے سندھ میں سیاسی
ایشوز کو انتظامی امورسے خلط ملط کردیا گیاہے۔ جو کچھ آج سندھ اسمبلی میں
ہواہے یہ سیاسی شعبدے بازی ہے،سندھ کے عوام کے ساتھ بھلائی کافیصلہ نہیں
ہے،ہم سندھ کے باسی ہیں،یہاں ہمیں عوام کو اچھی گورنس دینی چاہیے۔انہیں
خدمات مہیا کرنی چاہیے اور ان کے مسائل حل کرنے چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا،
ہم سندھ کے باسیوں سے شرمسارنہیں ہیں، جب تک ہم مخلوط حکومت میںتھے، ہم نے
ایسا نہیں ہونے دیا اور جب ہمیں اختیار ملے گا اور سندھ اسمبلی میں اکثریت
ملے گی تو ہم 2012ءوالا قانون واپس لیں آئیں گے۔
ایم کیو ایم کے ارکان کے چلے جانے کے بعد سینیئر وزیر پیرمظہر الحق نے کہا
کہ ایم کیو ایم کے لوگ ہم پرالزامات لگا کر چلے گئے اورہماری بات نہیں
سنی،یہ انتہائی غیر پارلیمانی رویہ ہے،سارے نظام اچھے ہوتے ہیں لیکن ان پر
عمل درآمد ہوناچاہیے،ایم کیو ایم نے بلدیاتی نظام کے لیے جو بھی تجاویز دیں
ہم نے انہیں شامل کیا۔ ہم نے ان کی وجہ سے سیاسی مخالفت کا سامنا کیا لیکن
یہ ہماری پیٹھ میں چھڑا گھونپ کرچلے گئے،یہ وزارتیں بھی کرتے رہے اور حکومت
میں بھی رہے اورجاتے ہوئے ہمیں خدا حافظ بھی نہیںکہا۔پیرمظہر الحق نے سندھی
کی ایک کہاوت بیان کی،جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ”کھاتے وقت ساتھ ،سوتے وقت
مسجد میں“۔انھوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کا اب سیاسی کھیل ختم ہوچکا،اب ان کا
مسئلہ یہ ہے کہ ”میں کیر پاسے جاواں تے میں منجھی کتھے ڈھاواں“، ایم کیو
ایم والے ہمارے بھائی ہیں لیکن وہ سیاسی اسکور بناکرچلے گئے،سندھ حکومت نے
کراچی کے لیے اربوں روپے دیے۔ ایم کیو ایم والے ہمارے ساتھ تعاون بھی نہیں
کرتے اورہمیں بتاتے بھی نہیں کہ وہ ہمیں کیوں چھوڑرہے ہیں،سندھ پرسیاست
نہیں کرنی چاہیے،سندھ ہماری ماں ہے، جو بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے
گا، اس کی آنکھیں نکال لیں گے،کوئی کہتا ہے کہ ہم سندھ کے ٹکڑے کردیں
گے،کوئی کہتا ہے کہ ہم سندھ کو آدھا تقسیم کردیں گے، لیکن کوئی مائی کا لال
ایسا پیدانہیں ہواجو سندھ کوتقسیم کرسکے،ہماری مفاہمت کی کوششوںکو گندا
کیاگیا،ہم مل جل کر رہتے تو اچھا ہوتا،ایم کیو ایم نے ہمیں چھوڑاہے ہم نے
انہیں نہیں چھوڑا۔ بلدیاتی نظام پر یوٹرن نہیں لیا، نئے بلدیاتی نظام کی
واپسی پر سیاسی دکان چمکانے والے اپنی موت آپ مرگئے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے نئے بلدیاتی قانون کی منسوخی
اور 1979 والے بلدیاتی نظام کی بحالی کو اپنی فتح قرار دیا ہے اور کہا کہ
سندھ کے عوام کے ساتھ مل کر جو جدوجہد شروع کی تھی وہ بالآخر کامیاب ہوئی
ہے۔ سندھ کے عوام کے لیے آج بڑا مبارک دن ہے اور سندھ کو تقسیم کرنے والا
نظام واپس لے لیا گیا ہے۔ بلدیاتی آرڈی ننس 1979ءسندھ کے عوام کے دباو ¿ کی
وجہ سے بحال ہوا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی خوفزدہ ہے کہ انہیں سندھ کے عوام
قبول نہیں کریں گے۔اس لیے ان کو سندھ کے عوام کی سوچ کا اندازہ ہوا ہے اور
1979ءکا بلدیاتی نظام بحال کیا ہے۔پی پی کو چاہیے کہ عوام سے معافی مانگے
۔سندھ کے عوام کے لیے آج خوشی کا دن ہے۔ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا
ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی زبان کو پاس
رکھتے ہوئے اپنے اس فیصلے پر قائم رہے جو انہوں نے آج بلدیاتی آرڈی ننس کی
بحالی کی شکل میں کیا ہے۔ایسا نہ ہو کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے
بعد یہ اپنی زبان سے پھر جائیں ، پیپلزپارٹی اب اگر سندھ کے عوام کے ساتھ
بے وفائی کی تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔نواز لیگ نے پرانے
بلدیاتی بل کی منظوری کو پی پی اور ایم کیو ایم کی ملی بھگت قرار دے دیا
ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ دونوں
جماعتیں اس بل کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کریں گی۔
یاد رہے کہ سندھ میں 31 دسمبر 2010ءکے بعد 1979ءوالا پرانا بلدیاتی نظام
جمعرات کو چوتھی دفعہ بحال ہوا لیکن اب تک نہ تو 1979ءوالا نظام پوری طرح
نافذ ہوسکا ہے اور نہ ہی جنرل پرویزمشرف والا شہری ضلعی حکومتوں والے نظام
کے تحت قائم ادارے پوری طرح ختم ہوسکے ہیں۔ اب بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ
سکتا کہ سندھ میں پرانا بلدیاتی نظام نافذ بھی ہوسکے گا یا نہیں کیونکہ
جمعرات کو سندھ اسمبلی نے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس ایل جی او)
1979ءکی بحالی اور سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے)
2012ءکی منسوخی کے لیے جو بل منظور کیا، اگر اس کی گورنر سندھ نے موجودہ
اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے توثیق نہ کی تو یہ بل قانون نہیں بن سکے گا
اور پرانے نظام کی بحالی کا معاملہ لٹک جائے گا۔ 31 دسمبر 2010ءتک جنرل
پرویز مشرف والے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس ایل جی او)2002ءکو آئینی
تحفظ حاصل رہا اور سندھ میں شہری ضلعی حکومتوں کا نظام نافذ رہا۔ یکم جنوری
2011ءکو ایس ایل جی او از خودغیر موثر ہوگیا اور پرانا ایس ایل جی او
1979ءبحال ہوگیا لیکن پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کی
باہمی رضامندی سے جنرل پرویز مشرف والے نظام کو آرڈیننس کے ذریعہ 8 جولائی
2011ءتک جاری رکھا گیا اور 7 اگست 2011ءکو سندھ میں دو بلدیاتی نظام نافذ
کرنے کا آرڈیننس جاری کردیا گیا جس کے تحت کراچی میں ایس ایل جی او
2002ءوالا نظام دوبارہ بحال کیا گیا جبکہ سندھ کے دیگر اضلاع کیلئے ایس ایل
جی او 1979ءوالا بلدیاتی نظام برقرا رکھا گیا، اس دہرے بلدیاتی نظام کے
خلاف سندھ بھر میں زبردست احتجاج ہوا اور ایک ہی دن میں یہ آرڈیننس واپس لے
کر 8 اگست 2011ءکی صبح ایک نیا آرڈیننس جاری کیا گیاجس کی مدت 6 نومبر
2011ءکو ختم ہوگئی اور تیسری مرتبہ ایس ایل جی او 1979ءوالا نظام بحال
ہوگیا اور 10 ماہ بعد 7 ستمبر 2012ءکو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے
سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او)2012ءجاری کیا۔ یکم
اکتوبر 2012ءکو سندھ اسمبلی نے اس آرڈیننس کو قانون کی شکل دینے کیلئے
قانون منظورکرلیا اور یہ سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے)
2012ءبن گیا جسے 21 فروری 2013ء کو منسوخ کردیا گیا اور ایس ایل جی او
1979ءچوتھی دفعہ بحال ہوا ہے۔ 16 مارچ 2013ءکو موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم
ہوجائے گی اس سے پہلے 21 فروری 2013ءکے منظور کردہ بل کو ایکٹ بننا ہے۔ اگر
گورنر سندھ نے 16 مارچ سے پہلے اس کی توثیق نہ کی تو یہ ایکٹ نہیں بن سکے
گا اور سندھ میں قانونی طور پر ایس پی ایل جی اے 2012ءنافذ رہے گااور
1979ءوالے بلدیاتی نظام کی بحالی کا معالمہ لٹک جائے گا۔ |