شہر کے سب سے بڑے نجی سکول کے
سامنے ایک وسیع و عریض کھیل کا میدان تھا۔کھیل کے میدان اور سکول کی عمارت
کے درمیان ایک بڑی کشادہ سڑک تھی جو انھیں الگ کرتی تھی ۔یہ شاہراہ ملک کے
بڑے شہروں کی جانب جانے والی بھاری ٹریفک کی وجہ سے بہت مصروف رہتی تھی ۔سکول
کی عمارت ختم ہوتی تو اس کے سامنے کھیل کے میدان کی حدود بھی ختم ہوجاتی
تھیں ۔اس کے آگے کچی آبادی آ جاتی جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے سے بھی ابتر
تھا ۔اس کچی آبادی سے ملحق ایک گندے پانی کا جوہڑ تھا جس میں پورے شہر کا
عفونت زدہ آلودہ گندا پانی اکٹھا ہوتا تھا ۔اس جوہڑ میں صرف گندہ پانی ہی
نہیں پورے شہر کی آلودگی ،غلاظت اور گناہ کی عفونت پھینک دی جاتی تھی اس
لیے یہاں سے ہر وقت سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے رہتے ۔اسی کچی آبادی میں نتھو
کباڑیا بھی رہتا تھا جو کوڑے کے ڈھیرکو کرید کر کچھ چیزیں اکٹھی کرتا ان
میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں ،پرانے جوتے ،پرانے کپڑے اور پلاسٹک یا لوہے کی
ٹوٹی پھوٹی اشیا شامل تھیں ۔یہ مقدر کے کھیل ہیں کوئی تو سونے کا چمچہ منہ
میں لے کر دنیا میںآتا ہے اور کوئی تمام عمر کوڑے کے ڈھیر کرید کرید کر پیٹ
کا دوزخ بھرنے کے لیے چند ٹکوں کی تلاش میں در بہ در اور خاک بہ سر رہتا ہے
۔نتھو کباڑیا کئی واقعات اور لا تعداد داستانوں کے سر بستہ راز اپنے سینے
میں لیے زندگی کے دن پورے کر رہا تھا ۔وہ اکثر اس بات پر شاکی رہتا کہ سگان
راہ دم دبائے کوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کی ہڈیاں تلاش کرکے اپنا الو
سیدھا کر لیتے ہیں یا یہی خارش زدہ سگان آوارہ در کسریٰ کو چاٹ کر اور اپنی
عزت و ناموس کو نیلام کرکے اونچی اڑانیں بھرتے پھرتے ہیں ۔ان کی پستی جس حد
تک جا پہنچتی ہے اس کا انھیں مطلق احساس نہیں تھا کہ وہ ضمیر کا گلا گھونٹ
کر باعث ننگ و عار بن گئے ہیں اور زمیں کا بوجھ بن چکے ہیں ۔بے غیرتی ،بے
ضمیری ،بے حیائی اور بے حسی جب انتہاکو پہنچ جائے تو انسان درندگی کی حد کو
چھو لیتا ہے ۔
نتھو کی زندگی میں کئی یادیں اس قدر تلخ تھیں کہ ان کا ذکر کرتے وقت اس
کاآنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں ۔گندے پانی کے جو ہڑ کے کنارے
کوڑے کے ڈھیر پر وہ ہمیشہ صبح تین بجے پہنچ جاتا تھا۔گزشتہ ستر سال سے یہ
اس کا معمول تھا۔اس عرصے میں اسے ہر سال اس کوڑے کے ڈھیر سے نرم کپڑوں میں
لپٹے نو مولود بچے ملتے جو ماں کے گناہ اور باپ کی عیاشی ،بد معاشی اور
سفاکی کا منہ بو لتا ثبوت تھے ۔ان مشکوک نسب کے نو مولود بچوں کو وہ ان بے
اولاد والدین کو دے دیتا جنھوں نے اس کو یہ کام ذمے لگا رکھاتھا ۔یہ کام وہ
بے لوث انداز میں جاری رکھے ہوئے تھا اس کے عوض وہ کوئی معاوضہ کسی صورت
میں لینے پر آمادہ نہ ہوتا ۔ایک بات کا خیال نتھو کباڑیا ضرور رکھتا کہ
مشکوک نسب کے ان نو مولود بچوں کو ان ضرورت مند والدین کے سپرد کیا جائے جو
ان کی کفالت اور تربیت کی استعداد رکھتے ہوں ۔عام طور پر متمول طبقہ ہی ان
بچوں کی تلاش میں رہتا تھا ۔کبھی کبھی تو نتھو یہ سوچ کر دل گرفتہ ہو جاتا
کہ ان بچوں کے والدین پر کیا افتاد پڑی کہ انھوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو
کپڑے میں لپیٹ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔یہ لعل و جواہر کس بے دردی سے
عفونت زدہ ماحول میں پھینک دئیے جاتے تھے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو
آتا تھا۔اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں
اڑا کے رکھ دیتی ہے ۔بعض اوقات ایسا بھی ہو ا کہ اس نے نو مولود بچوں کو
پھینکنے والوں کو دیکھا اور ان کو پہچان بھی لیا مگر اس نے لب اظہار پر
ایسے تالے لگا رکھے تھے کہ کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکا ۔وہ اچھی طرح جانتا
تھا کہ سچ کہنے سے جب شعلےے بلند ہوتے ہیں تو اس میں سب کچھ جل کر راکھ ہو
جاتا ہے ۔نتھو اچھی طرح جانتا تھا کہ کون سا بچہ کس کے گھر پل کر جوان ہوا
ہے اور اس کا پس منظر کسی کو معلوم نہ تھا۔مخمل میں ٹا ٹ کے پیوند کس کس
جگہ لگے ہیں یہ راز صرف نتھو کباڑیا ہی جانتا تھا ۔
نتھو کی تمام زندگی اسی کباڑ خانے کی بھینٹ چڑھ گئی ۔اب اس کے تما م اعضا
مضمحل ہو چکے تھے ۔وہ چاہتا تھاکہ اس کا اکلوتا بیٹا پھتو جو اب جوانی کی
حدود میں قدم رکھنے والا تھا اس دھندے میں نہ پڑے بل کہ دو وقت کی روٹی
پوری کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈے ۔ منشیات کے تمام عادی ریلوے سٹیشن
کے مسافر خانے میں رات کو اکٹھے ہوتے اور یہ تاثر دیتے کہ وہ اپنے عزیزوں
کی آمد کے منٹطر ہیں ۔قلی اور سٹیشن کاتمام عملہ ان کے قبیح کردا رسے آگا ہ
تھا ۔یہ سب اپنی حفاظت کے لیے متعلقہ لوگوں کی مسلسل مٹھی گرم کرتے رہتے
تھے اس طرح جیب تراشی ،چوری اور منشیات کے دھندے سے ان کے گھروں کا چولھا
کبھی ٹھنڈا نہ ہوتا تھا ۔بڑے غورو خوض اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ طویل
مشاورت کے بعد نتھو کباڑئیے نے اپنے بیٹے پھتو کوایک خوانچہ بنا کر دیا اور
اسے گلی گلی گھوم کر رزق کمانے پر آمادہ کر لیا۔پھتو اپنی ٹوکری میں آلو
چھولے ،شکر قندی ،مکئی کے ابلے ہوئے بھٹے ،دال سوئیاں ،ٹافیاں اور موسم کے
پھل لے کر سکول کے دروازے کے سامنے جا کر بیٹھ جاتا ۔سکول میں جب تفریح کا
وقفہ ہوتا تو طالب علم اس کے پاس آتے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تما م
چیزیں بک جاتیں ۔سہ پہر کو وہ پھر سے خوانچہ لگا کر گلیوں میں گھومتا اور
اس طرح خواتین خانہ بھی اس کی خستہ چیزیں بڑے شوق سے خریدتیں ۔ایک شام کو
وہ گلاب والے محلے میں سے گزر رہا تھا کہ ایک لڑکی نے اسے پکارا :
”اوئے خوانچے والے ! ادھر آنا“
اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ایک چندے آفتاب
چندے ماہتاب لڑکی اس سے مخاطب تھی ۔ساڑھے پانچ فٹ لمبی لڑکی، کھلی سیاہ
گھنی لمبی زلفیں جو گھٹنوں سے بھی نیچے پڑ رہی تھیں ۔ بادامی آنکھیں اور
دانت جیسے موتیوں کی لڑی ۔اس حسینہ کو دیکھ کر وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا
تھا ۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح گفتگو کا آغاز کرے ۔رنگ
خوشبو اور حسن و خوبی کے تما م استعارے اس حسینہ میں مجسم ہو گئے تھے ۔لڑکی
نے غصے سے کہا :
”تم کیا بیچ رہے ہو ؟ذرا آواز تو لگاﺅ ۔ اور یہ تم میری طرف ندیدوں کی طرح
گھور کر کیوں دیکھ رہے ہو ؟ کیا تم ہوش میں تو ہو ؟مجھے تو تم کوئی احمق
اور جنسی جنونی لگتے ہپو ۔تم نے پہلے کبھی کوئی حسین لڑکی نہیں دیکھی ؟پہلے
اپنی اوقات دیکھ لو پھر میری طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنا۔تف ہے ایسی
سوچ پر ۔“
پھتو نے کانپتے ہوئے کہا ”جی نہیں ۔ آپ جیسی نہیں ۔۔بالکل نہیں ۔میرے پاس
شکر قندی اور آلو چھولے ہیں ۔میں گلی گلی گھوم کر یہ چیزیں بیچتا ہوں اور
اس طرح اپنی روزی کماتاہوں ۔“
” خوب طریقہ ڈھونڈا ہے حسین لڑکیوں کو تاڑنے کا “ حسینہ بولی ”اچھا مجھے
پانچ روپے کی شکر قندی اور آلو چھولے ملا کر دو اور اس پر کھٹاس ،مرچ
مصالحے خوب چھڑکنا ۔“
حسینہ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس قدر تنو مند ،وجیہہ اور درازقد نو
جوان کس قدر تکلیف دہ حالات میں زندگی کے دن پورے کر رہا ہے ۔خوانچے والے
کا بھر پور شباب اس کے انگ انگ سے جھلک رہا تھا ۔ایک لمحے کے لیے اس کا دل
مچلا کہ اس نو جوان کے ساتھ پیار بھری باتیں کی جائیں لیکن دوسرے ہی لمحے
اس پر سادیت پسندی (Sadism)نے غلبہ پا لیااور اس نے دل پر جبر کر کے اس نو
جوان کی توہین ،تذلیل اور تحقیر کرنے کی ٹھا ن لی ۔وہ لذت ایذا حاصل کرنا
چاہتی تھی یہی اس کا وتیرہ بن گیا تھا ۔ حسن بے پروا کے غرور نے اسے خلوص
اور دردمندی سے دور کر دیا تھا۔اس کی چال ایسی تھی جیسے کڑی کمان کا تیر
اور نگاہوں کے تیر سیدھے دیکھنے والوں کے دل میں پیوست ہوجاتے تھے ۔دونوں
ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے ۔آنکھوں آنکھوں میں کئی اشارے
ہوئے مگر دل کی بات لبوں پر لانے کی نوبت نہ آ سکی ۔ تابندہ نے اپنے لیے
خوابوں کا جو شہزادہ سوچ رکھا تھا اس کی جسمانی ساخت اس خوانچے والے سے
ملتی تھی ۔
پھتونے ردی کا ایک پرانا اور بو سیدہ کا غذ نکاال اور اس پر شکر قندی کاٹنے
والا تھا کہ حسینہ نے قہر بھری آواز سے کہا :
”اب میں اس میلے کچیلے رد ی کا غذ میں شکر قندی کھاﺅں گی !تمھارے پاس
ڈسپوزیبل پلیٹ نہیں ؟گندے ،غلیظ ،احمق خوانچے والے ۔تم تو سادہ لوح لوگوں
کو ان غلیظ کاغذوں میںزہر کھلاتے پھرتے ہو ۔تم پکے حرام خور ہو اور میں تم
کو اس غلطی کی سزا ضرور دوں گی ۔میں تمھیں معصوم بچوں کی صحت سے کھیلنے کی
اجازت کبھی نہیں دوں گی ۔“
” جی میرے پاس جو کچھ ہے وہ میں نے حاضر کر دیا ہے “پھتو نے بڑی لجاجت سے
کہا ”اگر آپ کو میری چیزیں گندی لگتی ہیں تو نہ خریدیں اپنے گھر میں تیار
کر کے اعلیٰ قسم کے برتنوں میں کھائیں ۔“
”بد زبان خوانچے والے !تمھاری یہ جر اًت کہ تم مجھے سامنے سے جواب دیتے ہو
۔“حسینہ نے کہا ”میرا نام تا بندہ ہے اور مجھے اس گلی کے سب لو گ جانتے ہیں
میرا کاٹا تو پانی بھی نہیں مانگتا ۔ابھی تمھیں سبق سکھاتی ہوں ۔زبان
درازاور بد معاش کہیں کے ۔تمھیں معلوم ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی
ہوں۔لوگ کہتے ہیں کہ پورے خاندان میں بل کہ پورے ملک میں کوئی مجھ سے حسین
لڑکی نہیں۔کسی کو میرے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں اور تم ہو کہ مسلسل
اپنی ہانکے چلے جا رہے ہو۔بد تمیز ،پاجی پھیری والے !“
”بس اس سے آگے ایک لفظ بھی نہ کہنا“ اگرچہ پھتو گالیاں کھا کے بھی بے مزا
نہ ہوا تھا لیکن اس کے با وجود جعلی رعب ڈالتے ہوئے پھتو نے کہا”آپ کو گالی
دینے کا کوئی حق نہیں ۔آپ اپنی حد میں رہیں ۔کسی غریب مجبور اور بے بس
مزدور کو گالیاں دینا شرافت نہیں ۔ہم پھیری والے ضرور ہیں لیکن ہیرا پھیری
والے ہر گز نہیں ۔آج کی دنیا میں لوگ ہیرا پھیری سے کالا دھن کما کر عیاشی
کرتے ہیں جب کہ ہم غریب لوگ خون پسینہ ایک کر کے رزق حلال کماتے ہیں ۔۔“یہ
سنتے ہی حسینہ غصے میں آپے سے باہر ہو گئی اور اس نے نہایت حقارت سے خوانچے
والے سے مخاطب ہو کر کہا :
’ ’اچھا تواب تم ہمیں شرافت کا سبق پڑھاﺅ گے ؟ میں نے ایم ۔بی۔ اے کر رکھا
ہے ۔مجھے آمدن اور وسائل کے بارے میں تم سے زیادہ علم ہے ،،رذیل کمینے
خوانچے والے !“حسینہ کے منہ سے اب جھا گ بہہ رہا تھا اور وہ اس غریب خوانچے
والے کو نا کردہ گناہوں کی سزا دینے پر تل گئی تھی ۔اچانک وہ آگے بڑھی اور
اس نے پاﺅں کی ٹھوکر سے چھابڑی کو الٹ دیا کھانے کی تمام اشیا کو گندے نالے
میں پھینک دیا ۔اسی پر اکتفا نہ کیا بل کہ اس نے پھتو پر ٹھڈوں ،مکوں
،گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دی ۔پھتو نے نہایت صبر سے یہ ظلم سہہ لیااور
اف تک نہ کی ۔جب وہ اس غریب خوانچے والے کو مار مار کر تھک گئی تو بڑ بڑ
اتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی ۔پھتو دامن جھاڑ کرگھر چل دیا ۔اس کی دن بھر
کی کمائی بھی جو ٹوکرے کے ردی کاغذوں کے نیچے چھپائی گئی تھی وہ بھی گند ے
نالے کے پانی میں بہہ گئی ۔خاک نشینوں کی کمائی اسی طرح رزق خاک کر دی جاتی
ہے ۔پھتو کے سامنے اس کی امیدوں کی فصل غارت کر دی گئی اور اس کی کئی دنوں
کی محنت اکارت چلی گئی ۔اس تما م ستم کے باو جود پھتو کے دل میں کوئی ملا ل
نہ تھااور نہ ہی اس نے تابندہ کو کسی قسم کی بد دعا دی ۔وہ نہیں جانتا
تھاکہ آخر کیوں اس کے دل میں تابندہ کے لیے نفرت کے جذبات پیدانہ ہو سکے
۔وہ بو جھل قدموں کے ساتھ گھر کی جانب چل دیا ۔
گھر پہنچا تو پھتو کو شدید بخار نے آ لیا اور وہ تین دن تک چارپائی پرپڑا
کراہتا رہا ۔گھر میں دوا کے لیے پیسے نہ تھے ۔نتھو کو جب ساری صورت حال کا
علم ہوا تو اس نے خود جا کر اس حسینہ کے والدین سے بات کرنے کا قصد
کیا۔پھتو نے اس ظالم حسینہ کے گھر کا جو حدود اربعہ بتا یا تھا وہ اسے کچھ
جانا پہچاناسا لگا ۔وہاں پہنچ کر اسے یادآیا کہ آج سے تیس برس قبل بھی وہ
صبح کے چار بجے یہاں آ یا تھا اور ایک بچی اس مکان کے مالک کے حوالے کی تھی
جس کا نام بعد میں معلوم ہو ا کہ تا بندہ رکھا گیا تھا۔ایک نا معلوم غیبی
طاقت نے نتھوکو آگے بڑھنے سے روک دیا۔اور وہ الٹے پاﺅں گھر لوٹ آیا۔راستے
بھر یہ سوچیں اس کے لیے سوہان روح بنی رہیں کہ جس بچی کو اس کی حقیقی ماں
نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا اور پھر کبھی اس کی خبر تک نہ لی اس کی
پیدائش ،نمو اور یہ حالت سب کچھ فطرت کی تعزیروں کا ایک سلسلہ ہے ۔
گھر واپس آکر نتھو نے اپنے بیٹے پھتو سے روتے ہوئے کہا ” مثل مشہور ہے اس
دنیا میں نیکی کا بدلہ ہمیشہ بدی کی صورت میں ملتا ہے ۔اسی لیے کہتے ہیں
نیکی کر اور دریا میںڈال ۔بیٹے اگر زندگی چاہتے ہوتو آئندہ ا س لڑکی کے گھر
کی جانب رخ نہ کرنا ۔وہ لوگ بڑے طاقت ور ہیں اپنا معاملہ تم اپنے خالق کی
عدالت میں بھیج دو وہاں دیرہے مگر اندھیرنہیں ۔“
” ٹھیک ہے بابا!“پھتو نے آہ بھر کر کہا ”حسن اور دولت تو ڈھلتی چھاﺅں ہے اس
پر گھمنڈ کیا معنی رکھتا ہے ؟میں کل سے پھر چھابڑی لگاﺅں گا اور جان مار کر
کام کروں گا ۔ جب تک تابندہ اس مکان میں موجود ہے میں اس گلی کی طرف ہر گز
نہ جاﺅں گا یہ میرا وعدہ ہے ۔بے گناہوں اور مظلوموں کی آہیں ضرور رنگ لائیں
گی ۔“
وقت پر لگا کے اڑتا رہا ۔پھتو کویہ معلوم ہو گیا کہ تابندہ نے جلد ہی پسند
کی شادی کر لی اور اپنے شوہر کے ہمراہ مردان چلی گئی۔اس کا والد بھی اس کے
ساتھ چلا گیا اور یہ گھر مقفل ہو گیا ۔اتنے بڑے گھر میں اب زاغ و زغن اور
بوم و شپر کا بسیرا تھا ۔اس نے اب اشک بار آنکھوں سے تا بندہ کی گلی کا چکر
بھی لگانا شروع کر دیا ۔اس گلی میں اس کی چیز یں خوب بکتی تھیں۔تابندہ کی
گلی میں داخل ہوتے ہی پھتو کے دل میں اک لہر سی اٹھتی اور اسے یوں محسوس
ہوتا کہ خانہءدل میں تنہائیوں نے مستقل دیرے ڈال رکھے ہیں ۔سکول کے بچے اس
گلی میں رہتے تھے ۔وہ اسے پہچانتے تھے ۔اب تو اس نے صفائی کا معیار بھی
خاصا بلند کر لیا تھا اس نے ڈسپوزیبل پلیٹوں میں شکر قندی فروخت کرنا شروع
کر دی۔ٹماٹر کی کیچ اپ بھی وہ ساتھ رکھتا تھا ۔چوک پر لگے فلٹر پلانٹ سے وہ
پانی کی بو تلیں بھی ساتھ رکھتا اور سارا سامان سائیکل پر لاد کر گلی گلی
چکر لگاتا ۔چھ سال گزر گئے ایک دن وہ اس طر ف سے گزر رہا تھا کہ ایک بچے نے
اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بڑی راز داری سے کہا :
” وہ سامنے والا گھر جو پچھلے چھ سال سے بند تھا اب کھل گیا ہے ۔ اس گھر
میںایک چڑیل آ گئی ہے ۔ادھر نہ جانا یہ گھر بڑا خطر ناک ہے اس میں جو چڑیل
ر ہتی ہے اسے دیکھ کر بچوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں ۔جو بھی اس طرف جاتا ہے
چڑیل اسے کاٹنے کو دوڑتی ہے ۔محلے کے سارے بچے اس گھر کی طرف جانے سے ڈرتے
ہیں ۔انسانوں کو دیکھ کر چڑیل بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتی ہے ۔اس کے ساتھ
ایک بوڑھا بھوت بھی ہے جو کبھی باہر نہیں آیا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ
بوڑھا بھوت بیمار ہے ۔“
”تمھیں یہ باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟“پھتو نے بچے سے پو چھا”انسانوں کی بستی
میں چڑیلوں کا کیا کام ؟یہ آسیب ،بھوت اور چڑیلیں سب وہم اور گمان ہے
۔انھیں کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔“
”میں نے اپنی آنکھوں سے اس گھر میں رہنے والی چڑیل کو دیکھا ہے “دوسرے بچے
نے بڑے اعتماد سے کہا ” پچھلے ہفتے ہم اس سامنے والے کھیل کے میدان میں کر
کٹ کھیل رہے تھے کہ ہماری گیند اس چڑیل کے گھر میں جا گری ،ہم دو لڑکوں نے
دیوار سے جھانکا تو ہماری چیخیں نکل گئیں کہ وہ چڑیل اپنے بچے کو گود میں
لیے بیٹھی تھی اور اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر شاید اس کا خون پینے کی
کوشش کر رہی تھی ۔ہم اسی وقت نیچے اتر گئے اور بھاگ نکلے ۔تھوڑی دیر بعد
چڑیل کا بچہ با ہر نکلا اور اس نے گیند ہماری طرف پھینک دی ۔“
پھتو اس تمام قضیے کے بارے میں کچھ نہ سمجھ سکا۔چند روز بعد وہ سکول کے گیٹ
پر خوانچہ لگائے بیٹھا تھا ۔بچے تفریح کے وقت اس سے شکر قندی خرید رہے تھے
کہ اچانک دو لڑکوں نے ایک چھوٹے بچے کو مارنا شروع کر دیا وہ اسے گالیاں دے
رہے تھے اور کہہ رہے تھے :
”یہ چڑیل کا بچہ ہے ۔اس کی ماں خطرناک چڑیل ہے ۔اس چڑیل کی ناک اور کان کٹے
ہوئے ہیں ،سر کے بال با لکل موجود نہیں ۔بھوئیں صا ف ہیں اور چہرے پر ہڈیوں
کے سوا کچھ نہیں ۔ گردن پر گہرے زخم ہیں ۔چہرے کا سارا گوشت غائب ہے۔ یہ
آدم خور چڑیل ہے ۔اسے دیکھ کر ڈر کے مارے دیکھنے والوں کی چیخیں نکل جاتی
ہیں ۔“
وہ معصوم بچہ یہ باتیں سن کر زار و قطار رونے لگا ۔پھتو نے اسے پیار کیا
اسے شکر قندی پلیٹ میں رکھ کر دی اور اسے پانی پلایا ۔اس کے ساتھ ہی اس نے
ان دو بچوں کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ آئندہ اس بچے کو کچھ نہ کہیں ۔پھتو
نے سکول کے فزیکل ایجو کیشن کے استاد کو اس تمام واقعے کے بارے میں آگاہ
کیا اس کے بعد یہ تمام معاملہ سلجھ گیا ۔وہ بچہ بڑے اعتماد سے پڑ ھنے آتا
اور بغیر کسی خوف و خطر کے واپس گھر پہنچ جاتا ۔پھتو کو ایک نا معلوم خوف
لا حق تھا کہ ہو نہ ہو یہ بچہ اور اس کی ماں ضرور کتھن مسائل کا شکار ہیں
۔اس کے باوجود اس نے اس مسئلے کے بارے میں مزید چھان بین کی ضرورت محسوس نہ
کی ۔شام کو جب وہ اپنی بائیسیکل پر چیزیں فروخت کرنے کے کے لیے نکلتا تو اس
گلی میں سے بھی گزر ہوتا ۔جس دن بچے کے ساتھ سکول میں دوسرے بچوں نے جھگڑا
کیا تھا اس شام وہ بچہ پھتو کی آواز سنتے ہی اپنے گھر سے با ہر آیا اور کہا
:
”انکل تمھیں میری امی نے بلایا ہے ،وہ شکر قندی اور کچھ کھانے کی چیزیں
خریدنا چاہتی ہے ۔“
پھتو نے کہا ”تم جاﺅ اور پیسے لے آﺅ میں اسی وقت شکر قندی دے دوں گا َ۔میں
یہیں دروازے کے با ہر زمین پر بیٹھا ہوں ۔“
ٓٓ اچانک ایک آواز آئی ”خوانچے والے !پانچ روپے کی شکر قندی اور آلو چھولے
ملا کر دو اس پر مرچ مصالحے اور کھٹاس خوب چھڑکنا۔“
پھتو کو یہ آواز مانوس سی لگی ۔آج سے چھ برس قبل عین اسی جگہ پر اسی آواز
نے اس سے بات کی تھی لیکن اس بار نہ تو الفاظ میں کوئی ترنگ تھی اور نہ ہی
لہجہ دبنگ تھا ۔مقام وہی تھا متکلم بھی وہی شخصیت محسوس ہوتی تھی لیکن لہجہ
بدل گیا تھا ۔ گزشتہ تلخ تجربے کے باعث پھتو کی نگاہیں زمین پر گڑی تھیں اس
نے ڈسپوزیبل پلیٹ نکالی اس میں سٹین لیس سٹیل کے بڑے چمچ سے شکر قندی اور
آلو چھولے ملائے اور اس پر مر چ مصالحے اور لیموں نچوڑ کر اور ٹماتر کیچ اپ
ایک پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کر پلیٹ کو آگے بڑھایا۔خاتون نے اسے پکڑنے سے
انکار کر دیا اور بولی :
” آپ کے پاس ردی کاغذ نہیں ہیں کیا ؟ہم جیسے بے کار اور ردی لوگوں کے لیے
ردی کاغذ ہی مناسب ہیں ۔میں تو اپنی شناخت ہی کھو چکی ہوں ۔میں تابندہ ہوں
اسی جگہ پر آج سے چھ برس پہلے میں نے جو توہین آمیز سلوک تم سے کیا وہ میری
بہت بڑی حماقت تھی ۔میری طرف دیکھیں ،حالات نے مجھے تماشا بنا دیا ۔تمھیں
اپنے والدین کی قسم ایک بار میری طرف نظر اٹھا کر تو دیکھو۔اور اگر ہوسکے
تومجھے معاف کردو ۔میں خود اپنی نظروں میں حقیر اور بے وقعت ہو چکی ہوں ۔
پھتو نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک دراز قد عورت اس کے سامنے کھڑی تھی جس کی
پوری شکل بر ی طرح مسخ ہو چکی تھی ۔اسے اس حال میں دیکھ کر اس کی آنکھیں
ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں۔تابندہ بھی زارو قطار رو رہی تھی ۔قدرت
کے اپنے اصول ہوتے ہیں کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ۔وہ حسینہ
جسے دیکھنے کی تاب نہ تھی اب اسے دیکھ کر خوف کے مارے پتا پانی ہوتا
تھا۔پھتو نے آہ بھر کر کہا :
”تمھارا یہ حال کیسے ہو گیا ؟تم پر کیاافتادپڑ گئی ؟“
” میرے والد نے میری شادی ایک عیاش سرمایہ دار سے کردی ۔وہ مجھے اپنے سب
احباب کو پیش کرنا چاہتا تھا جب میں نے اس کی گھٹیا خواہش کی تکمیل نہ کی
تو اس نے مجھ پر تشدد کرنا شروع کر دیا ۔تنگ آ کر میں نے طلاق کا مطالبہ کر
دیا ۔اس نے میرے چہرے اور گردن پر تیزاب پھینک دیا اور مجھے طلاق دے دی ۔اس
درندے نے میرے تین فٹ لمبے بالوں اور گھنی پلکوں اور بھوؤں سے مجھے محروم
کر دیا ۔“
”یہ تو بہت بڑا ظلم ہے “پھتو نے کہا ”قدرت کے بنائے ہوئے حسین و جمیل چہرے
کو مسخ کرنا سفاکی اور درندگی کی بد ترین مثال ہے ۔“
” ظالم مجھے دھمکی دے رہا تھا کہ اب کوئی مرد تمھارے منہ پر کبھی تھوکے گا
بھی نہیں ۔تم سسک سسک کر جیو گی اور تڑ پ تڑپ کر مرو گی ۔جس حسن پر تمھیں
ناز ہے وہ اب ختم ہو گیا اب تم سے کوئی شادی نہیں کرے گا ۔تم دنیا بھر کی
نفر توں کا مرکز بن کر عبرت کی مثال بن جاﺅ گی ۔میرے باپ نے جب مجھے اس حال
میں دیکھاتو وہ عارضہ ءقلب میں مبتلا ہو گیا “تابندہ نے روتے ہوئے کہا ”اس
نے مجھے اپنی حقیقت اور تم لوگوں خاص طور پر تمھارے والد کی نیکی کے بارے
میں سب کچھ بتا دیاہے ۔“
”کیسی نیکی اور ہم کیا اور ہماری حقیقت کیا ؟“ پھتو بولا”میں کچھ سمجھا
نہیں۔یہ کیا معما ہے ؟ ۔
”آج رات میں اور تابندہ تمھارے گھر آئیں گے اور تمھارے والد سے ملیں گے
۔“تا بندہ کا باپ روتے ہوئے بولا”میں اپنے اس محسن کا قرض اتارنے کے لیے اس
کے گھر ضرورجاﺅں گا۔“
تابندہ کے لیے تو ہر رات مقدر کی سیاہی کی طرح کالی تھی لیکن آج کی رات اسے
حوصلے اور امید کی ایک ہلکی سی کرن دکھائی دی ۔اس نے چادر اوڑھی اور اپنے
باپ سیٹھ انور کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نتھو کی کٹیا کی جانب روانہ
ہو گئی ۔
نتھو اور پھتو کا گھر کیا تھا حسرتوں ،امنگوں اور امیدوں کا ایک مدفن تھا
جس پر وہ نسل در نسل مجاور بن کر زندگی کے دن پورے کرتے چلے آ رہے تھے
۔سیٹھ انور جب نتھو کے کھنڈر نما گھر میں داخل ہوا تو شدت غم سے اس کی چیخ
نکل گئی ۔ تابندہ جو چادر میں لپٹی ہوئی تھی اس نے جھک کر نتھو کو سلام کیا
اور پھتو کو آداب کہا ۔سیٹھ نے نتھو کو گلے لگا کر کہا :
”آج سے تیس سال پہلے تم نے ایک ننھی جان کو نئی زندگی دی اور اسے ہمارے
حوالے کیا۔وہ بچی یہ تا بندہ ہے جسے ہم نے پڑھا لکھا کر ایم ۔بی ۔اے
کرایا۔اس کی شادی ایک اعلی ٰ تعلیم یافتہ سرمایہ دار سے کی جس نے اس معصوم
اور قسمت سے محروم بچی کا یہ حال کر دیا ہے ۔“
تابندہ نے چادر منہ سے ہٹائی تو نتھو کی شدت غم سے آہ نکل گئی اور فرط غم
سے اس نے دل تھام لیا۔
سیٹھ نے کہا ”اس کے شوہر نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینکا تو میں نے اس کے
علاج پر پوری توجہ دی لیکن زخم اس قدر گہرے تھے کہ مندمل نہ ہو سکے اور اس
کا تمام حسن خداداد ماضی کا حصہ بن گیا ہے ۔سب سے بڑھ کر اس کے دل کا زخم
تو سد ا ہر رہتا ہے ۔اس کا مرہم تم بن جاﺅ اور اسے اپنی بیٹی بنا لو۔“
”بابا نتھو اب میں آپ کے رحم و کرم پر ہوں ۔“ تابندہ نے روتے ہوئے کہا ”اگر
آپ مجھے اپنی بہو نہیں بنا سکتے تو پھر میری ماں کی طرح مجھے گندے پانی کے
جو ہڑ میں پھر سے دھکا دے دیں ۔“
”میری بیٹی مجھے تمھاری ہر خواہش منظور ہے ۔“نتھو نے روتے ہوئے کہا ”تمھارے
کردار کا حسن اور انا کی دولت ہی میرے بیٹے کے لیے کافی ہے ۔“
نتھو اور پھتو کو سیٹھ انور اپنے گھر لے گیا۔تابندہ کی شادی نتھو سے ہو گئی
۔ ہنسی خوشی دس برس گزر گئے ،نتھو کے تا بندہ سے تین بیٹے اور ایک بیٹی
پیدا ہوئی ۔تابندہ ورکنگ ویمن ہاسٹل اب شہر میں خواتین کا سب سے با وقار پر
آسائش اور قابل اعتبار رہائشی مرکز ہے ۔یہ مرکز نتھواور تابندہ مل کر چلاتے
ہیں ۔اس کی آمدنی کا بڑا حصہ مظلوم خواتین کی بحالی اور فلاحی کاموں پر خرچ
ہوتا ہے ۔جس جگہ پھتو خوانچہ لگاتا تھا اب وہاں ان میاں بیوی کے سرمائے سے
ایک ہوٹل تعمیر ہو گیا ہے جس کا نام الفتح ہوٹل ہے ۔اس میں معیاری کھانے
انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔پھتو خوانچے والا اب فتح خان کے نام سے
مشہور ہے ۔ |