الیکشن ٢٠١٣ پر سوا۔۔۔۔۔لات

سوال : کیا 2013ء کے الیکشن ہونگے یا ایویں تسلیاں ہی دی جا رہی ہیں؟۔
(خان عمران ، اسلام آباد)
جواب : اس وقت الیکشن کے بارے میں بات کرنا قیاس آرائی کی حد تک تو درست ہے لیکن حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔کیونکہ اگر اسمبلیاں ختم ہونے کے بع اگر ساٹھ دن کے اندر الیکشن ہو گئے تو ٹھیک اور اگر معاملہ نوے دن کے سپرد کر دیا گیا تو پھر نوے دن کی نحوست الیکشن پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔یہ ایک ایسی نحوست ہے جو قوم کے گیارہ سال بھی کھا سکتی ہے ۔اور ڈکار کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔نوے دن جون میں داخل ہو جاتے ہیں ایسی گرمی میں ووٹر کو ان کے ’’ٹھنڈے ماحول ‘‘ سے نکالنا تقریباً ناممکن ہے۔اگر گرمی کا احساس کرکے الیکشن جولائی یا اگست میں داخل ہو گئے تو موسم کی رم جھم کسی آن ووٹر کو سکون نہین لینے دے گی ۔الیکشن کے دن کے وسیع امکانات ہونگے ۔ ساون ،بھادوں میں چونکہ پاکستان میں سیلاب کے خدشات بہت ذیادہ ہیں ۔سیلاب سے لوگوں کا سامان بہہ جاتا ہے۔لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔جس سے وسیع پیمانے پر لوگوں کے شناختی کارڈ سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔جس سے ہزروں کی تعداد میں لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔جن ووٹرز کے پاس شناختی کارڈ ہوتا ہے سرکاری عمارات کے ٹپکنے سے ان کے شناختی کارڈ سمیت بیلٹ پیپر زکے بھی ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔کس سے قومی خزانے کو نقصان نا قابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔اور اگر اسی رم جھم میں بھیگتے ہوئے او ر’’وحیدہ شاہ ‘‘ کے تھپڑ کھاتے ہوئے سرکاری ملازمین ووٹنگ کر وا بھی دیں تو پھر ووٹ گنتے ہوئے گیلے ہاتھوں سے سیاہی کے ٹھپے دوسرے امیدوار کے نشان پر بھی لگ سکتے ہیں۔جس سے کوئی غلط امیدوار بھی کام یاب ہو سکتا ہے۔جولائی ،اگست میں ہی رمضان المبارک کی آمد ہے ۔چونکہ روزے مسلمانوں پر فرض کئے گئے ہیں ۔اس لئے اس دوران روزوں کے علاوہ کوئی مسلمان روزے رکھیں یا نہ رکھیں کوئی دوسرا کام پسند نہیں کرتے ۔عیدالفطر کے فورا بعد ینگ جنریشن کاتعلیمی سیشن زور شور سے شروع ہو جائیگا ۔کیونکہ ایک سیاسی پارٹی کا دعوی ہے کہ وہ نوجوانوں کی وجہ سے میدان مارے گی اس لئے ان دنوں میں الیکشن کا ہونا ممکنات میں سے نہیں ہے۔اس سے اگلے مہینوں میں عید الضحی اور حج کی آمد ہے۔ظاہر ہے کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں حج کرنے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اس کے علاوہ بہت سی سیاسی شخصیات بھی دعا کے لئے بیت اللہ کا رخ کرتی ہیں ۔سو ان حالات میں بھی الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔ الیکشن سے فرار کا یہی بہانہ ایک جرنیلی دور میں بارہا دھرایا گیا۔اس کے فوراً بعد پاکستان میں سردی کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔بالائی علاقوں میں برف باری جس سے آمد ورفت کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔اور میدانی علاقوں میں بارشوں کا سلسہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو جاتا ہے۔اس ٹھٹھرتے ہوئے موسم میں کیسے انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔سردی کا موسم ختم ہونے کے بعد مارچ شروع ہو جاتا ہے جس میں پورا ملک امتحانات کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔اپریل میں پھر ینگ قوت کے امتحانات شروع ہو جاتے ہیں۔جس سے انتخابات پھر کھٹائی میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔اور یہی ’’سرکل‘‘ پاکستان میں گھومے گا۔ انتخابات کے جھنجٹ میں پڑنے کی بجائے تبدیلی موجودہ پارلیمنٹ کے اندر ہی ’’اکڑ بکڑ بمبے بو ‘‘کر کے لائی جا سکتی ہے۔

سوال: پاکستان تاریخ میں گذشتہ انتخابات کی طرح کیا یہ الیکشن بھی خونی ہوں گے؟۔اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے ؟۔
(شریف نواز ،رائے ونڈ روڈ لاہور)
جواب :جی ، پاکستان کی تاریخ میں گذشتہ انتخابات کی طر ح یہ الیکشن بھی شدید قسم کے خونی ہونگے۔ان انتخابات میں بھی خونی رشتہ داریاں ہی کام آئیں گی۔سیاست دان ذیادہ تر ٹکٹ ان کو دیں گے جو ان کے اپنے خونی ہونگے ۔ان کے اپنے بھائی، پیٹے،بھتیجے،داماد،خوش داماد اور پھر مزید ان کے آگے کی خونی رشتہ داریاں،پھر یہ دائرہ مزید آگے سے آگے پھیلتا جائے گا۔ یوں آنے والے الیکشن خونی قسم کے الیکشن ہونگے۔پارٹی ووکر ذیادہ سے ذیادہ ووٹر یا سپورٹر بن سکتا ہے۔جلسے کے انتظامات کرنا،نعرے لگانا،سیاست دان کو اپنے کاندھوں پر اٹھانا،پولیس یا دوسری پارٹی ہلہ بول دے تو گولیاں اور ڈنڈے کھانا،سیاست دان پر برا وقت آن پڑے تو اس کے لئے ہڑتالیں کرنا،پولیس کی ماریں کھانااس سے ذیادہ نہ تو ووکر کو سوچنا چاہئے۔اور نہ ہی امید رکھنی چایئے۔پاکستان میں خونی الیکشن سے بچنا ممکن نہیں کیونکہ محترم قائد اعظم محمد علی جناح کی جیب میں موجود چند کھوٹے سکوں کی تعداد اب ہزاروں کی تک پہنچ چکی ہے ۔ پا کستان میں سازگار ماحول کی وجہ سے ان میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

سوال : کیا الیکشن سے قبل کوئی نیا این آر او آرہا ہے؟۔(علی آصف، حال مقیم ،اسلام آباد)
جواب:این آر او(NO RESPONSE OFFICER)پاکستان کے بنتے ہی نو رسپانس آفیسر یوں پاکستان میں چھائے کہ جیسے یہاں کا ماحول انہیں راس ہی بہت آیا ہو۔ہر شعبہ ان کی آماجگاہ بن گیا۔نو رسپانس آفیسرز کی جیسے کلوننگ کردی گئی ہو۔ہر جگہ برائلر کی طرح یہی نظر آنے لگے۔موجودہ دور میں صدر پاکستان سے لے لیکر وزیر اعظم پاکستان سے ہوتے ہوئے کسی بھی صوبے یا علاقے میں چلے جائیں نو رسپانس آفیسرز کی بہتات ہے۔انہیں شائد زبان کانوں کی نسبت لمبی ملتی ہے ۔کیونکہ یہ کانوں سے سننے کی بجائے زبان کا ذیادہ استعمال کرتے ہیں۔عوام کے چلانے،دھرنے، ،ہڑتالیں کرنے،سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔یہ کان لپیٹ کر پھرتے رہتے ہیں۔بجلی ،گیس کے بحران ہوں ،ملک لاقانونیت، دہشت گردی کی لپیٹ میں ہو۔ان پر کرپشن کی آوازیں اٹھائی جارہی ہوں ۔یہ نو رسپانس آفیسر ہی رہیں گے۔ایک نو رسپانس آفیسر گیلانی کو فارغ بھی کر دیں تو اس کی جگہ(NRO) ہی آئے گا۔ایک نو رسپانس آفیسر سے جتنا مرضی ’’جلیبی بس سروس‘‘ کے بارے میں گوش گزار کر لیں کہ اس پراجیکٹ جہاں بہت سے دوسرے منصوبے کھٹائی میں ڈال دیئے ہیں وہاں مریضوں کی دوائیاں تک چھین لی ہیں ۔وہ یہی فرمائیں گے’’میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا‘‘۔ایک نورسپانس آفیسر چوراسی لاشوں کی موجودگی میں بیرون ملک کا دوردہ منسوخ نہ کریں ۔اور اپنی ’’منسوخی‘‘ پر فرمائیں ’’ان سے چار دن اور صبر نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ایک تعلیم کے سیاسی نو رسپانس آفیسر تازہ تازہ فرما رہے ہیں’’میں یونیورسٹی نہیں بننے دوں گا‘‘۔سیاسی نو رسپانس آفیسر کے علاوہ گریڈ بائیس سے لے گریڈ ایک تک کے سرکاری نو رسپانس آفیسر پورے ملک کے سرکاری اداروں میں چھائے ہوئے ہیں۔ریڈ بائیس کے نو رسپانس آفیسر سے ملنے کے لئے پہلے گریڈ ون کے نو رسپانس آفیسر کی منتیں کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر افسر کے کان پر جوں رینگتی ہے۔محترم نیا این آر او لے کر آپ کیا کریں گے جب پرانا ہی بہترین کام دے رہا ہے۔

سوال: کیا تیسری قوت اس دفعہ کے الیکشن میں چھاجائے گی۔
(بوبی الماس ،راولپنڈی)
جواب:بی بی/بی باابھی تو آپ لوگ اپنی نادرا کے ساتھ رجسٹریشن کے جھگڑوں میں الجھے ہوئے۔ابھی توآپ کی اپنی کیٹگری اے ،بی ،سی سے ہی نہیں نکلے ۔اگر حکومت نے آپ کی ’’جانچ پڑتال‘‘ کے لئے میڈیکل چیک اپ ضروری قرار دے دیا تو آپ کی افرادی قوت میں بے پناہ کمی ہونے کے امکانات ہیں۔آپ میں سے بہت ریما،نرگس،وددیا بالن،مناکشی ،بنے ہوئے ہیں اپنے اصل ناموں صدیق،جعفر،بالا،فیقا اپنے پرانے کاموں سائیکل مرمت،روئی پنجنی،برف گالے،دھی بھلوں پر نکل جائیں گے۔اسلئے بہتر یہی ہے چھانے کا خواب دیکھنے کی بجائے اپنے ’’مخصوص‘‘ہونے کی بنا پر مخصوص نشستوں کا مطالبہ کر دیں۔اور ہاں،یہ علی سلیم کو اپنی برادری سے نکالیں وہ خواہ مخواہ آپ کی برادری میں گھسا چلا جا رہا ہے۔اور خدشہ یہی ہے کہ اس الیکشن کے بعد کسی مخصوص سیٹ پر اسے تیسری قوت کے امور کا وزیر کھسریات نہ لگا دیا جائے۔
***
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.