خسارے کی فارمنگ

دنیا نے پتہ نہیں کیا کیا سیکھ لیا ہے مگر اب تک معیشت کو سُبک رفتاری سے چلانے کا ہُنر نہیں سیکھا۔ قدرت کے کارخانے میں کوئی بھی چیز نکمی نہیں ہوتی۔ یہ اُصول ہم نے ساٹھ سال قبل معلوم، دریافت یا ایجاد کرلیا تھا مگر دُنیا اب تک تحقیق میں جُتی ہوئی ہے۔ معیشت کے معاملے میں تحقیق کی منزل ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ وہ اور ہیں جو تحقیق کی بازی کھیلنے پر مجبور ہیں، ہم تو اب ایک قدم آگے جاکر تحقیق کا موضوع ہیں! ہم وہ ہیں کہ نفرت کی انتہا سے بھی محبت کشید کریں اور دُنیا سے داد چاہیں۔ ادب کی اِس نکتہ سَنجی کو ہم نے معیشت کی دنیا میں بھی بخوبی داخل اور استعمال کیا ہے۔ منفعت کو تو سبھی گلے لگاتے ہیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ع
منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک!

علامہ اقبال کے اِس مصرع سے ہم نے خاصا منفرد مفہوم کشید کیا ہے یعنی بات جب کاروبار کی آ جائے تو صرف نفع کو گلے نہ لگاؤ کہ نقصان یا خسارے کو بھی التفات کے قابل سمجھو کہ وہ بھی تو وجود رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں تشکیل پانے والی حکومتوں نے علامہ اقبال کی یہ بات ذہن میں گرہ کی طرح باندھ لی ہے کہ جب منفعت اور نقصان ایک ہے تو نقصان کو بھی، بلکہ نقصان ہی کو گلے لگانے میں کیا مضائقہ ہے!
دُنیا بھر میں رائے عامہ کے ادارے جب بھی کِسی مثبت امر کے حوالے سے تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہیں تو پاکستان کو آخری پائیدان پر رکھتے ہیں۔ 45 ممالک کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ دور اندیشی کے حوالے سے جرمنی سب سے آگے اور پاکستان سب سے پیچھے ہے۔ دُنیا شاید اب تک دور اندیشی کے مفہوم سے آشنا نہیں۔ دُور اندیشی کا لفظی مفہوم یہی ہے نا کہ اندیشوں کو دور کردیا جائے یا اُن سے دور رہا جائے! ہماری حکومتوں کی دانش مندی ملاحظہ فرمائیے کہ بڑے اداروں کو چلانے کا ایسا طریقہ اختیار کیا ہے کہ نفع و ضرر کی باہمی کشمکش ختم ہوچکی ہے۔ جب منافع ہوگا تو خسارے کا خدشہ بھی زندہ رہے گا۔ یعنی بہتر یہ ہے کہ اداروں کو خساروں کی پرورش پر لگا دیجیے، خسارے کا اندیشہ ہی نہ رہے گا! حیران نہ ہوں، اِسی نکتے کو غالب نے یوں بیان کیا ہے
نہ لُٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو!

ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے بزرجمہر آج تک اندازہ نہیں لگاسکے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، بہتات ہے! ہماری حکومتیں ثابت کرتی آئی ہیں کہ وسائل اِس قدر ہیں کہ اُنہیں ٹھکانے لگانے کے لیے ادارے قائم کرنے اور چلانے پڑتے ہیں! عالمی سطح پر تسلیم شدہ معاشی اُصولوں کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہاں ہمارے معاشی نظریات کی دُنیا شروع ہوتی ہے۔ دُنیا اثاثوں پر مرتی ہے۔ اگر ہم بھی ایسا ہی کریں تو نئی بات کیا ہوئی؟ کوئی جگرا تو دیکھے کہ ہم نے اثاثوں کو لات مار کر واجبات سے محبت اپنے آپ پر واجب کرلی ہے! اپنی اولاد کو تو سبھی پالتے ہیں۔ عظمت اُن بچوں کو پالنے میں ہے جن کا حسب نسب معلوم نہ ہو!

قومی وسائل کو حیران کن رفتار سے ٹھکانے لگانے کے لیے ویسے تو اور بھی کئی ادارے ہیں مگر پی آئی اے، ریلوے اور پاکستان اسٹیل کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اِن تین اداروں کی مثلّث نے قومی وسائل کے ایک بڑے حصے کو مُربّہ بناکر چاٹ لیا ہے! یہ وہ تکون ہے جس کا ہر کونا قومی معیشت کے نازک بدن میں چُھری کی نوک کی طرح چُبھ رہا ہے!

پی آئی اے کے معاملے میں ہم اب تک طے نہیں کرسکے کہ اِس کے طیاروں کی پرواز زیادہ بلند ہے یا خسارے کی۔ باکمال لوگوں کی سروس ایسی لاجواب ہے کہ تیزی سے پنپتا خسارہ دیکھ کر قوم اور قومی خزانہ دونوں “ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم” کی مثال بن کر رہے گئے ہیں! لوگ اب تک یہی سمجھتے آئے تھے کہ طیارے پرواز کے لیے ہوتے ہیں۔ پی آئی اے کی مہربانی کہ اُس نے گراؤنڈیڈ رکھے جانے والے طیارے بھی مارکیٹ میں پیش کردیئے! لوگوں کو زمین پر سُکون سے کھڑے ہوئے طیاروں پر اعتراض ہے کہ اُڑ نہیں رہے۔ کِسی نے اِس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ چیل، کوّے اور کبوتر جیسے معمولی پرندے اربوں روپے مالیت کے طیاروں سے ٹکراتے اور شدید نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ محض اُڑانے کا شوق پورا کرنے کے لیے تو اربوں روپے کے طیاروں کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا!

جمہوریت کے کھاتے میں ڈالی جانے والی ایک اور حکومت نے جاتے جاتے پی آئی اے کا خسارہ کم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ تنخواہوں میں 45 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگر پی آئی اے کا سالانہ خسارہ 12 سے 15 ارب روپے ہے اور مجموعی خسارہ 140 تک جا پہنچا ہے تو کیا لازم ہے کہ اِس کے ملازمین کو بھی خسارے میں رہنے دیا جائے؟ ادارہ نہ سہی، کم از کم ملازمین تو خسارے میں نہ رہیں! دُنیا بھر کے معاشی ماہرین مل کر بھی اب تک خسارہ کم کرنے کا ایسا عمدہ طریقہ وضع نہیں کرسکے!

ریلوے کا جائزہ لیجیے تو یہ طے کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے کہ یہ ادارہ ٹرینیں چلانے کے لیے بنایا گیا ہے یا پاکستانی قوم اِس ادارے کو چلانے کے لیے پیدا کی گئی ہے! ہماری ٹرینیں شاید شاعرانہ مزاج رکھتی ہیں۔ یعنی
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے!

ہمارے خیال میں یہ بھی لوگوں کو اپنے ہی وطن کے مختلف حصوں سے رُو شناس کرانے کا ایک طریقہ ہے۔ جن علاقوں سے ٹرین میں لوگ بس یونہی گزر جاتے ہیں وہاں ٹرین کے رُکنے پر تھوڑا سا گھوم لیں، ماحول کا جائزہ لیں اور مقامی لوگوں سے واقف ہولیں! ریلوے کا محکمہ لوگوں کو قریب لانے کے لیے ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی ایک صورت یہ بھی ہے!

ریلوے کی زبوں حالی پر قوم کا واویلا ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم قوانین پر عمل کے بغیر جی رہے ہیں۔ تعلیم نہ ہونے سے بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ اٹھ چکا ہے مگر ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہیں۔ تو پھر ایک ریلوے کے نہ ہونے سے کون سی قیامت آ جائے گی؟ افغانستان سمیت کئی ممالک میں ریلوے نہیں ہے تو کیا یہ ممالک صفحہ ہستی سے مِٹ گئے؟

کراچی میں سرکلر ریلوے کو ختم ہوئے زمانہ گزر گیا۔ اِس کے ریلوے سسٹم کے پلیٹ فارم سڑ سڑاگئے، کچرا کنڈی بن گئے۔ اِنہیں پارک کی شکل دیکر لوگوں کو تفریح کا بہتر ذریعہ فراہم کیا جاسکتا تھا! سرکلر ریلوے کی بندش کا واویلا اب تک کیا جارہا ہے۔ جب پورے ملک میں ریلوے کو بندش کا سامنا ہے تو پھر ایک سرکلر ریلوے کا رونا روتے رہنے سے فائدہ؟

پاکستان اسٹیل ملک کا ایک اہم ادارہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ہر حکومت اپنے بندے کہاں کھپائے؟ پاکستان اسٹیل کی کوئی بھی پروڈکٹ اِس کے خسارے سے مضبوط نہیں! یہ خسارہ واقعی اسٹین لیس یعنی بے داغ ہے! پاکستان اسٹیل کو ناکام قرار دینے والے یہ بھول جاتے ہیں یہ ادارہ سابق سوویت یونین کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ جب دُنیا کے نقشے پر سوویت یونین ہی کا وجود نہ رہا تو پاکستان اسٹیل کو زندہ رہ کر کیا کرنا تھا؟ مالک نہ رہے تو پالتو جانور اُداس ہوکر کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا پاکستان اسٹیل اِتنی وفاداری بھی نہ دِکھاتا! خسارے کے معاملے میں یہ ادارہ بھی پی آئی اے کے نقش قدم پر گامزن ہے یعنی ملازمین خسارے میں نہیں رہتے!

پاکستان اسٹیل، پی آئی اے اور ریلوے پر مبنی مثلّث میں ہر زاویہ دیگر دو کو تقویت بہم پنچا رہا ہے۔ پی آئی اے کی طرح دیگر دو ادارے بھی اڑان نہیں بھر رہے۔ ریلوے کی طرح دیگر دو بھی خسارے کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں۔ اور پاکستان اسٹیل کی طرح دیگر دونوں اداروں کا خسارہ بھی خالص فولاد سا مضبوط ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524405 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More