ایک لطیفہ: کلاس میں ٹیچر نے
لڑکوں سے پوچھا کہ اپنا اپنا نام اور مشاغل بتائیں۔ ایک لڑکا کھڑا ہوا ور
بولا: میرا نام ہے نبیل اور مشغلہ ہے مون کو دیکھنا۔ دوسرا لڑکا: میرا نام
ہے نعیم اور میرا مشغلہ ہے مون دیکھنا۔ تیسرا لڑکا: میرا نام ندیم ہے اور
میرا مشغلہ بھی مون دیکھنا ہے۔ ٹیچر نے حیرت سے سب کو دیکھا اور کہا کہ آپ
سب کے مشاغل ایک ہی ہیں، گڈ۔ اب لڑکیاں اپنے مشاغل بتائیں: ایک لڑکی کھڑی
ہوئی اور بولی میرا نام ہے مون اور میرا مشغلہ ہے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں
کھول کر ان سب لڑکوں پر لعنت بھیجنا جنہوں نے ابھی ابھی میرے نام کا رٹہ
لگایا اور بین بجائی ۔
مندرجہ بالا محاورہ تو سبھی نے سن رکھا ہوگا، پر اس محاورے کو عملی پاجامہ
پہنایا ملتان کے کسانوں نے جب انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے حقیقت
میں ایک بھینس پر حکومت کا بینر لگا کر اسکے آگے بین بجائی۔ دراصل میں یہ
کسان بیچارے اپنے مطالبات منظور کراتے تھک گئے اور پھر انہوں نے ظالم حکومت
کے خلاف بین بجانی شروع کر دی کہ اس پر اثر تو کچھ ہوتا نہیں شاید بھینس پر
ہو جاوے ۔توجناب ! آج مکمل مزاح کی بجائے کچھ سیریس اور کچھ مزاح دونوں
ففٹی ففٹی ہوجائے۔
اگر ہم اپنی روز مرہ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہم دن بھر میں کئی جگہ یہ
بین بجاتے ہیں۔ مثلا: ڈیوٹی پر آنے کے لیے روزانہ صبح بیگم کے آگے بین
بجاتے ہیں کہ ناشتہ اور کپڑے ٹائم پر دے دو، پر عمل نہیں ہوتا۔بیگم اور
بچوں کے آگے آپ روزانہ بین بجاتے ہیں کہ نماز پڑھا کرو ،ٹائم کی پابندی کیا
کرو، آپس میں نہ لڑا کرو، ٹی وی کم دیکھا کرو، فون پر گپ شپ کم لگایا کرو،
صفائی اچھی طرح کیا کرو،کچن کے خرچے کم کرو، فالتو بتیاں بجھا دیا کرو،
اماں اور بہن بھائیوں کے گھر چوری سامان بھیجنے کی سپلائی لائن کاٹ کر
رکھو،اس بڑھاپے میں میک اپ کی دو دو اسٹکیں نہ تھوپا کرو، نہانے میں صابن
اور ٹائم کم خرچ کیا کرو،سالن میں گھی کم ڈالا کرو، سسرال والوں کی برائیاں
نہ کیا کرو ،بہشتی زیور صرف سنا نہیں عمل بھی کیا کرو، چٹے بال زبردستی
کالے نہ کیا کرو، پارلر جاکر بڑھاپا چھپانے کی ناکام کوشش نہ کیا
کرو،ناشکری، بدتمیزی اور زبان درازی نہ کیا کرو، شادی بیاہ سے جلد واپس آ
جایا کرو، صبح پہلی آواز پر اٹھ جایا کرو، شوہر سے گھر کے کام کاج اور بچوں
کی پوٹی اور پیمپر نہ دھلوایا کرو ، مرے ہوووں کو نہ کوسا کرو، پر ان بین
کو بھی کوئی نہیں سنتا۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے رکشے والے کے آگے آپ
روزانہ بین بجاتے ہیں کہ بھائی ٹائم پر آیا کر، پر اثر ندارد۔بچوں کی ٹیچر
کو روز لکھ کر بین بجاتے ہیں کہ ہوم ورک ٹھیک سے چیک کیا کریں ، پر اثر
ندارد۔
بس، منی بس، ھائی ایس ، سوزوکی ، وین، ڈالے یا ٹرین میں سوار ہو کر آپ
لوگوں کے بیچ بھنچے اور پھنسے رہیں اور ریکوسٹ کرتے رہیں کہ بھیا آگے ہو جاﺅ،
پر یہاں بھی یہ بین کوئی نہیں سنتا۔ کسی سرکاری دفتر میں جانا ہو تو ملازم
بارہ بجے سے پہلے نہیں آتے۔ باس بین بجا بجا کر تھک جاتا ہے کہ لیٹ نہ آیا
کرو ، پر کوئی نہیں سنتا۔پھر باس خود بھی لیٹ آنا شروع کر دیتا ہے۔ بغیر
لیے دیے کچھ کام کرانے کی نامراد خواہش پوری کرنے کے لیے آپ کتنی بھی بین
بجالیں، کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اپنی فائل کو پر یا پہیے لگوانے کے لیے بغیر
پیسوں کا بین بجاﺅ ، کوئی نہیں سنے گا۔ ویٹر سے کھانا جلد لانے کا بین بغیر
ٹپ کے نہیں سنے گا، بغیر رشوت کہیں نوکری یا داخلہ مل جائے یہ بین بھی کوئی
نہیں سنے گا، لائن میں لگ کر بل جمع کراﺅ کا بین بھی کوئی نہیں سنے گا۔آپ
ٹریفک میں پھنسے ہیں ، ہارن کا بین بجاتے رہیں کوئی نہیں سنے گا، فقیروں کو
ہٹانے کا بین جاری رکھیں ، کوئی نہیں سنے گا۔
اب اگر ہم بات کریں ظا لم حکومت کی تو : کلر ک بیچارے گلے میں سوکھی روٹیاں
لٹکائے بین بجاتے رہے کہ ہماری تنخواہیں بڑھادو، کسی نے ایک نہ سنی۔ پے
اینڈ پینشن کمیٹی کی سفارشات بین بجاتی رہیں کہ غریب غرباءاور شودر لوگوں
کو ریلیف دیا جائے، پر یہ بین بھی کسی نے نہ سنی ۔ چیف جسٹس صاحب کے آرڈر
بھی بھینس کے آگے بین ہوئے جارہے ہیں۔ عوام چیختی چلاتی ہے کہ مہنگائی نہ
کرو، بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرو، پر انکا
یہ مطالبہ بھی بھینس کے آگے بین ہوا جارہا ہے۔ حکومتی اہلکار اپنی مستی میں
اتنے گم ہیں کہ ہزار ہزار روپے بانٹ کر کہتے ہیں کہ ہم نے پانچ سال میں
لوگوں کو سونے لقمے کھلا دیے ہیں ، پھر عوام جب نہیں کا بین بجا تے ہیں تو
وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا۔
عوام سڑکوں پر لا شیں رکھ کر بے حال ہو کر بین کرتے رہے کہ قاتلوں کو پکڑو،
یہ اپنی مستی میں گم۔ ہزاروں لوگ پانچ روز تک معصوم بچوں اور خواتین کے
ساتھ سخت سردی میں اکڑتے اصلاحات کا بین بجاتے رہے، یہ سوتے رہے اور تماشہ
دیکھتے رہے۔ اسکے علاوہ اور بہت سے بین ہیں مثلا: ڈرون حملے روکنے لیے بین،
قرضوں کے لیے بین، مولویوں کا بین،طالبان کا بین،ملک لوٹنے والوں کے لیے
بین، کھسروں کے بین، غیروں کی جنگ کو اپنے سر تھوپنے کا بین، بے روزگار
ہونے والے ، اپنے ہرے بھرے لہلہاتے کھیتوں اور باغوں کی قربانی دینے وا لوں
کا بین ، اپنے رستے بستے گھروں کو اجڑوانے والے ،بچے یتیم کروانے وا لوں کے
بین، ہنستی بستی کھیلتی بیو گی کا کفن پہننے والی دوشیزا ﺅں کے بین، اپنے
جگر گوشے اور کڑیل جوان اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھتی ما ﺅں کے
بین، بم دھماکوں اور ڈرون حملوں میں زخمی اور اپاہج ہونے والے، چھوٹے چھوٹے
معصوم بچے بچیوں کے بین ، ماﺅں کے ساتھ کھلونے اور چوڑیاں خریدتے شہادت
پاتے ، کیمپوں کے اندر دودھ کے لیے ترستے، روتے بلکتے معصوم بچوں کا بین،
ایک وقت کی روٹی کے لیے میلوں لمبی لا ئنوں میں لگے لوگوں کا بین، پولیس کی
لا ٹھیاں کھاتے ، حادثات کے بعد ہزاروںکی تعداد میں اپنے پیاروں کی تلاش
میں سر گرداں لوگوں کے بین، حکمرانوں کی عقل کل پر پڑا پرد ے کا بین، ڈالر
وں کے عوض بیچے گئے، بیڑیوں میں جکڑے، آنکھوں پر پٹی بندھے، دن رات نئی نئی
اذیتیں سہتے گوانتا مو بے جیلوں میں قید لواحقین کے بین، ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کی والدہ ، بہنیں اور بھائیوں کے بین،انتقامی کاروائیوں کے نتیجے میں معصوم
عوام کی بے گوروکفن لا شیں اور زخمیوں کے کراہتے بین ، لواحقین کو دیوانہ
وار پاگلوں کی طرح جائے واردات اور ہسپتالوں میں اپنوں کی لاشیں ڈھونڈتے
بین ،کسی سرپرست کی ہلاکت کی صورت میں اسکے یتیم اور معصوم بچوں کو ایک وقت
کی روٹی اور دودھ کے لیے بین، کسی جسمانی اعضاءسے محروم کو لوگوں کے آگے
ہاتھ پھیلا نے کا بین، اپنے مال و اسباب اور گھروں سے اجڑ جانےوا لوں کے
بین، ہنستی بستی کھیلتی بیو ہ ہوتی دلہنوںکے فلک شگاف دل چیر بین ، اپنے
جگر کے گوشے اور کڑیل جوان کھوتی ماﺅں کے ارمانوں کے بین ، زخمیوں اور
اپاہج ہونے والوں کے بین، اربوں روپے کی املاک اور سامان کو تباہ ہوتے
دیکھتے روتے پیٹتے کاروباری حضرات کے نوحے اور بین،شہیدوں کی یاد میں نکالے
گئے جلوس کے معصوم اور نہتے شرکاءکی شہادت کے بین۔ دہشت گردی کے خلاف مارچ،
مظاہرے اور دھرنوں کے بین، غرضیکہ اتنے بین ہیں کہ بانسریاں کم پڑجائیں۔پر
حکمرانوں پر اسکا کوئی اثر نہ ہو۔
ٓاب اگر بات کریں کہ حکومت کون سے بین آسانی سے سنتی ہے تو: اگر حکومت کی
تعریف کے بین بجائیں تو انکے کان کوسوں دور کی آواز بھی صاف سن لیتے ہیں۔
نوٹوں کے بین کی آواز تو انہیں آسمان سے بھی سنائی دے جاتی ہے۔اور اب تو
دہشت گردی اور بم دھماکوں کے بین ڈلنے سے پہلے ہی ان ولی اللہ لو لوگوں کو
اسکی آواز مہینوں پہلے ہی سنائی دے جاتی ہے۔پر مجرموں کو پکڑیے پکڑیے کے
بین تو آپ ڈھول لیکر بھی پیٹیں تو بھی انہیں سنائی نہ دیں گے!۔
تو بھائی لوگو! میرا خیال ہے کہ حکمرانوں کے آگے بین بجا بجا کر سہانے خواب
دیکھنے سے بہتر ہے کہ جاگ جایا جائے اور اوپر والے کے آگے صرف ایک بار صد
قِ دل سے بین بجالی جائے تو تمام مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔کیا خیال ہے آپکا؟ |