امریکا خود تو جوہری ہتھیاروں سے
لیس ممالک میں سرفہرست ہے لیکن دوسرے ممالک کو ایک مربوط منصوبے کے تحت اس
قسم کے تمام ہتھیاروں سے محروم کرنے پرتلا ہواہے۔برطانوی اخبار ”ٹیلی گراف“
کے مطابق امریکا اور برطانیہ نے پاکستان، شام ، شمالی کوریا اور ایران کے
جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر قبضے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ رائل
ایئر فورس رجمنٹ کے خصوصی یونٹ کو شام کے مہلک ہتھیاروں کو محفوظ بنانے یا
تباہ کرنے کے لیے ہنگامی تیاری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے منصوبہ
بنایا گیا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا جائے یا پھر متواتر
فضائی حملوں کے ذریعے انہیں تباہ کر دیا جائے۔ دونوں ممالک کے سینئر
عہدیداروں نے پاکستان،شام اور ایران جیسے ممالک میں بھی بڑے ہتھیاروںکے
خلاف منصوبہ بنایا ہے۔ ایک سینئر برطانوی عہدیدارکے مطابق ایران کی جانب سے
جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبے میں پیشرفت بھی مغربی ممالک کے لیے
تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
امریکی اسٹریٹیجک ورکنگ گروپ نے بھی مشرق وسطیٰ اور خطے میں بین الاقوامی
ایمرجنسی کی صورت میں مہلک ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کی تیاری شروع کردی ہے۔
اس حوالے سے ایک گروپ بنایا گیا ہے جو امریکی فوج، میرین کور اور نیوی سمیت
آسٹریلیا اور برطانوی افسران اور حکومتی عہدیداروں پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے
مطابق اس منصوبے پر عمل کے لیے مذکورہ گروپ کے سینئر عہدیداروں نے
”یونیفائیڈ کوئیسٹ 2013ئ“ کے نام سے کنساس میں قائم امریکی فوج کے اسٹاف
کالج فورٹ لیون ورتھ میں مختلف جنگی مشقوں کے منصوبوں کی ریہرسل کی ہے جس
کے مطابق کسی بھی ملک کے ناکام ہونے کی صورت میں وسیع پیمانے پر تباہی
پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذخائر کو بچانے کے لیے امریکا اور دیگر ممالک
کارروائی کریںگے۔ جنگی مشقوں میں حصہ لینے والے ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر
نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں ایسے منصوبوںکی ضرورت ہے جس کے تحت ہم
اپنی افواج کو صحیح خطوط پر اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار کرسکیں۔ انہوں نے
مزید کہا ہے کہ شام کے پاس بڑی تعداد میں کیمیائی بشمول اعصاب شل کرنے اور
زہریلی گیس چھوڑنے والے ہتھیار موجود ہیں جبکہ پاکستان، شمالی کوریا کے پاس
جوہری ہتھیار وں کے علاوہ ممکنہ طور پر ایران نے بھی جوہری ہتھیاروں کے
حصول میں پیشرفت کی ہے۔ رپورٹ میں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے
حوالے سے خبر دار کیا گیا ہے کہ کسی بھی مغربی ملک یا شہر پر کیمیکل،
حیاتیاتی اور ریڈیو لوجیکل ہتھیاروں سے حملہ کسی بھی وقت متوقع ہے۔واضح رہے
کہ اس سے پہلے بھی متعدد بار امریکا خصوصاً پاکستان کے ہتھیاروں پر قبضے کی
منصوبہ بندی کرچکا ہے۔27 دسمبر 2007ءمیں بےنظیر بھٹو کی موت کے بعد امریکا
اور برطانیہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دے دیا تھا اور
ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی غرض سے سیکرٹ پلان تیار کر لیا گیا تھا جس کے
تحت امریکی ایلیٹ فورس یا برطانوی فوجیوں کو اسلام آباد بھیجا جانا تھا۔
امریکی اور برطانوی وزارت خارجہ کے ٹاپ سیکرٹ ڈپلومیٹک پیغامات پر مبنی
خفیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو امریکا کے خفیہ سٹوریج جو
کہ نیو میکسیکو میں واقع ہے وہاں منتقل کیا جانا تھا۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتا
تو پھر پاکستان ہی کے کسی "REMOTE REDOUBT" علاقے میں محفوظ کیا جانا تھا
کیونکہ مغربی طاقتوں کو یہ خطرات لاحق ہو گئے تھے کہ طالبان اسلام آباد تک
رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن پاکستان کے زمینی حقائق اس
قدر پیچیدہ تھے کہ امریکا اور برطانیہ کو پاکستان کے حکمرانوں سے سوائے ڈیل
طے کرنے کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اسی طرح امریکی میگزین نیوز ویک کو انٹرویو میں اوباما نے کہا تھا کہ اگر
پاکستان غیر مستحکم ہوتا ہے اور نیو کلیر ہتھیاروں کے شدت پسندوں کے ہاتھوں
قبضے کا خطرہ ہوتا ہے تو میں پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں کے تحفظ کے لیے
تمام آپشن پر غور کر سکتا ہوں۔ امریکی اینٹلی جنس ذرائع کے مطابق امریکا نے
پاکستان کے ایٹمی ہتھیار طالبان کے قبضے میں جانے سے روکنے کیلئے ایک جامع
منصوبہ بہت پہلے سے تیار کر لیا تھا۔ اس کے مطابق جب بھی امریکا کو محسوس
ہوا کہ پاکستان پر طالبان القاعدہ یا کسی ا ور گروپ کا قبضہ ہونے والا ہے
تو اس منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے گا جس کے تحت پاکستانی سرحد کے قریب
افغانستان میں تعینات خصوصی دستے پاکستان کے اندر کارروائی کرتے ہوئے
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے موبائل اسلحہ خانے کو اپنی حفاظتی تحویل میں
لے لیں گے۔ امریکی انٹیلی جنس ذرائع نے فاکس نیوز چینل کو بتایا تھا کہ یہ
آپریشن جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ کا سپر سیکرٹ کمانڈو یونٹ کرے گا جس کا
ہیڈ کوارٹر فیورٹ بریک این سی میں ہے جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ امریکی
فوج کا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والا سب سے بڑا سکواڈ ہے جس کے
یونٹس اس وقت پاکستان کی مغربی سرحد پر افغانستان کے اندر سرگرم عمل ہیں۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ان یونٹس کو ثانوی مشن غیر ملکی ایٹمی ہتھیاروں
کو قبضے میں لینا سونپا گیا ہے اس مقصد کیلئے ان یونٹس کو ریاست نیوارا میں
خصوصی تربیت دی گئی ہے اور اس کے علاوہ بھی متعدد بار امریکی افسران نے یہ
کہا ہے کہ اگر پاکستان،طالبان،القاعدہ یا اسلامی انتہا پسندوں کے قبضے میں
جاتا نظر آیا تو اس صورت میں امریکا کے پاس پاکستان میں دراندازی کر کے اس
کے جوہری وارہیڈ کے متحرک ذخیرے کو اپنے کنٹرول میں کرنے کا تفصیلی منصوبہ
موجود ہے۔دسمبر 2012ءمیں امریکا نے دنیا بھر میں اپنے جاسوسوں میں اسی مقصد
کے لیے اضافہ کیا تھا۔امریکی سی آئی اے نے دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے
فوجی اور سفارتی عملے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں جاسوس متعین کرنے
کا فیصلہ کیا تا کہ وہاں شدت پسندی کو روکا اور مقامی سطح پر مختلف قسم کی
سرگرمیوں میں پر نظر رکھی جا سکے،اس مقصد کے لیے نوجوان امریکیوں کی بھرتی
کا عمل شروع کیا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سمیت دیگر ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق
امریکی محکمہ دفاع پنٹا گون سینکڑوں کی تعداد میں جاسوس سمندر پار بھیجے
گئے جن کا مقصد اس کی جاسوسی نیٹ ورک کو توسیع دینے کی حکمت عملی کا حصہ
ہے۔ اوراس منصوبے کے ذریعے دفاعی انٹیلی جنس ادارے کو مزید مضبوط کیا جانا
تھا جو پہلے ہی 10 سال سے کام کررہا ہے۔ اس سے پہلے ہی واشنگٹن پوسٹ کے
مطابق 9/11 کے بعد پاکستان میں موجود ایسے افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ
ہوا ہے حتیٰ کہ رابرٹ گیٹس کو بھی معلوم نہیں کہ پاکستان میں امریکی
جاسوسوں کی تعداد کیا ہے۔ مجموعی طور پر 8 لاکھ 54 ہزار افراد ٹاپ سیکرٹ کو
سیکورٹی کلیئرنس دی گئی اور اس تعداد میں ریمنڈ ڈیوس جیسے 2 لاکھ 65 ہزار
ٹھیکیدار (کنٹریکٹرز) شامل ہیں۔ ”ٹاپ سیکریٹ امریکا“ نامی رپورٹ میں امریکی
اخبار نے انکشاف کیا کہ یہ ٹھیکیدار دشمنوں کے جنگجوو ¿ں کو ہلاک کرتے ہیں۔
وہ غیر ملکی حکومتوں اور مخالفین نیٹ ورکس کی جاسوسی کرتے ہیں۔ یہی لوگ
جنگی پلان مرتب کرتے ہیں اور قوم کی جنگ لڑنے والے فور اسٹار (چار ستارہ)
جرنیلوں کیلئے انتہائی قابل اعتماد مشیر ہوتے ہیں۔“ اگرچہ اس رپورٹ میں یہ
انکشاف نہیں کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سی آئی اے کے ایسے ایجنٹس اور
ٹھیکیداروں کی تعداد کیا ہے لیکن ان میڈیا رپورٹس کی توثیق کی گئی ہے کہ
9/11 کے بعد کی صورتحال میں؛ جب امریکیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ جو
مناسب سمجھیں وہ کرسکتے ہیں چاہے ہو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ؛
پاکستان میں سی آئی اے کا جال بے مثال انداز سے وسعت پا چکا ہے۔رپورٹ کے
مطابق سی آئی اے کیلئے کام کرنے والے نجی ٹھیکیداروں نے مختلف ممالک میں
جاسوسوں کو بھرتی کیا، انہیں افغانستان میں معلومات کے حصول کیلئے رشوتیں
دیں اور دنیا بھر کے دورے کرنے والے سی آئی اے کے ڈائریکٹرز کو تحفظ فراہم
کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایجنسی کا تربیتی ٹھکانہ امریکی ریاست
ورجینیا میں ہے جہاں جدید دور کے جاسوسوں کی نئی کھیپ تیار کی گئی ہے۔
امریکی حکومت کو ٹاپ سیکرٹ کلیئرنس کے حامل نجی کنٹریکٹرز کے حصول کی بھوک
اس قدر زیادہ ہے کہ اب ایسی 300 کمپنیاں قائم ہوچکی ہیں جنہیں اکثر ”باڈی
شاپ“ کہا جاتا ہے جو امیدواروں کو ڈھونڈنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ واشنگٹن
پوسٹ نے رابرٹ گیٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ ان ڈیفنس کنٹریکٹرز کی
تعداد کم کرکے 13 فیصد تک لانا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں شدید
مشکلات کا سامنا ہے حتیٰ کہ انہیں تو اصل تعداد بھی نہیں معلوم۔ ان کا کہنا
تھا کہ ”یہ ایک ہولناک اعتراف ہے، مجھے وہ تعداد معلوم نہیں کہ وزیر دفاع
کے دفتر کیلئے کتنے کنٹریکٹرز کام کرتے ہیں۔“ |