سانحہ کوئٹہ، ذمہ دار کون ؟

کوئٹہ کے علاقے کیرانی روڈ پر ہونے والے بم حملے میں تقریباََ نوے کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے، اور اس سے دگنی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اہل پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آدمی ہنسی خوشی گھر سے نکلتا تو ہے لیکن واپسی پر انکی لاش اس خبر کے ساتھ گھر پہنچتی ہے کہ مذکورہ شخص ٹارگٹ کلنگ یا کسی بم دھماکے کا شکار ہوگیا ہے۔ بد قسمتی سے یہ سلسلہ ختم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہاہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ قاتل ہمیشہ ”نامعلوم“ ہی رہتے ہے۔

کراچی، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک کے بیشتر حصے بری طرح دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی۔ آخر یہ سب کچھ کرنے والا ہے کون؟ کیا وہی جس نے حملے کی ذمہ داری قبول کی یا پھر کوئی اور ؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ اگر چہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے لیکن حقائق و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اس ظالمانہ کارروائی کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اس وقت کے بین الاقوامی صورتحال، پاکستان کے اندرونی معاملات اورکوئٹہ میں بیس دن کے وقفے سے ہزارہ کمیونیٹی کے خلاف دوبھیانک کاروائیوں کو باہم ملائے تو صاف طور پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وطن عزیز ان دنوں بری طرح بین الاقوامی سازشی گروپ کے نرغے میں آچکا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔

کوئٹہ میں تباہ کن بم دھماکہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب ایک طرف امریکہ 2014 ءتک افغانستان میں موجود اپنے فوجی دستوں کو واپس بلانے والا ہے۔ جس کے بعد امید ظاہر کی جارہی ہے کہ افغان حکومت کی بھاگ ڈور طالبان کے ہاتھ میں آجائیگی۔ تو دوسری طرف پاکستان میں بھی عام انتخابات سر پر ہے اور یہاں کے عوام بھی پر امید ہے کہ اس بار انتخابات کے نتیجے میں بائیں بازو کی جماعتیں بر سرِ اقتدارآئیگی۔ جس کے بعد اگر ایک دم نا بھی سہی تو بتدریج پاکستان امریکی جال سے نکلنے اور ایک آزاد عوام دوست خارجہ پالیسی بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ لہٰذا اہل پاکستان پر امید ہے کہ اس نئے منظر نامے کے بعد پاکستان نہ صرف اندرونی طور پر مستحکم ہوجائے گا بلکہ ایک بار پھر کشمیر اور فلسطین سمیت دنیابھر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے قابل بھی ہوگا۔ مستقبل قریب کے اسی نقشے کو دیکھ کر وہ بین الاقوامی گروہ جو ایک عرصے سے پاکستان کو برباد کرنے کے درپے ہیں اور جنکی یہ کوشش ہے کہ اس خطے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد بھی پاکستان امن وامان کے لیے ترستا رہے۔ وہ گروپ اب پوری طرح حرکت میں آچکا ہے اور اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائے کہ حالیہ حملے کے بعد جس طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں اسے دیکھ کر تو پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ باقاعدہ ایک منظم منصوبے کے تحت فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضا پیدا کی جارہی ہے ۔ اس کام میں کئی باشعور لوگ بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر شریک ہیں۔

درج ذیل سطور میں چند بیانات قارئین کے نذر کئے جارہے ہیں۔ پہلے بیانات ملاحظہ فرما ئیں پھر اسکا تجزیہ کرینگے۔

۱) ایجنسیاں ناکام ہوگئی ہیں یا پھر وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
۲) علماءمخالف فرقوں کے قتل کے فتوے دینے سے بازآجائے۔ نہیں تو ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائےگا۔
۳) عدالتیں مجرموں کو چھوڑ دیتی ہے اس لئے عدالتوں پر اعتماد نہیں۔ لہٰذا ملزمان کو پکڑنے کی بجائے موقع پر ہی ہلاک کر دیا جائے۔

یہ خاص بیانات اور اعتراضات آپ نے ملاحظہ کیے، اب بالترتیب اسکا تجزیہ پیش خدمت ہے۔

۱) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہا د امریکی جنگ میں شریک ہے تب سے پاکستانی خفیہ ایجنسیاں بھی کئی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوچکی ہے۔ جن میں لوگوں کو غائب کرنا اور اور بعد میں بعض کو قتل کرنا بھی شامل ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کے چیف جسٹس بھی عدالت عظمیٰ میں ریمارکس دے چکے ہیں۔ لیکن جس طریقے سے کوئٹہ حملے کے بعد ایجنسیاں تنقید کی زد میں ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ حالات واقعی ایسے نہیں کیونکہ بقول وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک کہ ”انہیں بیشتر حملوں کا پیشگی علم ہو جاتا ہے “ اور یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ وزیر داخلہ کو وحی تو نہیں آتی بلکہ انہیں معلومات دینے والی یہی ایجنسیاں ہیں ۔ یہ کہنا کہ ایجنسیاں ناکام ہوگئی نا صرف حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے بلکہ اس عالمی کھیل کا حصہ بھی ہے جسے ہم سطور بالا میں تحریر کرچکے ہیں۔
۲) میرے جن محترم بھائیوں اور بزرگوں کا یہ خیال ہے کہ علما ئے کرام کے فتوے ہی فساد کی جڑ ہے ۔ انکی خدمت میں گزارش ہے کہ تو نہ کسی مولوی نے کوئی فتویٰ دیا ہے اور نا ہی کسی مولوی کو فتویٰ دینے کا مجاز ہے ۔ فتاویٰ مفتی حضرات ہی جاری کرتے ہیں، اوراب تک اس قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کسی مولوی نے کوئی فتویٰ دیا ہے ، سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
۳) یہ کہنا کہ عدالت مجرموں کو چھوڑ دیتی ہے۔ بذات خود اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت بے گناہ لوگوں کو پکڑنے میں مصروف ہے۔کیونکہ عدالت الزامات ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ہی چھوڑ تا ہے اور الزام ثابت کرنا حکومتی وکلاءکا کام ہے نہ کہ عدالت کا۔

مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت ، میڈیا اور دیگر حلقوں کی خدمت میں عرض ہے کہ خدارا دہشت گردی کے ہر واقعے میں فرقہ ورانہ پہلوڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ کچھ عالمی سازشوں پر بھی نظر رکھیں ۔ اگر انہیں پھر بھی غیروں کی سازشیں نظر نہیں آتی تو پھر وہ صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ کے معاون خصوصی شرف الدین میمن کے اس بیان پر غور ضرور کریں کہ کراچی میں نوے افراد کو صرف تین پستولوں سے قتل کیا گیا اور ہلاک ہونے والوں میں شیعہ، سنی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن شامل ہیں۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 115158 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More