ممکنہ سوموٹو ایکشن - لسٹ تو بڑی لمبی
ہے - چلیں ایک تیسٹ کیس ہی سہی۔ ماضی قریب کے معزول چیف جسٹس اب
دوبارہ اپنے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ملک کی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف
جسٹس بن چکے ہیں، چلیں کیسے ہوئے ایک بحث تھی جیت کس کی ہوئی اور ہار کس کی
یہ تو سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ اب چیف جسٹس صاحب کو اپنے کندھوں پر
پہلے سے زیادہ بوجھ محسوس ہو رہا ہوگا۔ اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ چیف جسٹس
صاحب کی معزولی کے دوران جو ملکی مسائل بگڑے ان کی جانچ پڑتال اور عدل کے
فیصلے یقیناً چیف جسٹس صاحب کے منصب سے انصاف کا تقاضہ کرتے ہیں۔ جس پر
پورا اترنے کے لیے چوبیس چوبیس گھنٹوں کی ریلیاں (چاہیں کچھ لوگ اسے سیاسی
کہیں یا غیر سیاسی ) نکالیں گئیں اور ان میں جو وعدے وعید قوم سے اور اپنے
آپ سے کیے گئے ان کے مطابق بس مزکورہ عدلیہ جو کہ اب اپنے تمام تر جوبن پر
نظر آتی ہے، کے بحال ہونے کی دیر ہونی ہے اور ملک کے مسائل اس طرح غائب ہو
جائیں گے جیسے مشرف کی وردی اور طاقت (تمام کا اس سے متفق ہونا کوئی اتنا
ضروری بھی نہیں)۔
بحرکیف عدلیہ کی آزادی کو کوئی مہینہ ہونے کو آرہا ہے اور قوم کسی بڑے بریک
تھرو کے انتظار میں ہے جو چاہے تو امریکی بے مہار ڈرون حملوں کا حساب کتاب
امریکہ بہادار سے مانگ لینے کا ہو، یا مشرف کے آئینی و غیر آئینی اقدامات
ہوں، چاہے وہ عدلیہ کی بے توقیری ہو یا کسی سابق منتخب وزیراعظم کی جلاوطنی
و توہین ہو، چاہے وہ عافیہ صدیقی ہوں یا ان جیسے کتنے ہی پاکستانی جو
امریکہ یا ترقی یافتہ ممالک کے حوالے کیے گئے ہوں (کچھ مشرف دور میں کچھ
نواز دور میں اور کچھ دوسرے ادوار میں) ، چلیں جی اتنے بڑے بڑے مسائل اتنی
ننھی سی جان اور جنگل بیابان جسی نوخیز و ناتواں مگر تازہ تازہ عدلیہ کے بس
کی بات نہیں ہیں تو لال مسجد جیسے لوکل مسئلے کو ہی ٹیسٹ کیس کے طور پر
قبول کرنے کی درخواست ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ این آر او بھی ایک ایسا کیس
ہے جس کے متعلق عدلیہ بحال تحریک کے سرکردہ لیڈران اور ہمارے ملک کے مایہ
ناز سیاسی لیڈران یہ کہہ رہے تھے کہ چیف جسٹس کو بحال ہوتے ہی ٹیسٹ کیس کے
طور پر این آر او کو لینا چاہیے۔ مگر کیا کیجیے اس ظالم امریکہ کا جو لگ
رہا ہے کہ ایسی گارنٹیاں دے اور لے بیٹھا کہ این آر او کی رٹ لگانے والوں
کو بھی سانپ سونگھ گئے ہیں تو عدلیہ کو کیا آپ نے کوئی ٹارزن سمجھ رکھا ہے
کہ جو این آر او کے مسئلے کو چھو بھی سکے (کیا ہوا جو وہ مشرف صاحب کا کوئی
قابل نفرت آرڈینس تھا، اب کیا مشرف صاحب کے ہر اقدام کو ختم کرنے کا ٹھیکہ
عدلیہ نے لے رکھا ہے)۔
گزشتہ دنوں جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل جناب سینیٹر عبدالغفور حیدری صاحب
کا بیان نظر سے گزرا جس میں حضرت نے بجا ارشاد فرمایا “ کہ افتخار محمد
چوہدری اب جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے طور پر بحال ہو چکے ہیں تو انہیں اب
فی الفور لال مسجد کے واقعے کا ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا
کہ لال مسجد میں سینکڑوں طلبا و طالبات شہید کر دیے گئے۔ اسلیے جب کہ چیف
جسٹس افتخار چوہدری صاحب جہاں دیگر بہت سے معاملات پر سوموٹو ایکشن لے رہے
ہیں انہیں لال مسجد کے واقعے کا بھی ازخود نوٹس لینا چاہیے۔۔ “ بات کوئی
ایسی انوکھی اور ناقابل عمل بھی نہیں ہے اور چونکہ سارے کردار گھوم پھر کر
ق لیگ پر ہی ٹوٹیں گے اس لیے یہ سوموٹو ایکشن کوئی ایسا مشکل و دشوار بھی
نہیں کہ جیسا این آر او ہو سکتا ہے۔ تو بھائی کچھ تو کریں۔ شریف برادران کے
حق میں سوموٹو ایکشن اور پنجاب حکومت کی بحالی والے سوموٹو ایکشن سے ن لیگ
تو بڑی خوش ہے اور انہیں خوش ہونا بھی چاہیے۔ فیصلے جسکے حق میں جاتے ہیں
وہ تو خوش ہی ہوگا۔
بھائی ہم تو شمار ہوتے ہیں افتخار چوہدری صاحب کے ناقدین میں اور کوئی ایسا
بھی نہیں ہے کہ کیونکہ افتخار چوہدری چیف جسٹس بن گئے ہیں تو ہم آنکھ بند
کر کے ان کے فیصلوں اور کاموں کو ماننے لگ جائیں۔ ہم تو دیکھیں گے کہ جو
قوم سے وعدے اور دعوے کر کے لوگ بحال ہوتے ہیں کیا وہ سچ میں کچھ ایسا کر
دکھاتے ہیں کہ ہم جیسے ناقدین بھی ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں یا ہم صحیح تھے
جب ہم کہتے تھے کہ دیکھتے ہیں کیا کر دکھاتے ہیں معزول لوگ دوبارہ بحال ہو
کر۔ |