بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم۔
الحمداللہ رب العالمین۔
سب سے پہلے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ شریعت کا انکار درحقیقت
کفر ہے۔ اور نادانی سے اگر ایسا ہو جائے تو اللہ عزوجل سے معافی مانگ لینی
چاہیے اور اگر شریعت کے انکار کا فعل اختیاری ہے تو یقیناً کفر اور شدید
ترین کفر ہے۔
اللہ سے امید ہے کہ اللہ ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہمیں ایک دوسرے سے
محبت کرنے والا بنائے آمین ۔
آج کل دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ سوات کے واقعے کے بعد بہت سے لوگ اس کو
شرعی اور بہت سے لوگ اس کو غیر شرعی قرار دے رہے ہیں۔
اب سب کو دیکھنا چاہیے کہ اگر شرعی تھا تو کیا تمام شرعی تقاضے پورے ہوئے
تھے اگر نہیں تو اس سزا کو شرعی قرار دینا بھی ایک ایسا دلیرانہ عمل ہے کہ
سے اللہ کے غضب و غصہ کو آواز دی جا رہی ہے۔
اب ہو تو یہ رہا ہے کہ اس واقعے کو شرعی کہنے اور سمجھنے والے اب اس بات کا
واویلہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ایسا واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ہے اور چونکہ
ہوا ہی نہیں ہے تو اس سلسلے میں شرعی و غیر شرعی کی بحث کا کیا فائدہ؟
گزشتہ دنوں ایک مشہور صحافی جناب ہارون الرشید نے روزنامہ جنگ کے ایک
اداریے میں تحریر کیا ہے کہ “شریعت اسلامی کے بارے میں کس کی رائے کو معتبر
مانا جائے۔ سید ابوالاعلی مودودی یا صوفی محمد۔ وہ جو شریعت کے علمبردار
ہیں، صوفی محمد کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ صوفی صاحب کا تازہ ترین ارشا یہ
ہے “جمہوریت کفر ہے اور کفر کے سوا کچھ بھی نہیں“۔ ان کا یہ ارشاد جماعت
اسلامی کے ایک جریدے میں خاص طور پر لئے گئے انٹرویو میں من وعن چھپا ہے۔
ایک طرف برادرم انصار عباسی اور سید منور حسن ہیں دوسرے طرف عزیزم رؤف
کلاسرا اور محترم و مکرم قائد انقلاب السید الطاف حسین۔ بیچ میں اہل سوات
اور اہل پاکستان حیران کھڑے ہیں۔ بیچ میں سچائی ششدر کھڑی ہے۔ ۔۔۔۔۔
آگے مزید لکھتے ہیں کہ “ محض حکم اور قانون نہیں اس سے کہیں زیادہ اسلام
تعلیم ہے۔ وہ تربیت کا ایک نظام اور ماحول ہے۔ اوپر سے مسلط کیا جانے والا
نہیں بلکہ انسانی قلب و دماغ میں بتدریج پروان چڑھنے والا ایک داخلی نظم۔
اسلامی معاشرہ تدریج کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ کردار کے اعلیٰ ترین عملی
نمونوں سے، علم سے، تلقین سے، محبت و الفت اور انس کے ساتھ۔ اسلامی معاشرے
میں سزا تو ان بدبختوں کا مقدر ہوتی ہے جو رزق کی فراوانی کے باوجود نقب
لگائیں۔ ماحول کی پاکیزگی کے باوجود اپنے اندر کے شیطانوں کو گنے کا رس
پلاتے رہیں۔ عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے قحط میں چوری کی سزا
معطل کر دی تھی۔ انیس سو ستر کو گلبرگ کے ایک جلسہ عام میں سید ابوالاعلی
مودوددی نے واشگاف الطاظ میں اعلان کیا تھا کہ جماعت اسلامی کو اقتدار ملا
تو پردہ حکما نافذ نہ کیا جائے گا۔ اپنی کتاب رسائل و مسائل میں انہوں نے
لکھا ہے کہ اس معاشرے میں اسلامی سزائیں نافذ کرنے کا کوئی جواز نہیں جو
گندگی، جرم اور استحصل سے بھرا ہو ۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود سید منور حسن
صوفی محمد کی حمایت کرتے ہیں جن کا ارشاد یہ ہے کہ “جمہوریت کفر ہے اور کفر
کے سوا کچھ بھی نہیں“۔ سید منور حسن اور برادرم انصار عباسی سے مودبانہ
سوال یہ ہے کہ عالم کون ہے۔ سیدابولاعلی مودودی یا صوفی محمد؟۔ کس کی رائے
پر غور کیا جائے۔ کس کی بات سنی جائے، کون سی شریعت اس ملک میں نافذ ہوگی۔
بیروزگاروں کو غیر سودی برضے دینے والے ٹیپو سلطان اور فتح مکہ کی باد تازہ
کرنے والے صلاح الدین ایوبی یا عورتوں کو برسر بازار کوڑے مارنے والے
طالبان کی شریعت“؟
تو میرے بھائیوں یقیناً کچھ لوگوں کو ہارون الرشید صاحب کی کچھ باتوں سے
اختلاف ہو سکتا ہے۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر کچھ لوگ سواتی عورت کو
کوڑے مارنے والی سزا کو غیر شرعی قرار دینے پر مضر ہیں تو جو اس کو شرعی
قرار دینے پر مضر ہیں کیا وہ تمام شہادتیں اور گواہ لائے تھے جس کے بعد
شریعت نافذ کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ یا یہ کہ طالبان یا ان جیسے کچھ لوگوں نے
جسے شریعت سمجھ لیا ہم سب بھی اسے شریعت سمجھنے کے پابند ہیں۔ شریعت صاف
اور کھلی ہے اور اس کے لیے کئی شرائط و ضوابط ہیں کہ جن کے بعد شریعی سزاؤں
کا منعقد کیا جانا برحق ہے۔ تو بھائی اگر چلیں میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ
شریعت کی آڑ میں غیر شرعی سزائیں دی جارہیں ہیں تو کیا میں نعوذباللہ شریعت
کا منکر ہوں (اللہ مجھے اور آپ کو ہدایت عطا فرمائے)۔
اور تو اور صوفی محمد صاحب لگتا ہے کبھی ناراض اور کبھی راضی ہوتے رہتے
ہیں۔ کل شگر کوٹڈ دھمکی بھی قوم کی دے دی گئی ۔ کہ اگر امن معاہدے پر صدر
مملکت نے دستخط نہ کیے تو سوات اور ان علاقوں میں جو کچھ ہوگا اس کی ذمہ
وار حکومت پاکستان ہوگی۔ واہ بھی واہ کیا عمدہ طریقے ہے قائل کرنے کو دوسرے
فریق کو۔ اور کل تک امن کیمپ کے اکھڑنے کی باتیں اور آج پھر امن کیمپ گاڑے
جانے کی خبریں ہیں۔ اللہ ہمارے ایمان کی اور ہمارے ملک و قوم کی حفاظت
فرمائے۔
شریعت ہم سب کا مطالبہ ہے مگر بے عمل جاہل شدت پسند جس کو بھی چاہیں شریعت
قرار دے لیں اس کو ہم نہیں مانتے۔ ہمیں شریعت محمدی منظور ہے۔ شریعت طالبان
نہیں |