حیدرآباد بم دھماکہ: خفیہ ایجنسیاں اور میڈیا پھر پرانی ڈگر پر

حیدرآباد ایک بار پھر بم دھماکوں سے دہل اٹھا۔خفیہ ایجنسیاں اور پولیس والے ہاتھ ملتے رہ گئے کیوں کہ ان کی ہمیشہ سے دلچسپی لکیر پیٹنے میں رہی ہے اصل خاطی کو گرفت میں لینے میں نہیں۔اسی شام دہلی میں ایک پروگرام میں مشہور وکیل مجید میمن نے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے تعصب اور امتیازی سلوک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا جب بھی کہیں بم دھماکہ ہوتا تو مسلمانوں کو یہ خوف ستانے لگتا ہے کہ ان کے نوجوانوں کی گرفتاری شروع ہوجائے گی کیوں کہ خفیہ ایجنسیاںیکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ساری توجہ صرف اور صرف مسلمانوں پر ہی مرکوز رکھتی ہیں اور مسلمانوں کا ہی نام اچھالا جاتا ہے۔ خفیہ افسران ایک منصوبہ بند سازش کے تحت نیوز چینلوں کے توسط سے کچھ خاص مسلمانوں کے نام اچھالتے ہیں اور میڈیا سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے اور دھماکے میں مسلم نوجوانوں کے ملوث ہونے کا مالا جپنے لگتا ہے۔ سوئے اتفاق اسی شام حیدرآباد کے دل سکھ نگرمیں سلسلہ وار بم دھماکہ ہوگیا اور ناحق 17لوگوں کی جان گئی اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ حیدرآبادمیں ہونے والے بم دھماکے نے ایک بار پھریہ ثابت کردیا ہے کہ ہماری انٹلی جنس ایجنسیاں ایک بار پھر ناکام ہوگئیں۔ حیدرآباد بم دھماکے میں جس طرح بھیڑ بھاڑ والے علاقے کو نشانہ بنایا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بم دھماکہ کرنے والوں کا منشا زیادہ سے زیادہ جانی اتلاف تھا۔اس دھماکے میں روایتی بم اور امونیم نائٹریٹ کا استعمال کیا گیا جیسا کہ جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں آندھرا پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس وی دینش ریڈی نے کہا کہ یہ بم گھریلو ساختہ بم (آئی ای ڈیز) تھے جنہیں امونیم نائٹریٹ سے بھرا گیا تھا جو کہ زرعی کھاد کی صورت میں آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔ یوریا اور پیٹرول کی معمولی مقدار بھی پائی گئی ہے۔ اجزا کو آپس میں باندھنے کے لیے تانبے کے تاروں کو استعمال کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ "اس سے مماثل گھریلو ساختہ بموں کو آخری بار2007 میں حیدرآباد میں ہونے والے بم دھماکے میں استعمال کیا گیا تھا جس سے سارا شہر لرز اٹھا تھا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی ماہر بم ساز نے اسے بنایا تھا۔ ان بموں میں لوہے کے کیل، نٹ، بولٹ اور شیشے کے ٹکڑے بھی بھرے گئے تھے"۔پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک دوسرے سے 100 میٹر کی دوری پر لگائے گئے دو سائیکلوں میں آئی ای ڈی باندھ کر دھماکہ کیا گیا تھا۔ دونوں جگہوں پر امونیم نائٹریٹ کے باقیات بھی پائے گئے ہیں۔چنئی، مدھیہ پردیش سمیت ملک کے مختلف حصوں میں امونیم نائٹریٹ کی کھیپ کے ساتھ کئی ہندوؤں کو پکڑاجاتارہا ہے ۔

حیدرآباد گزشتہ کئی برسوں سے حساس شہر رہا ہے کیوں کہ جہاں تلنگامہ مسئلہ کو لے کر وہاں کے حالات کشیدہ رہے ہیں وہیں اشتعال انگیز تقریر کی وجہ سے بھی بدامنی رہی ہے۔پہلے اس شہر کے امن کو پروین توگڑیا نے غارت کرنے کی کوشش کی اس کے بعد اس فہرست میں اکبرالدین اویسی کا بھی نام آیا یہ الگ بات ہے کہ اویسی کو تو گرفتار کیا گیا لیکن پروین توگڑیا کو چھوا تک نہیں گیا۔ امتیازی کا ایسا پیمانہ تھا جسے تمام ہندوستانیوں نے محسوس کیا ہے۔ابھی یہ معاملہ سرد ہی ہوا تھا کہ پھر بم دھماکہ نے حیدرآباد کے امن کو تار تار کردیا ہے۔اس دھماکہ نے 2007 کے بم دھماکے کی یاد تازہ کردی ہے جس میں تقریباَ 40 افرا دہلاک ہوئے جس میں کچھ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے بھی شامل تھے۔ جن کے الزام میں پہلے درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان نوجوانوں کا تعلق پڑھے لکھے اور آئی ٹی پروفیشنل سے تھااور ان کی زندگی کئی سال تک جیل کی چہار دیواری میں تباہ ہوئی تھی لیکن سوامی اسیمانند کے اقبالیہ بیان کے بعد یہ عقدہ کھلا تھا کہ اس دھماکے میں ہندو دہشت گردوں کا ہاتھ تھا اور ایک طویل عرصہ کی قانونی کارروائی کے بعد مسلم نوجوانوں کو رہا کیا گیا تھااور حکومت آندھرا پردیش نے ان مسلم نوجوانوں کو معاوضہ بھی دیا تھایہ الگ بات ہے کہ جو معاوضہ ملا تھا وہ آٹے میں نمک کے برابر تھا لیکن بری ہونا ہی ان مسلم نوجوانوں کے لئے بڑی بات تھی۔ دھماکے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب مسلم نوجوانوں کو بری کیا گیا اور معاوضہ بھی دیا گیا تھا۔اس کے بعد یہ راز بھی کھلا کہ مالیگاؤں، سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر اور دیگر بم دھماکے ہندو دہشت گردوں نے انجام دئے تھے ان سبھی کا تعلق آرایس ایس سے تھا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اتنے دھماکوں میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے باوجود آر ایس ایس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ۔ اس کے ارکان کی گرفتاری تو دور کی بات ان سے پوچھ گچھ تک نہیں کی گئی۔جب کہ اسٹوڈینٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے بارے میں اب تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی ہے اور نہ ہی اب تک کسی عدالت نے اس ارکان کو قصوروار ٹھہرایا ہے لیکن اس کے باوجود اس تنظیم کے سیکڑوں ارکان ابھی تک جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کی گرفتاری اب تک جارہی ہے۔ ان کے گنہگار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ سیمی سے وابستہ ہیں یا اس سے کسی طرح کا تعلق رہا ہے۔سیمی پر پابندی مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی دگ وجے سنگھ کی سفارش پر لگائی گئی تھی اور دگ وجے سنگھ نے سیمی کے ساتھ بجرنگ دل پر بھی پابندی لگانے کی سفارش کی تھی لیکن اس وقت کی مرکز کی بی جے پی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد حکومت نے سیمی پر تو پابندی لگادی لیکن بجرنگ دل پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ ایک بار پھر حیدرآباد میں بم دھماکہ ہوا ہے لیکن حیدرآباد کے مسلمانوں کو یہ خوف ستانے لگا ہے کہ اب ان کے مسلم نوجوانوں کو گرفتاری کبھی بھی شروع ہوسکتی ہے ۔ دلچسپ بات ہے کہ اس بار ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے ایک نیا نام پیش کیا ہے وہ ہے 249یونائٹیڈ جہاد کونسل‘۔ جس طرح آج تک انڈین مجاہدین کا کوئی پتہ نہیں ہے کہ اس کا ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور کہاں سے آپریٹ ہوتا ہے اور اس کا سرغنہ کون ہے ، کس نے قائم کیا ہے اسی طرح یہ نیانام بھی ہمیشہ صیغہ راز میں ہی رہے گا اور مسلم نوجوانوں کو اس کے نام سے ملک بھر اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں اب تک یہ پتہ لگانے میں ناکام رہی ہیں درحقیقت انڈین مجاہدین نام کی دہشت گرد تنظیم کون چلا رہاہے اور کون مالی تعاون کرتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فرضی تنظیم ہے اور اس کاکوئی وجود نہیں ہے یہ صرف خفیہ ایجنسیوں کی ذہنی اپج ہے۔ یونائٹیڈ جہاد کونسل بھی کو اسی زمرے میں رکھا جانا چاہئے۔ خفیہ ایجنسیاں اگر چاہتی ہیں کہ بم دھماکے کے اصل خاطی پکڑے جائیں تو انہیں بلاامتیاز مذہب و ملت اور ذات پات اصل مجرم تک پہنچنا ہوگا لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیوں کہ حسب سابق خفیہ ایجنسیاں اور میڈیا کی ساری توجہ اس بار بھی مسلمانوں کی طرف ہی ہے۔

حکومت کے وزرائے اور اعلی افسران تویہ اعلان کرتے ہیں کہ تتفیش کا دائرہ کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں رکھا جائے گا لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہور ہاہے کیوں کہ ان لوگوں نے نام نہاد انڈین مجاہدین اور اس سے مبینہ طور پر وابستہ کچھ افراد سے پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔ حیدر آباد بم دھماکوں کے تار دہلی سے لے کر مہاراشٹر تک جڑے ہونے کا خدشہ کے پیش نظر دہلی کے تہاڑ جیل کے ہائی سیکورٹی سیل میں قید نام نہادانڈین مجاہدین کے مبینہ دہشت گرد مقبول سے دہلی پولیس نے تقریبا پانچ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔اس کے علاوہ مقبول کے ایک اور ساتھی سے بھی علاحدہ طورپر پوچھ گچھ کی گئی۔ مقبول کو گزشتہ سال اکتوبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مہاراشٹر میں بھی پولیس نے احمد نگر اور ناندیڑ میں آئی ایم سے وابستہ تمام افراد کی تلاش شروع کر دی ہے۔ پولیس کو امید ہے کہ ان دونوں جگہوں سے کچھ اہم معلومات انہیں حیدرآباد بم دھماکوں کے سلسلے میں مل سکتی ہیں۔ تفتیشی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے پیچھے انڈین مجاہدین کے سرغنہ ریاض بھٹکل اور یاسین بھٹکل کا دماغ قرار دیا ہے۔ جب خفیہ ایجنسیوں نے پہلے ہی یہ طے کرلیا ہے کہ یہ دھماکہ انڈین مجاہدین نے انجام دیا ہے تو پھر تفتیش کس کی بات ہورہی ہے۔ تفتیش کے لئے پندرہ ٹیمیں کیوں تشکیل دی گئی ہیں۔ اگر شفاف تفتیش کرنا چاہتی ہیں تو جیل بند بھگوا دہشت گروں سے خفیہ ایجنسیوں نے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی اور ان کے رشتہ داروں کو اپنے رڈار پر کیوں نہیں لیا۔ خفیہ ایجنسیاں بھگوا دہشت گرد وں کو دہشت گرد نہیں مانتی ہیں اسی لئے اس پر وہ توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے سلسلے میں خفیہ ایجنسیاں پہلے سے ہی اسکرپٹ تیار کرتی ہیں۔گزشتہ برس لکھنو میں’’خفیہ ایجنسیوں کی فرقہ پرستی اور دہشت گردی‘‘ کے عنوان پر منعقدہ پروگرام میں سابق پولیس افسر ایس آر داراپوری نے انکشاف کیا تھا ’’آبی بی ہو یا اے ٹی ایس،ایس ٹی ایف اور اسپیشل برانچ سبھی کا طریقہ یہی ہے کہ اسکرپٹ پہلے لکھی جاتی ہے بعد میں لوگوں کو اٹھاکر اس میں فٹ کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ خفیہ ایجنسیاں فرقہ پرست ذہنیت اور تعصب کی وجہ سے بے گناہ مسلم نوجوان کو گرفتار کررہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن کا خیال ہے کہ ملک میں ہونے والے ہر بم دھماکے یا دہشت گردانہ کارروائی کے بعد صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور یکطرفہ کارروائی کی جاتی ہے جب کہ ایسے کئی معاملات ہیں جن میں بجرنگ دل کا ہاتھ ہونے کے واضح ثبوت ملنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مہرولی، کانپور، مہاراشٹر، گجرات میں کچھ بم دھماکوں میں بجرنگ دل کے واضح ثبوت ملے تھے لیکن اس کے باوجود اس کے کسی بھی کارکن یا تنظیم تک کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔
دھماکے کیوں ہوتے ہیں جب کہ خفیہ ایجنسیوں نے (ان کی سوچ کے مطابق) سارے دہشت گردوں (مسلم نوجوانوں کو)کو گرفتار کرلیا ہے پھر بھی دھماکے کیوں ہورہے ہیں ۔ جیل میں قید یہ دہشت گرد دھماکے کرنے سے رہے اگر وہ جیل سخت پہرے میں بند ہونے کے باوجود ھماکے کرسکتے ہیں تو بھگوا دہشت گرد جنہیں جیل میں تمام سہولتیں حاصل ہیں وہ اور بھی آسانی سے کرسکتے ہیں لیکن ان کا ہدف صرف مسلمان ہیں۔ پولیس اور میڈیا کا رویہ بھگوا دہشت گردوں کے تئیں ہمیشہ ہمدردانہ رہا ہے۔ گزشتہ سال ۱۹ فروی کو پنجاب پولیس نے پانچ بھگوا دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا جس نے18 اکتوبر 2009 کو میوات کی مسجد اور مدرسے میں کئی دیگر جگہوں پر دھماکے کئے تھے ۔گرفتار دہشت گردوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ 2009 میں مالب گاؤں کی مکہ مسجد محمد پور، ٹک پوری گاؤں کے النفیس گوشت فیکٹری اور ہریانہ ہی کے جندو سفیدوں میں جو دھماکے ہوئے تھے ان کو گرفتار شدگان نے ہی انجام دیے تھے۔ جن کی شناخت رام نواس، گرنام سنگھ، پروین شرما، ماسٹر مائنڈ ساگر عرف آزاداور برجیش کمار کے طور پر ہوئی ہے لیکن میڈیامیں اس کا کوئی ذکر نہیں آیا ۔اس کے علاوہ ناگپور میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ہیڈکوارٹر پریکم جون 2006کو علی الصباح ہونے والا حملہ بھی فرضی تھا۔ یہ بات بمبئی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جی بی کولسے پاٹل کی قیادت میں غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں بتائی تھی جس کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں نے میڈیا کے توسط سے شور مچایا تھا کہ لشکر طیبہ کے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں کسی نے بھی دہشت گردوں کو نہیں دیکھا ۔ پولیس نے وہاں کے مکینوں کو بتایا کہ کوئی گھرسے باہر نہ نکلے اور ایک مکین نے تفتیشی ٹیم کو بتایاتھا کہ انہوں نے پولیس کو سفیڈ ایمبیسڈر کار سے تین لاشیں نکالتے ہوئے دیکھا تھا۔ دو اور ہندو دہشت گرد تنظیمیں سناتن سنستھان اورابھینو بھارت (ابھینو بھارت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہی انڈین مجاہدین کے نام دہشت گردانہ کارروائی انجام دیتا ہے اور شایداس کی سرپرستی خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں)کا نام بھی کئی دھماکوں میں لیا گیا ہے ۔ سناتن سنستھا کے چار دہشت گردوں کو تھانے اور واشی میں مبینہ طور پر دھماکئے تھے۔ سناتن سنستھا پر گوا میں بھی دھماکہ کرنے کا الزام ہے۔ ابھینہو بھارت کا نام مالیگاؤں اور پربھنی بم دھماکے کے علاوہ کئی اور دھماکے میں آیا ہے۔مئی 2007 میں شہر کی مکہ مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد سو مسلم نوجوانوں کو پولیس نے پکڑا تھا حالانکہ بیشتر رہا ہوگئے ہیں لیکن حالیہ دھماکہ نے ان متاثرین کو خوف زدہ کردیا ہے۔ وہ اس تکلیف کو بھول نہیں پا رہے ہیں جس سے انہیں گزرنا پڑا اور یہ فطری ہے بھی ۔ مکہ مسجد میں دھماکے کے بعد گرفتاری کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے وہ اب تک سنبھل نہیں سکے ہیں ان کی نہ صرف نوکری چلی گئی تھی بلکہ جہاں ان کی شادی طے ہوئی تھی اس خاندان نے بھی تعلق توڑ لیے تھے۔کیوں کہ مکہ مسجد میں دھماکے کے فورا بعد ہی پولیس اور میڈیا نے مقامی مسلم کمیونٹی سے لے کر لشکر طیبہ حرکت جہاد اسلامی اور حرکت المجاہدین جیسی تنظیموں پر الزام لگانا شروع کر دیا تھا۔مکہ مسجد دھماکے میں سی بی آئی کی چھان بین سے جب یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس میں آر ایس ایس سے وابستہ کچھ ہندو شدت پسندوں کا ہاتھ تھا تو ریاستی حکومت کو بہت شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔ بعد میں اسے قومی اقلیتی کمیشن کی سفارش پر بے گناہ پائے گئے مسلم نوجوانوں کو لاکھوں روپے کا معاوضہ ادا کرنا پڑا اور یہ سرٹیفکٹ دینا پڑا کہ ان نوجوانوں کا 'دہشت گردی' سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے اتنے سارے واقعات پیش آنے اور ان میں بھگوا دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی اور ہوئی بھی تو معدودے چند پر۔ اس کا دائرہ وسیع کیوں نہیں کیاگیا اور تمام دھماکوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیوں نہیں کی گئی۔ اس کا جواب بھی تلاش لیتے ہیں۔ بات28 ستمر 2011 کی ہے ۔ آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو میڈیا سے معمول کے مطابق ملاقات کر رہے تھے کچھ نامہ نگاروں نے ان سے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا کہ کانگریس کے ایک وفد نے صدر جمہوریہ سے درخواست کی ہے کہ وہ گورنر کی معرفت مدھیہ پردیش حکومت کے اس فیصلے کو تبدیل کروائیں جس سرکاری ملازمین کو آرایس ایس کی شاکھاؤں میں شرکت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ رام مادھو بغیر توقف کے کانگریس کے اس اقدام کو ’’سیاسی شعبدہ بازی‘‘ قرار دیا سوال کیا کہ ’’آرایس ایس کے لوگ کہاں نہیں ہیں‘‘ اور خود ہی جواب بھی دے دیا کہ’’ ہر جگہ ہیں۔ خود کانگریس کے اندر موجود ہیں‘‘۔ مندرجہ بالا تحریر سے ہم سب کے سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ کانگریس نے اپنے نو سالہ دور اقتدار میں بھگوا دہشت گردی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی، کارروائی صرف مسلم نوجوانوں تک محدود کیوں رکھی؟۔ بابری مسجد کے خاطیوں کو سزا کیوں نہیں دی اور گجرات قتل عام کے سب سے بڑے ذمہ دار نریندر مودی کا قلعہ قمع کیوں نہیں کیا۔ حیدرآباد بم دھماکے میں ہندی اور انگریزی میڈیا کا رول ایک بار نہایت گھناؤنا رہا۔ رات کے دس گیارہ بجتے بجتے ہندی نیوز چینلوں نے نہ صرف دھماکہ کرنے والی تنظیم کو ڈھونڈ نکالا تھا بلکہ دھماکہ کرنے والوں کا نام بتادیا تھا۔ حالانکہ اعلی افسران،ریاستی اور مرکزی وزرائے براہ راست کسی تنظیم کا لینے سے بچتے رہے لیکن خفیہ ایجنسیوں کے افسران نے میڈیا کے سہارے اپنا پرانا کھیل دوبارہ شروع کردیا۔ دھماکے کے الزام میں جب ہندو اور مسلمان دونوں ہی جیل میں بند ہیں تو پھرکوئی بھی دھماکہ ہونے کے بعد صرف مسلمانوں کا ہی نام کیوں لیا جاتا ہے۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 87193 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.