وہی دل نواز مسکراہٹ فیضی کے چہر
ے پر تھی ، جسے دیکھ کر غم سے چور دل بھی مسکرااٹھے ، وہ تھا واقعی شوخ ،
چنچل اور خوش ادا ۔
رات اندھیروں میں ڈوبی تھی ، ٹرین تاریکی کے سینہ کو چاک کرتی ہوئی چلی
جارہی تھی ، فیضی کی مسکراہٹ کے پیچھے تلخ حقیقت کی ایک دنیا آباد تھی ،
لیکن اندازہ کرے تو کون___ماں کہاں تھی ، جو چہرہ پرآتی جاتی لکیروں کو پڑھ
کر بیٹے کے دکھ درد کا پتہ لگا سکے ___رات مزید گہری ہوتی جارہی تھی ، ٹرین
کے مسافر نیند کی بانہوں میں تھے ، فیضی کی مسکراہٹ در حقیقت میں ذو معنی
تھی ، دلنواز تو تھی ہی ، ساتھ ہی ساتھ قاتل بھی ۔
فیضی کی مسکراہٹ نے جہاں نہ جانے کتنوں کو گھائل کیا تھا ، وہیں ثانیہ بھی
بچ نہ سکی ، وہ تو چند منٹوں میں گھائل ہو گئی ، ثانیہ کو یقین تو اب آیا
کہ مسکان بھی قاتل ہوتا ہے ۔
امی کے ساتھ ثانیہ ٹرین میں تھی ، امی خوش تھی ، سفر کے تکا ن کا انہیں ذرا
بھی احساس نہیں ہوا تھا ، فیضی جو مل گیا تھا بورنگ کا دشمن ! دن کیسے تمام
ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا ___ثانیہ کو بھی نہیں ___مگر ثانیہ کے لئے رات
پہاڑ ہوگئی تھی ، کاٹے نہیں کٹتی تھی ، آنکھ لگ گئی تو کچھ احساس نہیں ،
کھلی تو جہنم ، رہ رہ کر کھل ہی جاتی تھیں اس کی آنکھیں ، کربھی کیا سکتی
تھی ، سوائے اس کے سائڈ برتھ پر پڑے اپنے’ قاتل‘ پرمیڈل برتھ سے بس اک نظر
ڈال لے ۔
کہتے ہیں نا کہ مسلسل جو کوئی کئی رات نہ سوئے ، سولی پر بھی سوسکتا ہے ۔فیضی
کئی رات نہ سونے کے باوجود بھی آج رات نہیں سو پا رہا تھا ، مانو بستر ڈس
رہا ہو ، کروٹ بدل بدل کر یوں ہی رات تمام کررہا تھا ، ثانیہ کے لئے اس کی
بدلتی کروٹوں میں شاید سکون کا راز چھپا تھا ، وہ سوچتی تھی کہ شاید فیضی
کی نیند میں نے ہی وہ تخیلات کی وادی میں تھی ، دوتہائی رات گزر گئی تھی ،
کسی طرح اس کی آنکھ لگ گئی ، مگر اب خوابوں کی حسین وادی
”فیضی بولوں ! میرادل کچھ کہنا چاہتا ہے ، کیا سنے گا تمہارا دل بھی“
”ہاں ! بولونا “
”دل کی آواز تو دل ہی سنتا ہے ، دل نے کچھ کہا ، پتہ چلا کچھ تمہیں “
خواب کی وادی میں ثانیہ انہیں خیالوں سے کھیل رہی تھی ، فیضی کی ہاں کی
خوشیوں سے اس کی بانچھیں کھل گئی تھیں ، مگریہ خوشیاں طویل نہیں ہوئیں کہ
آنکھیں کھل گئیں اورخواب بس خواب ہی رہ گیا ، دل کی تسلی کے لئے بکھرے
خیالات کی دنیا سے نکل کر اپنے قاتل پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ، مگر اب سائڈ
برتھ پر فیضی کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا، کئی گھنٹے گزر گئے ، اب تک
بھی وہ واپس نہیں آیا ، ثانیہ اب لاپتہ نوجوان کے لئے بیقرار تھی ، انجانے
خدشات سے اس کی حالت بدلتی جارہی تھی ، امی بھی اداس اداس تھی کہ آخر وہ
ہنس مکھ اورچنچل کہاں گیا ، منزل تو اس کی وہی تھی تو جو امی کی تھی، مگر
درمیان سے لا پتہ ہونا ہر ایک کے لئے تعجب خیز تھا ۔
تجسس بھری نگاہوں سے سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ، اتنے میں امی چند
منٹوں کے لئے اٹھ کر کہیں گئیں ، ثانیہ نے جھٹ سائڈ برتھ پڑی ڈائری اٹھائی
اور اَپر برتھ پر چلی گئی ، ڈائری سرسری دیکھنے کے بعد اس کے دل میں تجسس
پیدا ہوا اورانتہائی مصروف ہوکر اسے پڑھی جارہی تھی ، ڈائری میں اس کی
زندگی کے حسین لمحات بھی تھے اورتلخ تجربات بھی ، بچپن کی نازک خیالی تھی ،
لڑکپن کی لا پروائی بھی ۔
ڈائری کے صفحات پر زندگی کی چکی بہت تیز گھومتی جارہی تھی ، اس کے نشیب
وفراز میں ثانیہ کے لئے عجیب شگفتگی تھی ، اس دوران اس کے چہرہ کی شگفتگی
بھی دیکھنے کے قابل تھی ۔
وقت اب کوئی گیارہ بجے کا تھا ، موسم خوشگوار تھا ، مگر اب ثانیہ کا چہرہ
اتر گیا تھا ، اس کی سرمگیں آنکھیں جیسے آنسو وں میں تیر رہی ہوں ، ابھی وہ
نیم دراز تھی ، کپکپاتے دل کو تھاما اور بے التفاتی سے اٹھ بیٹھی ، اب اپنے
پیروں کو نیم دراز کیا اور دونوں گھٹنوں پر دونوں ہتھیلیاں رکھ دی ، اس کے
بعد اپنی صراحی نما گردن خم کرکے بند آنکھیں ہتھیلیوں پر رکھ کر نہ جانے
کہاں کھو سی گئی ، سامنے ڈائری اب بھی کھلی تھی ، مگر ماں کی مسلسل اصرار
پر ناشتہ کے لئے نیچے اتر آئی ۔
ڈائری تو کھلی ہی تھی ، اس کے صفحات الٹ پلٹ رہے تھے ، ایک صفحہ پر کچھ یو
ں تھا:___
”ہم نے ایک حد تک روایتی تعلیم مکمل کرلی ہے ، ذریعہ معاش کی فکر سے دماغ
پھٹا جارہا ہے ، ایک نئے شہر میں ہوں ، راستہ اجنبی ، لوگ اجنبی، تنگ
وتاریک ایک کرایہ کا کمرہ ہے ، جو سچ مانیں تو غریب الوطن چار افراد کے لئے
ناکافی ہے ، امس بھری گرمی ہے ، پانی اتنا گرم کہ پیاس اور جگادے ، کہتے
ہیں نا کہ دبیز اور نرم گداز بستروں سے کہیں زیادہ نیند کو ٹوٹی چٹائی پر
راحت ملتی ہے ، اس کا صحیح اندازہ آج ہوا کہ میرے علاوہ بقیہ تینوں ساتھی
گہری نیند میں ہیں ، لیکن غموں کی ڈنک نے میر ی نیند اڑادی ، میر ی انگلیوں
میں قلم رقص کررہا ہے اور سیاہ ہوتے صفحات میری ہتھیلیوں کے نیچے بے دم ہیں
، دا ہنی دیوار پر ٹکی کھڑکی کے ٹوٹے شیشوں سے لمس ہوکر اسٹریٹ لائٹ کی
مدھم روشنی آرہی ہے ، خاموش رات میں ہو ں ، میرا قلم ہے اور سیاہ ہوتے
صفحات “۔
ثانیہ کے ہاتھوں نے ایک بار پھر ڈائری تھام لی اور نظریں ایک ایسے صفحہ کو
بوسہ دے رہی تھی ،جس پر
”رات نیند اڑی تھی اب دماغ دھواں دھواں ہے ، گھر کی فون کال بڑی تکلیف دہ
تھی ، کوئی ساڑھے تین ماہ گزر گئے ، کب تک بے روزگاری کی مار جھیلوں “
ثانیہ آب دیدہ ہوگئی ،مگر دردناک لمحات کے بعد ایک صفحہ نے ٹھنڈی سانس لینے
کاموقع دیا ، فیضی کی زندگی کے کروٹ لیتے لمحات سے ہلکی سی خوشی کا احساس
ہوا ، سیاہ اور گھنی زلف سے جو ریشم جیسے چند بال ڈائری اور آنکھوں کے
سامنے آگئے تھے ، انہیں انگلیوں کے سہارے ٹھہر ٹھہر کر کند ھے پر رکھ دیا ،
پھر ایک بار نگاہ ڈائری پر ٹک گئی ۔
”اجنبی شہر میں کوئی چارماہ گزر گئے ، آج کسی فرشتہ صفت انسان سے ملاقات
ہوئی ، وہ سخی ہیں ، ملنسار ہیں ، غم خوار ہیں ، اس کی کشادہ پیشانی پر
مروت کی لکیریں ابھریں ہیں ، انہوں نے حالات زندگی سن کر فی الحال ایک
معمولی کام مجھے سپرد کیا ہے ، مگر معاوضہ امید سے زیادہ ، بہت زیادہ دل سے
بے ساختہ نکلا سبحان تری قدرت!!“
ثانیہ نے ایک اور صفحہ الٹ دیا ، ہونٹوں پر تبسم ، چہرے پر خوشیوں کی
لکیریں ، طبیعت میں شگفتگی
”کچھ دنوں قبل جو مضمون مجھ سے لکھ گیا ، وہ شاید میری زندگی کا سب سے اچھا
ہے ، ملازمت اختیار کئے اب کوئی سال بھر کا عرصہ گزر گیا ہے ، اس درمیان
اچھے لکھنے پڑھنے والوں سے رابطے ہوئے ، میرے ’با س‘ کے پاس ایسے لوگ بارہا
آتے جاتے رہتے ہیں ، ان میں سے بیشتر نے میرے اس مضمون کو شاہکار بتایا ہے
، ان کے مشوروں پر ہی اس مضمون کو اسی رسالہ میں شائع ہونے بھیج دیا ہے ،
جس میں ہر ہفتہ میرے باس کے نام سے ایک مضمون جلی عنوان میں شائع ہوتا ہے ،
میڈیا میں بنا رہنا ان کا شوق تھا یا مجبوری انتظار کر کرکے تھک گیا ، مگر
چھ ہفتے بعد بھی میرے اس مضمون کو کوئی جگہ نہیں مل پائی ، کہتے ہیں نا کہ
جہد مسلسل کامیابی کی شاہ کلید ہے ، اب تو ہر ہفتہ اپنے ’غم خوار مالک‘ کی
طرح ایک مضمون اپنے نام سے بھی بھیجنے لگا ، اس امید پر کہ شاید کسی ہفتہ
جگہ ملے اور“
ثانیہ کی انگلیوں کے اشارہ نے ایک اور صفحہ الٹ دیا :
”میرے اہل خانہ اب بہت خوش ہیں ، انہیں فی ماہ امید سے زیادہ بہت کچھ مل
جاتا ہے ، ادھر میرے باس نے شاید خوش ہو کر میری تنخواہ مزید بڑھادی ہے ،
شاید میری مشغولیت ان کے لئے اور بڑھے ، مگر اب تک تو انہوں نے ایسا کوئی
اشارہ نہیں دیا ہے “۔
چند ثانیہ کے بعد ثانیہ کی نگاہ اس پر آٹکی :
”ایک بار پھر الجھنوں نے مجھے آلیا ، اب تو پیسے بھی ہیں ، فاقوں کی نوبت
آتی ہی نہیں ، گھر سے درد بھری فون کال بھی نہیں ، بستر بھی نرم گداز ہے ،
گرمی کا موسم ہے ، سامنے ٹھنڈا پانی بھی ہے ، مگر حیران ہوں ، راتوں کی
نیند پھر حرام ہے ، آج اورزیادہ کچھ ڈائری لکھنا نہیں چاہتا ، ویسے تو کئی
کئی صفحات سیاہ کرڈالتا ہوں “۔
ثانیہ اب کسی دوسرے صفحہ پر ہے :
”آج پندرہ مارچ ہے ، صبح پہلی فلائٹ سے باس کی بیرون ممالک روانگی ہے ، ان
کی کال آئی تھی کہ مجھے بھی ان کے ساتھ ایئر پورٹ جانا ہے ، عالی شان محل
کے سامنے کئی چمچماتی کار لگی ہیں ، ایئر پورٹ جاتے ہوئے ایک کار میں ہم
دونو ں کے سوا ڈرائیور ہے ، پیچھے کی سیٹ پر انہوں نے میری بڑھتی ذمہ
داریوں کا احسا س کچھ اس طرح دلایا :
’فیضی دیکھو!کوئی ایک مہینہ کے لئے جارہا ہوں ، تمہاری ذمہ داری کچھ بڑھ
گئی ہے ، دو ہفت روزہ رسالہ کے لئے تم ہمارے لئے لکھتے تو تھے ہی ، اب ایک
اور روزنامہ کو میرا آرٹیکل مسلسل جائے گا ، اس کی ذمہ داری بھی ‘
ان کے حکم کی تعمیل کی کوشش کی ، مگر کوئی دس دن بھی نہیں گزرے کہ ان کی
کال آئی ، پھر چوتھے روزنامہ میں لکھنے کی ایک اور ذمہ داری ،ان تمام میں
کبھی میرے نام سے لاکھ کوشش کے باوجود بھی کوئی مضمون شائع نہیں ہو سکا
تھا۔
ان کے فون کے جواب میں میری زبان سے صرف اتنا ہی نکلا’سر‘
اب کیا تھا ، ان کے تیور سخت تھے ، سخت لہجے میں برسنے لگے ، میرے ساتھ کی
گئی تمام ’ ہمدردیوں‘ کو گنوانا شروع کردیا، صرف یہیں تک بس نہیں ، دھمکی
آمیز لہجہ میں کہا’تمہاری سانسوں پر مجھے اختیار ہے ، جب چاہوں چھین لوں
میر ی مرضی ،دہلی میری ہے میری‘۔ کاموں کا ہجوم ہے ، ایک ہفتہ میں اتنے
مضامین میرا لاپتہ ہوجانا ہی میری سلامتی کے لئے ضروری ہے ، یہ سوچ کر میں
اب ٹرین میں ہو ں “۔
ڈائری کا یہ آخری صفحہ تھا ، ثانیہ کی آنکھوں سے اس کے صبیح رخسار پرآنسووں
کے قطرے ڈھلک ڈھلک کر خشک ہوتے چلے جارہے تھے ، دل صرف یہی سوال داغے جار
ہا تھا ، وہ لا پتہ نوجوان اب مل پائے گا مجھے؟ ۔ |