حسرت ان غنچوں پہ ہے․․․․․

وہ شہر میں پاگل کے نام سے مشہورتھا ۔ بچے کیا بڑے بھی اس پر جملے کستے ‘پتھر مارتے اور اس پر قہقہے لگاتے تھے مگر وہ کسی سے کچھ نہیں کہتا ۔چپ چاپ سب کچھ برداشت کر تا رہتا ۔ نہ اس نے کبھی کسی سے کچھ مانگا تھا نہ ہی کسی کچھ کہا تھا ۔وہ کون تھا؟کہاں سے آتا تھا اور شام ہوتے ہی کہاں چلا جاتا تھا؟ کسی کو کچھ نہیں پتا تھا ۔اس کے پیچھے جانے کی کئی بار کچھ منچلوں نے کوشش کی مگر وہ انھیں چکمہ دے کر نکل گیااورپیچھا کر نے والے خاک چھانتے رہ گئے۔دوسرے دن ہر دن کی طرح وہ پھر شہر کی گلیوں میں عجیب عجیب سی صدائیں لگاتا پھر رہا تھا اور اسے دھتکار رہے تھے ‘بچے اسے پتھر ماررہے تھے ۔

ایک دن نہ جانے اس کا کیا ہو ا۔صدائیں دیتا ہوااچانک کائنات اور خالق کائنات کی تعریف کر نے لگا۔بے مثال تخلیق ‘لامثال صناعی اور لازوال حسن فطرت کے قصیدے پڑھنے لگا۔ ’’واہ خالق کائنات کیا کہنے ہیں آپ کے آ پ کی قدرت کے ۔یہ نیلا نیلا بیکراں آسمان کتنی خوبصورتی سے بنایا ہے۔ زمین کتنی شاندار اور کامل فن کاری سے بنا ئی اور اسے پیروں تلے بچھا دیا۔ آسمانوں سے باتیں کر تے او نچے اونچے رنگ برنگے پہاڑکتنے شاندار اسٹریچکر اور سانچے میں ڈھال کر بنا ئے ۔ جنگل ‘ دریا‘ سمندر اور صحرابنا کر میلوں کے فاصلو ں پر پھیلادیے اور انھیں کروڑہا مخلوقات سے بھر دیا۔باغوں میں صدہا رنگ کے پھول اور ہزار طرح کے پھل پیدا کر دیے ۔ یہ سب کتنی شاندار منصوبہ بندی سے کیا ہے۔ کہیں بھی کسی بھی طر ح کا جھول اور کجی نظرنہیں آتی ۔ کہتے ہیں کہ ان سب کو بنے ہو ئے لاتعداد سال گذر چکے مگر مجھے تو آج بھی یہ سب نیا کا نیا لگ رہا ہے کہیں سے بھی بو سیدگی‘پرانہ پن اور سال خوردگی نظر نہیں آتی ۔ اﷲ پاک ! اس کائنات کے خالق! میں آپ کی صنعت و حرفت پر قربان جا ؤ ں‘مجھے سو جان ملیں اور سب قربان ہو جا ئیں‘میں بار بار پیدا ہوؤں اور فنا ہو جا ؤں ‘‘کہتے کہتے وہ جذباتی ہوکرپھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔اسے اپنے آس پاس کی کچھ خبر نہیں تھی حالانکہ لوگوں کی ایک بھیڑ تھی جس نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس پاگل کی باتیں سن رہے تھے ۔ہچکیوں نے اس کا گلا چھوڑا تو وہ پھر کہنے لگا۔

’’اﷲ پاک آپ نے یہ سب بنایا ۔آپ کو کتنی محنت کرنی پڑی ہو گی ۔پتا نہیں آپ کتنی بار تھکے ہوں گے ۔آپ نے کھانا بھی کھایا ہو گا یا نہیں ۔آپ کے کپڑے میلے ہو گئے ہوں گے ‘ انھیں کسی نے صاف کیا ہو گا یا نہیں کائنات کے خالق مجھے اپنے گھر کا پتا دیجیے‘میں آپ کے ہاتھ پیر دبانا چاہتا ہوں ‘آپ کے لیے کھانا بنا ؤں گاآپ کے کپڑے صاف کر وں گا ۔ آپ کے کام کروں گا ‘‘وہ اور بھی جانے کیا کیا کہہ رہا تھا مگر لوگوں سے مزید بر داشت نہیں ہو سکا اور اسے خدا کی شان عالی میں تو ہین اور گستاخی سمجھ کر پاگل کو گالیاں دیتے ہو ئے چل دیے۔مگر اسے کسی کی کو ئی پر واہ نہیں تھی‘نہ اس نے کسی کو بلا یا تھا اور نہ جانے کو کہا تھا ۔لوگ خود آئے اور خود ہی چلے گئے ۔

شام ہوتے ہوتے اس نے پھر اپنا میلا کچیلا سامان اٹھا یا اور ایک طرف چل پڑا ۔ جب لوگوں نے سمجھ لیا کہ شہر پاگل کے وجود سے پاک ہو گیا ہے تو وہ ایک جگہ جمع ہو کر اس کی دن کی ’’بکواسوں ‘‘پر باتیں کر نے لگے ۔دو چار کے علاوہ اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو اسے ’’جہنم رسید‘‘کرنے کی مانگ کر رہے تھے مگر چند دور اندیش ایسے بھی تھے جو اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دینے کی بات کررہے تھے ۔ابھی پاگل کے متعلق کو ئی فیصلہ ہو نہیں پایا کہ اچانک چاروں طرف سے شہر انگاروں ‘شعلوں او رخوف و ہراس کی چپیٹ میں آگیا ۔ایک قیامت ٹوٹ پڑی ۔تاریک رات بلڈنگوں سے اونچی آگ سے رو شن ہو گئی اور سناٹا دلدوز چیخوں سے گونج اٹھا ۔نہ جانے کب تک قتل و غارت گر ی اور آتش زنی کا سلسلہ جاری رہا ۔لوگوں کو ہوش تو تب آیا جب صبح کے وقت شہر کی تصویر ہی بد لی ہو ئی تھی ۔اب تک کہیں کہیں شعلے دہک رہے تھے ‘دھویں اٹھ رہے تھے اور تباہی مچ رہی تھی ۔

اجڑا ہوا شہر دیکھ کر زندہ بچنے والے لوگ ہوش گنوا بیٹھے ۔کچھ کا تو ہارڈ فیل ہو گیا اوروہ لمبے لمبے زمین پر گر گئے ۔ کچھ حوصلے والے مرد اس قیامت کے عالم میں ہوش و حواس میں تھے اورشہر کے اِِس حشر پر افسوس کر رہے تھے ۔اچانک کسی نے کہا ۔’’ہو نہ ہو یہ سب تباہی اس پاگل نے مچا ئی ہے ۔وہ ضرورکسی خونخوار ملک کا جاسوس ہے ۔ہم نے اسے پریشان کیا‘اسے ستایا اس کے جواب میں ہم پر یہ قیامت ٹو ٹی ہے ۔‘‘لوگ ‘کہنے والے کی بات پر یقین کر نے ہی والے تھے کہ ایک طرف سے وہی پاگل شہر کی بر بادی پر رو تا ہوا آیا۔حالانکہ اس کا اس شہر میں کو ئی نہیں تھا ۔نہ وہ کسی کاتھا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں اس طرح رو رہا تھا جیسے یہ اس کے اپنے اس قیامت کی نذر ہو گئے ہوں ۔ لوگ اسے روتا دیکھ کر کہنے لگے ۔’’ارے پاگل! نقصان ہمارا ہوا ہے‘ تو کیوں رو رہا ہے ۔شہر ہمارا اجڑا ہے اور تورو رہا ہے ‘‘

’’نہیں !نہیں !!ایسی بات نہیں ہے بھا ئی ۔مانا کہ اس شہر میں میرا کو ئی نہیں ہے یامیں کسی کا نہیں ہوں ۔لیکن مجھے ایسے لوگوں کے کھونے کا افسوس ہے جو مجھے پاگل کہہ کر مارتے تھے ‘مجھے ان پھول جیسے بچوں یا غنچوں کے اجڑنے پر حسرت ہے جو بن کھلے مر جھا گئے۔ مجھے ان مہربانوں کی موت پر افسوس ہے جو مجھے گالیاں دیا کر تے تھے ۔اب کہاں ملیں گے ایسے لوگ ‘ایسا شہر ‘ایسے بچے ‘‘وہ پھر سر پکڑ کر رو نے لگا او رلوگ اپنے شہر ‘اپنے لوگوں اور بچوں کے ہمدرد کو روتا ہوا دیکھتے رہے ۔’’پاگل یہ نہیں ہے بلکہ تم ہو خود ک عقل مند کہنے والو ۔‘‘اچانک ان کے دل بول پڑے اور انھیں اقرار میں گر دنیں خم کر نی پڑیں‘ہاں ہم ہی پاگل ہیں۔خدا کے بندے ہم سے بھی زیادہ ہو شیار ہیں ۔ ہم صرف اپنے ہی درد پر چیختے ہیں مگر کچھ خدا کے بندے ایس ے بھی ہیں جو دوسروں کے غم کو اپنا سمجھ کر روتے ہیں ۔‘‘ابھی لوگ نادم و پشیما ن تھے کہ ’’پاگل اپنی جگہ سے اٹھا اور جدھر سے آیا تھا ادھر کی چل پڑا ۔پھر کبھی اسے کسی نے شہر میں نہیں دیکھا ۔لوگ دھیر ے دھیر ے اسے بھولتے چلے گئے مگر ایک بات ہمیشہ یاد رہی
’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔‘‘
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56424 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More